"AAC" (space) message & send to 7575

کچھ چلے نہ چلے، بیانیہ چلنا چاہیے!

امپورٹڈ حکومت‘ بیرونی مداخلت اور عالمی سازش جیسے بیانیے حب الوطنی اور غیرتِ قومی کو جگانے کے علاوہ عوام کو اکسانے، اشتعال دلانے اور تقسیم کرنے کا بھی باعث ہو سکتے ہیں۔ بیانیہ سازی سے لے کر بیان بازی تک‘ پوائنٹ سکورنگ سے لے کر غلبہ حاصل کرنے تک‘ مخالفین کے لتے لینے سے لے کر کردار کشی تک‘ سیاسی اختلافات کو ذاتی عناد، بغض اور دشمنیوں میں تبدیل کرنے سے لے کر پوائنٹ آف نو ریٹرن پر لے جانے تک‘ ایک دوسرے کی وطن پرستی پر انگلی اٹھانے سے لے کر غداری کا طعنہ دے کر تار تار کرنے تک منظرنامہ اس قدر تشویشناک ہوتا چلا جارہا ہے کہ خدا خیر کرے میرے آشیانے کی۔ حصول اقتدار کے لیے بے تاب اور بے چین رہنے والے ہوں یا طولِ اقتدار کے لیے کسی بھی حد تک جانے والے‘ سبھی کردار تو بدل چکے ہیں‘ لیکن ممکن ہے کھیل اسی طرح جاری رہے۔ حدت اور شدت میں غیر معمولی اضافہ سیاسی درجہ حرارت کو خطرناک حد تک پہنچا سکتا ہے۔
کارکردگی اور قول کی حرمت سے بے نیاز 'سماج سیوک‘ نیتا حصول اقتدار کے لیے مارے مارے پھرنے والے ہوں یا آزمانے والے۔ سبھی 'سماج سیوک‘ نیتا نجانے کن ناکردہ گناہوں کی سزا اور عذابِ مسلسل لگتے ہیں۔ وہی چہرے وہی کردار۔ وہی دعوے وہی بڑھکیں۔ وہی بیانات وہی الزام تراشیاں۔ نہ کوئی اخلاقیات ہیں نہ کوئی شرم و لحاظ‘ نہ احترام آدمیت۔ تحمل، برداشت اور بردباری جیسے اوصاف تو گویا ناپید ہی ہو چکے ہیں۔ زبانوں سے ایک دوسرے کے خلاف یوں شعلے اگلتے ہیں کہ بس نہیں چلتا مدِمقابل کو بھسم کر ڈالیں۔ ایسی چیخ و پکار کرتے ہیں‘ جیسے ان کی جائیدادوں کے جھگڑے اور ذاتی دشمنیاں ہوں۔ ملک کو کہیں اکھاڑا تو کہیںعناد‘ بغض اور انتقام کی آگ نے انگار وادی بنا کر رکھ دیا ہے۔ اکثر یوں محسوس ہوتا ہے کہ قسمت ہی روٹھ گئی ہے۔ تبھی تو یہ سیاہ بختی پون صدی گزرنے کے باوجود ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔
بیانیہ سازی سے لے کر بیانیہ فروشی تک کے سبھی کردار فراموش کرنے پر آتے ہیں تو قانون اور ضابطوں سے لے کر آئین اور حلف تک سب یکسر فراموش کر ڈالتے ہیں۔ ان سبھی سے انحراف کر کے بھی محض اس لیے اترائے پھرتے ہیں کہ ان کا بیانیہ سپرہٹ ہو گیا۔ بس بیانیہ چلنا چاہیے اور بھلے کچھ چلے نہ چلے۔ ان جمہوری چیمپئنز سے کوئی تو پوچھے کہ وہ کون سا سنہری دور تھا‘ وہ کون سے خوش نصیب دن تھے‘ وہ کون سے یادگار لمحات تھے کہ مملکت خداداد میں حقیقی جمہوریت کی کونپلیں پھوٹی ہوں۔ عوامی مینڈیٹ کے درخت پھل پھول سے لدے ہوں۔ تحمل، برداشت اور بردباری کی فضا نے سیاسی ماحول کو مہکایاہو۔ آئین کی پاسداری اور قانون و ضابطوں پر عملداری ہوئی ہو۔ انتخابی دعووں اور وعدوں کو برسراقتدار آکر عملی اقدامات کی شکل دی گئی ہو۔ مفاد عامہ نصب العین بنایا ہو۔ سرکاری وسائل اور خزانے کو امانت سمجھا ہو۔ صادق اور امین کے معانی نہ الٹائے ہوں۔ دادرسی کیلئے سائل در در کی خاک نہ چھانتے ہوں۔ ناحق مارے جانے والوں کی روحیں انصاف کے لیے نہ بھٹکی ہوں۔ قانون اور ضابطے جبر اور ظلم کے اشاروں پر نہ ناچے ہوں۔ سربلند کو سرنگوں کرنے کیلئے انتظامی مشینری کا ناجائز استعمال نہ کیا ہو۔ کلیدی عہدوں کی بندر بانٹ نہ کی گئی ہو۔ پیداواری عہدوں کی بولی نہ لگی ہو۔ اقتدار اور وسائل کے بٹوارے نہ ہوئے ہوں۔ بوئے سلطانی کے ماروں نے اداروں کو نہ للکارا ہو۔ بندہ پروری اور اقربا پروری کے ساتھ ساتھ شکم پروری کی بدعت کو فروغ نہ دیا ہو۔ حرام حلال کی تمیز کو نہ مٹایا ہو۔ ان چشم کشا اور ناقابل تردید تلخ حقائق کی موجودگی میں کس منہ سے بیرونی مداخلت اور عالمی سازش کی بات کی جاتی ہے؟ مسلسل بداعمالیوں کے بعد کسی سازش کی ضرورت باقی رہتی ہے؟ انحراف آئین سے ہو یا عوام سے کیے گئے وعدوں سے‘ دونوں صورتوں میں یہ ملک و قوم کے خلاف سازش ہے۔ بیرونی مداخلت کا بیانیہ بھی ضرور بیچیں لیکن خیال رہے کہ شعلہ بیانی اور اشتعال انگیزی میں اس حد تک نہ چلے جائیں کہ اپنی لگائی آگ کَل خود سے بھی نہ بجھے۔ گوڈے گوڈے اندرونی و بیرونی مسائل میں دھنسے اور بال بال قرضوں میں جکڑے ممالک کو تمام تر خودمختاری کے باوجود قرضہ دینے والوں کی شرائط اور ٹکے ٹکے کی باتیں سننا پڑتی ہیں۔ یہاں تو کسی بدلحاظ ہمسائے سے قرض لے لوتو وہ آتے جاتے نہ صرف دروازہ کھٹکھٹاتا ہے بلکہ پورے محلے کو نجانے کیا کچھ سناتا ہوا جاتا ہے۔ قرض کو دن کی رسوائی اور رات کی بے چینی یونہی نہیں کہا جاتا۔ جس ملک میں قرضوںکی قسط کی ادائیگی کیلئے بھی قرض لینے کا رواج ہو۔ ٹیکسز اور بجٹ ان قرضوں کی کڑی شرائط کے گرد گھومتے ہوں۔ جہاں معاشی ڈھانچہ محض ڈھانچہ بن چکا ہو۔ اقتصادی اصلاحات صرف کاغذوں کا پلندہ ہو۔ نیت اور ارادے کارِ بد میں لت پت ہوں وہاں ڈکٹیشنز اور مداخلتوں کے عذاب جھیلنے پڑتے ہیں۔ بقول مرزا غالب:
قرض کی پیتے تھے مے، لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
لیکن ہماری فاقہ مستی کو بھی ایسی ایسی مستی چڑھی ہوئی ہے کہ اس کے رنگ ہی ختم نہیں ہوتے۔جو حکمران بھی آتا ہے اپنا رنگ چھوڑ جاتاہے۔ رنگ کے ساتھ ساتھ سنگین و رنگین اثرات بھی خوب پائے جاتے ہیں۔ کسی دکاندار سے سودا سلف قرض لیکر بروقت ادائیگی نہ کرو تو وہ مزید ادھار دینے انکار کردیتا ہے؛ تاہم بیرونی قرض خواہوں کے بگڑتے ہوئے تیور ہوں یا کڑی شرائط یہ سبھی عدم استحکام اور انتشار کا باعث ہوتے ہیں۔ ایسے حالات میں ڈکٹیشن یا مداخلت پر مصلحت ہی اختیار کی جاتی ہے۔ غداری کا فتویٰ جاری کرکے کسی کی حب الوطنی کو داغدار کرنے کا اختیار اورٹھیکہ کسی جماعت کے پاس نہیں ہونا چاہئے۔محض ایک بیانیے سے کسی کی حب الوطنی اور وطن پرستی کا فیصلہ کرنے والے قوم کو تقسیم اور انتشار کی آگ میںمت دھکیلیں۔عوام کے پاس جانا ہے تو کارکردگی اور وہ توپیں لے کر جائیں۔امریکہ مخالف بیانیہ مارکیٹ کرنے والے اپنے دور اقتدار میں امورِ حکومت چلانے کیلئے ان در آمدی ماہرین پر انحصار کرتے رہے ہیں جن کی اکثریت امریکہ سے آئی تھی۔ ان سبھی کی اہلیت تاحال نامعلوم اور کارکردگی صفر ہی تھی۔ ان درآمدی مشیروں نے کابینہ میں شامل اچھے اچھے وزیروں کو اس طرح نکڑے لگایاکہ وہ آج اپنے حلقہ انتخاب میں جانے کے قابل نہیں ۔عوامی ووٹ سے منتخب ہوکر آنے والے وزیرں پر امریکہ سے درآمدہ مشیروں کو فوقیت دینے والے کس منہ سے 'امریکہ کا جو یار ہے غدار ہے‘ جیسے بیانیے مارکیٹ کررہے ہیں۔
ماضی کے سبھی ادوار سے جاری یہ مجہول سیاست اور پولیو زدہ طرزِ حکمرانی جوں کی توں جاری ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کردار اور چہروں کے سوا نہ کچھ بدلا ہے اور نہ ہی کچھ بدلتا نظر آرہا ہے۔ اکثر چہرے تو وہی ہیں جو ہر دور میں پارٹی اور وفاداری کی تبدیلی کے ساتھ ہر بار عوام کو کھلا دھوکا دیتے ہیں۔ یہ سبھی بوئے سلطانی سے مجبور اور نظریات سے عاری ہی پائے گئے ہیں۔ عوام کی سادگی کا ماتم کیا جائے یا ان کے نصیب کا‘ جو ہر بار انہیں مینڈیٹ دے کر مقدر کا سکندر تو بنا دیتے ہیں‘ لیکن اپنے مقدر کو ووٹ کی سیاہی مل کر خود ہی سیاہ کر لیتے ہیں۔ سیاہ بختی اور بدنصیبی کا یہ دور یونہی چلتا رہے گا؟اقتدار کے مزے لوٹنے والے ہوں یا اختیارات سمیت بے پناہ نعمتوں کے حامل‘ کیا وہ نہیں جانتے کہ اقتدار کا پہلا دن ہی اختتام کے سفر کا آغاز ہوتا ہے۔گویا ہر گزرتا ہوا دن اقتدار کی اختتامی منزل کا سنگ میل ہوتا ہے۔ اقتدار ہو یا اختیار‘ شروع ہوتے ہی اختتام کی طرف دوڑا چلا جاتا ہے۔ اپنے ہی ہاتھوں اپنے راستے کھوٹے اور منزلیں اجاڑنے والے خدا جانے کارکردگی کے بجائے بیانیہ سازی پر انحصارکیوں کرلیتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں