"AAC" (space) message & send to 7575

ایشیا جنگ کے دہانے پہ

افغانستان سے امریکی فورسز کے انخلاء کی بازگشت کے ساتھ ہی خطے میں امن و استحکام کی جو امید پیدا ہوئی تھی، وہ پلوامہ حملہ کے بعد بھارت اور پاکستان کے مابین بھڑک اٹھنے والی کشیدگی کے باعث دم توڑتی دکھائی دیتی ہے۔ بد قسمتی سے ایک ایسے موقع پر جب ہمارے ریاستی ادارے مغربی سرحدوں کے اس پار چالیس سالوں پہ محیط طویل جنگوں اور خانہ جنگیوں کے مضمرات پہ قابو پانے‘ اور مشرق وسطیٰ کے خونیں تنازعات سے دامن بچانے کی تگ و دو میں مصروف تھے‘ عین اسی وقت کشمیر کی تحریک آزادی کی مہیب لہریں وادی کی حدود سے نکل کے دہلی کے ایوانوں سے ٹکرانے لگی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ تقدیر ایک بار پھر جنوبی ایشیاء کو کسی طویل اور ہولناک جنگ کی بھٹی میں جلانے والی ہے، اگر ایسا ہوا تو یہ جدلیات نہ صرف اس خطے کی تمام مملکتوں کو معاشی ترقی کے نئے امکانات سے محروم کر دیں گی بلکہ یہ اذیت ناک کشمکش جنوبی ایشیا کو کئی ناقابل یقین جغرافیائی تبدیلیوں سے بھی دوچار کر سکتی ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اس وقت کشمیر کا تنازعہ آتش فشاں کے ابلتے ہوئے لاوے کی مانند بہہ نکلنے کو تیار ہے۔ اگر طاقت ور پڑوسی ممالک اور عالمی برادری نے اس قضیہ کے پُر امن حل کی راہ نکالنے میں کردار ادا نہ کیا تو دنیا بہت جلد غیر محدود جنگ کے مناظر دیکھنے پہ مجبور ہو جائے گی۔ 1947 میں مسئلہ کشمیر بظاہر ہندوستان کے بٹوارے کا معمولی جُزو تھا‘ اور اگر اسے تقسیم کے فارمولے اور مقامی آبادی کی خواہش کے مطابق نمٹا دیا جاتا تو دو نوزائیدہ مملکتیں ان تین جنگوں سے بچ سکتی تھیں‘ جو تنازعہ کشمیر کی سرگرانی کے باعث پاکستان اور بھارت کے درمیان لڑی گئیں، لیکن افسوس کہ اس وقت کے برٹش گورنر جنرل لارڈ مائونٹ بیٹن نے اسے محض جغرافیائی تنازعہ سمجھ کے دانستہ التواء میں رکھ کے ایسی مہیب کشمکش کا محرک بنا دیا جس کے مضمرات نے اس خطے کو پسماندگی، غربت و افلاس اور کبھی نہ تھمنے والے تشدد کے حوالے کر دیا۔ تقسیم کے فوری بعد 1948 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان لڑی جانے والی پہلی محدود جنگ کے بعد ہی برطانوی گورنمنٹ اگر یو این کی استصواب رائے کی قرارداد پہ عمل درآمد کرانے میں مدد کرتی تو بھی یہ خطہ ان گنجلک تنازعات سے بچ سکتا تھا‘ جنہوں نے جنوبی ایشیا کو ایک ایٹمی جنگ کے دہانے پہ لا کھڑا کیا ہے۔ دوسروں سے کیا گلہ کیجئے، خود برصغیر کی مقامی قیادت کی تنگ نظری اور نا تجربہ کاری ہی کشمیریوں کو خود کش حملوں کی منزل تک پہنچانے کا ذریعہ بنی۔ یہ بھی فطری امر ہے کہ اگر کسی قوم یا گروہِ انسانی کے لئے اپنے جائزحقوق کے حصول کی تمام آئینی و قانونی راہیں بند کر دی جائیں تو غاصب قوتوں کے خلاف ان کا بندوق اٹھانا جائز ہو جاتا ہے، مگر افسوس کہ اب بھی دنیا تشدد کے محرکات کو ختم کرنے کی بجائے شورش کو کنٹرول کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے؛ حالانکہ دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ دہشت گردی کے اصل محرکات کو ایڈریس کرنے کی بجائے بیس سالوں سے دہشت گردوں کے تعاقب کی مہم چلانے کا تجربہ کر چکی ہے۔ لا ریب، دہشت گردی پہ قابو پانے کی عالمی طاقتوں کی جنگی مہمات جوں جوں زور پکڑتی گئیں توں توں انسانی المیے بھی بڑھتے چلے گئے، جس سے نفرت و تشدد پہ مبنی سوچ زیادہ شدّت کے ساتھ ابھر کے یورپ کے دروازے تک جا پہنچی۔ 
انڈین گورنمنٹ نے طاقت کے استعمال کے ذریعے ستّر سالوں میں بنیادی آزادیوں اور حق خود ارادیت مانگنے والے کشمیریوں کی تین نسلیں تہہ خاک سلا دیں، کشمیریوں کے لئے جنہیں اب فراموش کرنا ممکن نہیں ہو گا؟ حریت کانفرنس کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق جدوجہدِ آزادی میں بھارتی فورسز کے ہاتھوں شہید ہونے والے کشمیریوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہو چکی ہے۔ ریاستی جبر کے خلاف مزاحمت کے باعث کشمیریوں کے کاروبار اور تعلیمی ادارے تباہ ہوتے گئے، جس سے بے روزگاری، غربت و افلاس اور مایوسی بڑھتی رہی۔ اس سے پُر تشدد تحریکوں کو تازہ لہو اور افرادی قوت بہم پہنچی۔ مستزاد یہ کہ وقت گزرنے کے ساتھ اب اس تنازعہ نے کئی نئی جہتیں بھی اختیار کر لیں ہیں، جن میں دو بہت اہم ہیں: ایک تو سندھ طاس معاہدے کے بعد بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر سے نکلنے والے دریائوں کے دہانوں پہ ڈیموں کی تعمیر کے ذریعے اس خطے کے واٹر سورسز پہ مستقل اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش نے کشمیر کی تزویری اہمیت بڑھا دی۔ ہمارے ہاں بہنے والے تمام دریائوں کا سرچشمہ ہونے کی حیثیت سے کشمیر کی سرزمین اب پاکستان کی بقا کا سنٹر آف گرویٹی بن گئی، اس لئے پاکستان مسئلہ کشمیر سے الگ نہیں ہو سکتا۔ دوسرے‘ کشمیر کے تنازعہ میں چین جیسی عالمی طاقت کی تلویث اس ایشو کو ایک نیا زاویہ دینے کا سبب بن گئی۔ مقبوضہ کشمیر کی ساٹھ فیصد آبادی مسلمان، باقی ہندو برہمنوں اور بدھوں کے علاوہ سکھوں پہ محمول ہے۔ اس وقت مقبوضہ جموں و کشمیر پہ مشتمل 45 فیصد شمال مشرقی علاقوں پہ انڈین گورنمنٹ، آزاد کشمیر سمیت گلگت بلتستان پہ مشتمل 35 فیصد جنوب مغربی خطے پہ پاکستان کو تصرف حاصل ہے‘ جبکہ آکسائی پہ مشتمل 20 فیصد علاقہ چین کے قبضہ میں ہے؛ چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ مسئلہ اب پاکستان کی بقاء اور علاقائی طاقتوں کے وسیع تر سٹریٹیجک مفادات کا محور بن چکا ہے؛ تاہم اس مسئلہ کا حل آج بھی استصواب رائے میں مضمر ہے۔ کشمیر میں استصواب کے معاملہ کو التوا میں رکھنے ہی سے یہاں وقفہ وقفہ سے احتجاج کی لہریں اٹھتی رہیں۔ 
ابتداء میں کشمیری عوام نے جمہوری انداز میں بنیادی آزادیوں اور آئینی حقوق مانگنے کی کوشش کی‘ جسے بھارتی ریاست نے طاقت کے ذریعے کچل دیا۔1989 میں پہلی بار کشمیر کی آزادی کی جمہوری تحریکیں تشدد کی طرف مائل ہوئی اور کشمیری نوجوانوں نے بھارتی جارحیت کے خلاف مسلح جدوجہد کی ابتداء کی، جس میں محتاط اندازے کے مطابق ستّر ہزار سے زیادہ کشمیری اپنی زندگیاں گنوا بیٹھے۔ دس ہزار بھارتی فوجی بھی ہلاک ہوئے۔ تاہم 16 جولائی دو ہزار سترہ کو بائیس سالہ کشمیری فریڈم فائٹر برہان وانی کی شہادت نے کشمیری نوجوانوں کو نئی امنگ اور اس تحریک آزادی کو غیر محدود توانائی بخشی، جس کے بعد پوری وادی بھارتی فوج کے لئے جہنم بنتی گئی۔ یہی تغیر خطہ کی تقدیر اور بھارتی ریاست کی نفسیات پہ گہرے اثرات مرتب کر گیا۔ اب مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ میں بھارت کے نیم فوجی دستوں پہ خود کش حملہ کے بعد کشمیر کی جدوجہدِ آزادی ایک نئے مرحلہ میں داخل ہو چکی ہے‘ جس نے بھارتی ریاست کی قوت قاہرہ کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے۔ پلوامہ فدائی حملہ میں چوالیس انڈین فوجیوں کی ہلاکت کے بعد بھارتی حکومت اور سول سوسائٹی کے غیر معمولی اور اندھے رد عمل نے کشمیریوں کو خوفزدہ کرنے کی بجائے بھارت کے طول و عرض میں مسلمانوں اور ہندوئوںکے درمیان نفرتوں کی خلیج مزید بڑھا دی ہے۔ اگر اس قسم کے مزید حملے ہوئے تو یہ خطہ جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ جوں جوں کشمیر پہ بھارتی حکومت کی گرفت کمزور ہوتی جائے گی توں توں مسئلہ کشمیر کے پُرامن حل کے امکانات معدوم ہوتے جائیں گے۔ بھارتی ریاست کشمیری مسلمانوں کے جذبہ حریت کا سامنا کرنے کی بجائے اس کانفلکٹ کو ممکنہ طور پر پاکستان کی جانب منتقل کرنے کی کوشش کرے گی‘ جو دو ایٹمی صلاحیت کے حامل ملکوں کے مابین تصادم کا سبب بن سکتی ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ بھارت 'جیو اور جینے دو‘ کے اصول کو تسلیم کرتے ہوئے کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دے دے۔ اگر انڈیا یہ سمجھتا ہے کہ وہ کشمیر سے نکلنے والے دریائوں پہ ڈیم بنا کے پاکستان کو پانی کے حق سے محروم کر کے گھٹنے ٹیکنے پہ مجبور کر سکتا ہے‘ تو یہ اس کی غلط فہمی ہے۔ پاکستان جنگ کے خوف یا طریقہ کار کے ہتھکنڈوں سے گھبرا کے اپنی بقا کے تقاضوں اور کشمیری مسلمانوں کے حق خود ارادیت کی حمایت سے کبھی دست بردار نہیں ہو گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں