کسبِ حلال کی کرامات

ہر سال کی طرح اس سال بھی یکم مئی دنیا بھر میں مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر پورے جوش و ولولے سے منایا گیا۔ سرکاری سطح پر مختلف تقریبات، مذاکرے، سیمینارز، مباحثے اور اس طرح کے دیگر بے پناہ پروگرامز منعقد کیے گئے۔ سیاسی قائدین، مزدور لیڈروں، دانشوروں، قلم کاروں، صحافی حضرات اور تاجر رہنمائوں سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے خوب تقاریر کیں اور اپنے فنِ خطابت کے جوہر دکھائے۔ قلم قبیلے سے تعلق رکھنے والے احباب نے اپنی تحریروں میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم سے لے کر مہنگائی کے طوفان، افراطِ زر کے ہیجان اور معاشی بحران تک سب موضوعات پر جہاں دل کھول کر بات کی وہاں محنت کش طبقے کی بدحالی اور بے بسی کو بھی بخوبی اجاگر کیا۔ دوسری طرف سوشل میڈیا کے ارسطو بھی عقل و دانش کے پیکر بنے مزدور طبقے سے احساسِ ہمدردی کرتے ہوئے نظر آئے۔ وہ دل گرفتہ کرنے والی تصاویر اور پریشان کن عبارات اپنی اپنی وال پر شیئر کرتے پائے گئے۔ شعر و سخن کے دلدادہ موقع کی مناسبت سے مختلف اشعار کے پوسٹر سجا کر مزدوروں سے اظہارِ یکجہتی کرتے دکھائی دیے۔ عوام بھی سوشل میڈیا پر لیبر ڈے کے حوالے سے چند پوسٹیس کر کے اور سٹیٹس لگا مطمئن ہو رہے۔ یہ سب ایک رسمی کارروائی کے طور پر ہر سال اس دن کیا جاتا ہے اور اس اتمام حجت میں ہر شخص حسبِ توفیق اپنا حصہ ڈالتا ہے۔ اس ساری مشق میں وہ آجر بھی شامل ہوتا ہے جو سال بھر مزدور کا استحصال کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں اٹھا رکھتا اور وہ مل مالکان بھی بڑھ چڑھ کر شریک ہوتے ہیں جو اس پسے ہوئے طبقے کی بدحالی میں اپنا کردار خوب نبھاتے ہیں۔ بہت ساری دیگر منافقانہ سرگرمیوں میں سے یہ بھی ایک ریاکارانہ عمل ہے جس میں ہم کسی سے بھی کم نہیں اور وطنِ عزیز میں ایسی کارروائیوں میں ملوث فنکارانہ صلاحیتوں سے مالا مال اعلیٰ نسل کے اداکاروں کی کوئی کمی نہیں ہے۔
خیر یہ تمہیدی کلمات بلاوجہ طوالت کا شکار ہو گئے۔ اس بار یکم مئی کے حوالے سے سوشل میڈیا پر جس خبر نے صحیح معنوں میں طوفان برپا کیا وہ اوکاڑہ کے اخبار فروش محمد انور کی قابلِ فخر ڈاکٹر بیٹی کی وہ تصویر ہے جس میں وہ اپنے خوش نصیب والدین کے ساتھ اپنی شاندار کامیابی پر شاداں نظر آ رہی ہے جبکہ اس کے عظیم باپ کے گلے میں وہ سات گولڈ میڈلز اپنی پوری چمک دمک کے ساتھ موجود ہیں جو اس کی جواں ہمت، انتہائی قابل اور ذہین بیٹی نے ایم بی بی ایس کی ڈگری مکمل کرنے پر حاصل کیے ہیں۔ محمد انور کی اہلیہ بھی نمایاں طور پر اپنی ہونہار بیٹی کی سنہری کامیابیوں پر نازاں دکھائی دے رہی ہیں۔
محمد انور گزشتہ 46 برس سے اخبار فروشی کے ذریعے محدود وسائل کے باوجود اپنے پانچ بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ان کا بڑا بیٹا فارمیسی میں ڈگری مکمل کر چکا ہے اور گریڈ 18 کا افسر ہے، جبکہ اس سے چھوٹی بیٹی ایم فل کیمسٹری اور بی ایڈ ہے اور لیکچرار ہے۔ تیسرے نمبر والی یہ بیٹی ڈاکٹر بن چکی ہے اور اس سے چھوٹی زوالوجی میں ایم فل کے ساتھ تعلیمی سفر مکمل کر چکی ہے جبکہ سب سے چھوٹا بچہ کیمسٹری میں بی ایس آنرز کی ڈگری حاصل کر چکا ہے۔ محمد انور نے خود میٹرک تک تعلیم حاصل کی مگر اخبارات اور میگزین تقسیم کر کے جہاں علم و نور کے فروغ میں اپنا حصہ ڈالا وہاں رزقِ حلال کے لیے گھر گھر، گلی گلی یہ کٹھن کام بلاناغہ کیا۔ اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ معاشی حالات سازگار نہ ہونے کے سبب وہ اپنی تعلیم کو جاری نہ رکھ سکے اور نوکری کی تلاش شروع کر دی۔مناسب نوکری نہ ملنے پر اخبار کی فروخت شروع کر دی اور اسی دوران شادی کے بندھن میں بندھ گئے؛ تاہم انہوں نے ارادہ کیا کہ بھلے وہ خود اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کر سکے لیکن اپنی اولاد کو ضرور اعلیٰ تعلیم دلائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کسی کی مدد کے بغیر کام کیا اور اپنے بچوں کی اعلیٰ تعلیم دلائی۔
گزشتہ 46 برس سے وہ مسلسل اخبار فروشی کام کر رہے ہیں، یقینا سب کو علم ہو گا کہ اس کام میں چھٹی کا تصور تک نہیں ہے۔ انہوں نے موسم کی سختیاں بھی برداشت کیں اور عمر بھر اسی پیشے کے ساتھ پورے اخلاص اور دیانتداری کے ساتھ وفا کی۔ ملک بھر سے محمد انور کی اس بھرپور محنت اور اپنے بچوں کی عمدہ اور قابلِ تقلید تربیت کی تعریف ہو رہی ہے جو یقینا اس عظیم باپ اور اس کی قابلِ ستائش بیٹی کے لیے باعثِ افتخار ہے۔
اگرچہ یہ غیر معمولی کامیابی اپنی نوعیت کے اعتبار اور محدود معاشی وسائل کی موجودگی میں ایک بڑا کارنامہ ہے مگر ہمارے ہاں اس طرح کی قابلِ تعریف بہت سی مثالیں موجود ہیں اور ہر سال مختلف بورڈز اور یونیورسٹی امتحانات میں نمایاں پوزیشنز حاصل کرنے والے طلبہ اور طالبات میں کئی ایک کی زندگی زمانے کی تلخ نوائیوں اور معاشی محرومیوں سے عبارت داستانِ غم بیان کرتی ہے۔ چند سال قبل پنجاب یونیورسٹی کے گریجوایشن کے امتحان میں اول پوزیشن حاصل کرنے والا نوجوان حافظ آباد میں تنور پر روٹیاں لگا کر اپنے تعلیمی اخراجات کا بندوبست کیا کرتا تھا۔ اسی طرح لاہور بورڈ کے ایف ایس سی کے سالانہ امتحانات میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والا قصور کا ایک قابلِ فخر بیٹا رکشہ چلا کر اپنا گزر بسر کرتا تھا۔ پچھلے دنوں ملتان میں بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے بی ایس آنرز کے ایک سمسٹر میں شاندار کامیابی حاصل کرنے والا ذہین نوجوان جوس کارنر پر مزدوری کر کے اپنے تعلیمی سفر کو خوش اسلوبی اور خودداری کے ساتھ آگے بڑھا رہا تھا۔ پاکستان میں محدود وسائل اور معاشی مسائل کا شکار ہونے والے بے شمار والدین اور ان کے بچوں نے محنت کو اپنا شعار اور رزقِ حلال کو اپنا ہتھیار بنا کر مشکلات کے خلاف ہر محاذ پر کامیابی حاصل کی ہے۔
مجھے فیصل آباد کا وہ خود دار باپ یاد آرہا ہے جو ڈی گرائونڈ میں واقع ایک فرنیچر شاپ پر اپنے رکشے کے ساتھ شام چھ بجے سے لے کر رات گئے تک کام کرتا ہے جبکہ دن میں وہ محکمہ تعلیم میں گریڈ 16کی ملازمت کر رہا ہے۔ اس نے کسبِ حلال کا راستہ چنا اور سرکاری نوکری میں حرام خوری کے بجائے رزقِ حلال کی راہ اپنائی اور مزید محنت کر کے اضافی وسائل کے ذریعے اپنے بچوں کو بہترین تعلیم و تربیت کی دولت سے سرفراز کیا۔ فیصل آباد ہی سے تعلق رکھنے والا سکول ٹیچر عزیز لاڑا‘ جس نے اپنی محدود تنخواہ میں اپنی سات بیٹیوں کی مثالی پرورش کی اور انہیں بہترین تعلیم دلانے کے لیے اپنا تن‘ من‘ دھن وار دیا ہے۔ اس کی چار قابلِ فخر بیٹیاں ڈاکٹر بن چکی ہیں جبکہ چھوٹی تین بیٹیاں بھی اپنے عظیم باپ کے کسبِ حلال کی بدولت اپنی کلاسز میں نمایاں پوزیشنز لیے جا رہی ہیں۔ امید ہے کہ اگلے چند سال میں وہ بھی سنہری کامیابیاں اپنے نام کر کے قابلِ تقلید مثال بن جائیں گی۔
ہمارے وطن میں محنت کش کسان ہوں یا سنگلاخ پہاڑوں کا سینہ چاک کر کے سڑکیں بنانے والے مزدور، کان کنی میں جان جوکھوں میں ڈال کر انتہائی خطرناک کام میں مصروف کان کن ہوں یا سخت گرمی کی دوپہروں میں بھٹوں کے آتش دانوں سے اینٹیں نکالنے والے جفاکش‘ یہ سب کسبِ حلال کمانے والے قابلِ تعظیم اور قابلِ تقلید ہیں جو اپنے خون پسینے کی کمائی سے اپنے بچوں کو پاکیزہ خوراک اور رزقِ حلال کی دولتِ بے مثل سے مالا مال کر رہے ہیں۔ اللہ کریم کے آخری نبی حضرت محمد مصطفیﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ''الکاسب حبیب اللہ‘‘ یعنی کسبِ حلال کمانے والااللہ کا دوست ہے۔ اور جسے اللہ اپنا دوست بنا لے پھر بھلا اس کے خاندان اور اس کی آل اولاد کو کامیابیوں سے کون روک سکتا ہے؟ دراصل یہ سب کسبِ حلال کی کرامات ہیں جو ہمارے سامنے آئے روز عیاں ہوتی رہتی ہیں مگر ہم ہیں کہ ان معجزانہ کامیابیوں میں پنہاں فکر و دانش کے اَسرار و رموز کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں