آسمان گرا‘ نہ زمین پھٹی... بربریت ہے یا دہشت گردی... یہ درندگی کا کون سا نمونہ ہے کہ سفاکوں نے کس بے دردی سے بچوں کے سامنے ان کی ماں کی بے حرمتی کر ڈالی۔ یہ خبر سماعتوں پر ڈرون حملہ بن کر گری یا آسمانی بجلی، دماغ شل اور آنکھیں پتھرائی محسوس ہوتی ہیں، دل ہے کہ بس ڈوبا ہی چلا جاتا ہے۔
اب ایسے سماج پر، ایسی گورننس پر، مصلحت میں لتھڑے ہوئے فیصلوں اور سیاست سے بھرے بیانات پر، ایسے دعووں اور ایسے وعدوں پر، حکمرانوں کے لمبے لمبے بھاشنوں پر، جلوسوں پر‘ جلسوں پر کیا بات کی جائے کہ ایسا دلخراش واقعہ کہ پتھر دل بھی ریزہ ریزہ ہو جائے۔ نیم پاگل کر دینے والا یہ سانحہ اعصاب سے لے کر نفسیات تک، دل و دماغ سے لے کر ہوش وحواس تک، دن کے چین سے لے کر رات کے آرام تک، سبھی پر حشر برپا کر رہا ہے۔
کرۂ ارض پر شاید ہی کوئی ایسا خطہ ہو جہاں‘ بڑے سے بڑا سانحہ ہو یا کوئی دلخراش واقعہ‘ بس آرام سے نوٹس لے کر رپورٹ طلب کر لی جاتی ہو۔ اس سانحہ پر بھی نوٹس لے لیا گیا ہے، رپورٹ طلب کر لی گئی ہے، باقی سبھی کچھ معمول کے مطابق جاری ہے۔ صوبائی دارالحکومت میں ایسی قیامت کہ انسانیت بھی شرما جائے۔ تصور سے ہی روح کانپ جاتی ہے، جن بچوں کے سامنے یہ درندگی کی گئی ان بچوں کی نفسیات اور اعصاب پر کیا قیامت ٹوٹی ہو گی۔ وہ ماں کیا کبھی زندوں میں شمار ہو گی...؟
کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ اجتماعی زیادتی اس خاتون سے نہیں بلکہ پورے معاشرے سے ہوئی ہے، یہ اس نظام اور طرزِ حکومت سے زیادتی ہے۔ جائے وقوعہ کوئی جنگل یا دور دراز صحرا نہیں ہے‘ یہ سانحہ شہر لاہور کی حدود میں پیش آیا ہے۔ اس پر لکھتے ہوئے ہاتھ شل ہیں اور آنکھیں بھی پتھرا چکی ہیں۔ یہ کیسا سماج ہے، یہ کیسی طرزِ حکمرانی ہے، کہیں قتلِ طفلاں کی منادی کا سماں ہے، کہیں پھول جیسی کلیوں کو درندگی کا نشانہ بنا کر ہمیشہ کے لیے کچل دیا جاتا ہے۔ کہیں صحت عامہ کے بلند بانگ دعووں کے باوجود موت کی آہٹ محسوس کی جاتی ہے، کہیں ہاتھ کی صفائی نصب العین ہے تو کہیں سرکاری وسائل کو ذاتی جاگیر سمجھا جاتا ہے۔ کہیں میرٹ تار تار ہے، تو کہیں اخلاقی اور سماجی قدریں لیر و لیر... نامعلوم اہلیت اور صفر کارکردگی کے باوجود نجانے کون سا کارنامہ سر انجام دیا ہے کہ پھولے نہیں سماتے۔ کہیں وزراء کی من مانی ہے تو کہیں مشیروں کی اجارہ داری۔ انتظامی بابوؤں کی تو بس موج لگی ہوئی ہے۔ ملک بھر میں ایک سرکس کا سماں ہے۔ سانحات اور صدمات قوم کا مقدر بنتے چلے جا رہے ہیں۔
گورننس اور ریفارمز پر حکمرانوں کی تقریریں سننے والا نہ صرف چکرا کے رہ جائے بلکہ یہ بھی سوچنے پر مجبور ہو جائے کہ یہ کسی اور سیارے کی بات کی جا رہی ہے یا کوئی دیو مالائی داستان بیان کی جا رہی ہے۔ سیاہ بخت عوام روز کتنی بار مرتے ہیں‘ کبھی طرز حکمرانی کے نتیجے میں... کبھی نیتِ بد سے مجبور فیصلوں کے نتیجے میں... مصلحتوں سے مجبوریوں تک... بندہ نوازی سے کنبہ پروری تک... بوئے سلطانی سے من مانیوں تک... ان سبھی کے نتیجے میں ہم قطرہ قطرہ... ریزہ ریزہ... دھیرے دھیرے اور ٹکڑوں میں نجانے کتنی بار مرتے ہیں۔
بندہ ان سانحات کا ماتم کرے یا سینہ کوبی، بالوں میں خاک اُڑائے یا گریبان چاک کر کے بیابانوں میں نکل جائے، یہ کیسے لوگ ہیں کہ انہیں نیند بھی آ جاتی ہے اور سارا دن شاہانہ تام جھام کے ساتھ کس طرح اترائے بھی پھرتے ہیں، کیا یہ اس طرزِ حکمرانی کا حساب دے پائیں گے؟ اپنے رَبّ کی گورننس جیسی اس عطا کا یہ کیا حساب دیں گے...؟ ایسے حالات کا ماتم کرنے کے لیے نہ صرف الفاظ کا قحط درپیش ہے بلکہ قلم بھی لڑکھڑا رہا ہے۔ سہارے کے لیے ایک فرضی حکایت بطور استعارہ پیش خدمت ہے:
ایک بادشاہ کافی عرصہ سے بیمار تھا‘ جب اسے بچنے کی کوئی امید باقی نہ رہی تو اس نے ایک عجیب وغریب اعلان کروا دیا کہ میرے مرنے کے بعد میری تدفین سے پہلے جو شخص ایک رات میری قبر میں گزارے گا‘ اسے آدھی سلطنت انعام میں دی جائے گی لیکن کئی بار منادی کروانے کے باوجودکوئی نہ آیا... اڑتی اڑتی یہ خبر ملک کے دور دراز علاقے میں ایک مفلوک الحال شخص تک بھی جا پہنچی جس کی کل کائنات ایک جھونپڑی اور ایک گدھا تھا۔ دن بھر وہ گدھے پر وزن لادھ کر محنت مزدوری کرتا اور شام ڈھلنے کے بعد کو جھونپڑی میں آکر پڑا رہتا۔ بادشاہ کا یہ اعلان سن کر اس نے سوچا کہ ساری زندگی فاقہ کشی اور محنت مزدوری میں گزر گئی... ایک رات ہی کی تو بات ہے، اس کے بدلے آدھی سلطنت مل گئی تو باقی زندگی عیش و آرام سے گزر سکتی ہے۔ اسی سوچ کے تحت وہ بادشاہ کے دربار جا پہنچا۔ دربانوں نے محل میں اطلاع دی کہ ایک شخص آیا ہے اور وہ بادشاہ سلامت کی قبر میں ایک رات گزارنے پر راضی ہے۔ بادشاہ نے اطلاع پاتے ہی اسے اندر بلا لیا اور اپنے وزیروں سے کہا کہ اسے شاہی مہمان بنا کر رکھا جائے اور میرا انتقال ہوتے ہی اسے میرے لیے کھودی گئی قبر میں ایک رات کے لیے لٹا دیا جائے اور صبح ہوتے ہی اسے قبر سے نکالنے کے بعد نہلا دھلا کر قیمتی پوشاک پہنائی جائے اور آدھی سلطنت اس کے حوالے کر دی جائے۔ بادشاہ کی روح قبض ہوتے ہی اس کی وصیت کے عین مطابق اس شخص کو قبر میں لٹا دیا گیا، رات کے آخری پہر میں حساب پر مامور فرشتے آ گئے، انہیں دیکھتے ہی وہ شخص اٹھ کے بیٹھ گیا اور بولا ''یہ قبر میری نہیں، میں تو یہاں صرف ایک رات کے لیے آیا ہوں، اس قبر کا اصل مکین صبح ہوتے ہی آ جائے گا‘‘۔ جواب ملا کہ اس وقت تو تم ہی موجود ہو حساب تمھیں دینا پڑے گا، وہ جب آئے گا‘ اس کا حساب تب کرلیں گے۔
خیر! اس کا حساب شروع کیا اور کہا گیا کہ تم نے فلاں وقت اپنے گدھے کو کھانا نہیں دیا تھا لہٰذا تمھیں اس ظلم پر دو سو کوڑے پڑیں گے۔ کوڑے کھا کر ابھی سیدھا ہی ہوا تھا کہ ایک اور مقدمہ تیار تھا کہ فلاں وقت گدھے پر اس کی ہمت سے کہیں زیادہ وزن لاد دیا تھا۔ ''زیادہ وزن کی وجہ سے گدھا ٹھیک سے چل بھی نہیں پا رہا تھا لیکن تم نے اس پر چابک برسائے جس پر گدھا تڑپ کر رہ گیا تھا، تمھیں اس پر ترس نہیں آیا اور تم نے اس سے اپنا پورا کام لیا۔ اس بے رحمی پر تمھیں تین سو کوڑے لگائے جائیں گے‘‘۔ مزید تین سو کوڑے کھانے کے بعد وہ اٹھنے لگا تو اسے کہا گیا کہ ابھی لیٹے رہو،ابھی تمھاری سزا باقی ہے۔ پوچھنے پر اس شخص کو بتایا گیا کہ فلاں وقت طوفانی بارش تھی اور ساری رات گدھا بھیگتا اور ٹھٹھرتا رہا لیکن تم مزے سے بستر میں سوتے رہے۔ تمھاری سفاکی پر دو سو کوڑے لگیں گے۔ مزید دو سو کوڑے کھانے کے بعد وہ ادھ موا ہوکر ایک طرف لڑھک گیا اور دل ہی دل میں دعا کرنے لگا کہ کب صبح ہو اور وہ قبر سے باہر نکلے۔ صبح ہونے سے پہلے اسے مزید سو کوڑے لگائے گئے کہ قبر میں آنے سے پہلے اس نے اپنے گدھے کو چارہ نہیں دیا جس کی وجہ سے وہ ساری رات بھوکا رہا۔
صبح ہوتے ہی بادشاہ کی وصیت کے مطابق اس شخص کو قبر سے نکالنے کے لیے قبر کھولی گئی تو کوڑے کھا کھا کر اس ادھ مرے شخص میں بجلی سی کوند گئی۔ باہر نکلتے ہی وہ سرپٹ دوڑ پڑا... وزرا اور درباری اسے آوازیں دیتے رہے لیکن اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ۔شاہی دربانوں کو اس کے تعاقب میں دوڑایا گیا جو اسے جلد ہی پکڑ لائے تو وزیروں نے اس شخص سے کہا کہ تم شرط پوری کرکے آدھی سلطنت کے حقدار بن چکے ہو۔ اب تمھارے ٹھاٹ باٹ کے دن آئے ہیں تو تم بھاگ کیوں رہے ہو؟ وہ شخص ہاتھ جوڑ کر روتے ہوئے بولا کہ مجھے کچھ نہیں چاہیے۔ بس مجھے جانے دو! میں تو ایک گدھے کا حساب نہیں دے پایا‘ آدھی سلطنت کا حساب کیسے دوں گا؟
اس طرزِ حکمرانی کا جبر اور عوام کا صبر... دونوں ہی آمنے سامنے آ چکے ہیں۔ جبر جتنا بھی بڑھ جائے جیت بالآخر صبر کی ہی ہوتی ہے...ع
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
سدا بادشاہی بس اﷲ کی!