...ایک تو انسان انفرادی طور پہ کائنات کا جُز ہونے کے ناتے ''کل‘‘کو اپنے دائرہ ادراک میں سمیٹنے کی استعداد نہیں رکھتا۔دوسرے کسی بھی گروۂ انسانی کی جغرافیائی‘تہذیبی یا مذہبی شناخت کی پیشگی شرائط کے تحت ازسرنو تشکیل محال ہو گی۔تہذیب و تمدن کوئی فکس چیزنہیں ‘جس کا کسی خاص نقطہ سے آغاز و انجام متعین کیا جا سکے‘ بلکہ یہ ازل سے وقت کی گود میںایک پیچیدہ تر فطری اور سماجی عمل کے نتیجہ میں ہمہ جہت و ہمہ گیر انداز میں پروان چڑھتا ہوا فعال دھارا ہے‘ جس کی جڑیں اس عالم رنگ وبوکی لامحدود وسعتوں اور فطرت انسانی میں پیوست ہیں اور یہ اسی انداز سے مستقبل کی جانب محو ِخرام رہے گا؛ چنانچہ کسی معاشرے کو انسانی ارتقاء کے لاکھوں سال پہ محیط ارتقائی دھارے سے کاٹ کے اسے نو ڈائزئن کردہ اجتماعی شعوری آزادی کے تابع لانا ناممکن ہو گا‘ جو بجائے خود محل نظر ہے۔
بیشک صدیوں پہ محیط ایک کمپلکس فطری وسماجی عمل کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی تہذیبی شناخت کو کسی منصوبہ کے تحت نئے ڈیزائن کے مطابق مرضی کا وجود دینا بھی قطعاً محال ہو گا‘کیونکہ کسی منصوبہ ساز کی محدود عقل میں اتنی وسعت ہے ‘نہ کسی فرد یا گروہ کے پاس اتنی مہلت عمر کہ وہ کل کا ادارک کر سکے اور نہ ہی کسی مفکر کے پاس اتنی ہمہ جہت اورمربوط فکر جو ہزراروں سال تک پھلتے پھولتے تمدن کو پھر سے استوار کرنے کی خاطر اپنی سوچ کو اجتماعی سفر حیات کے ساتھ دائماً مربوط رکھ سکے۔ شناخت ایک متنّوع اور ارتقائی عمل ہے‘ جس کی نمو گلستان میں اُگنے والے پھولوں کی لاتعداد اقسام کی مانند فطری انداز میں ازخود پروان چڑھتی ہے۔ انسان کو جس طرح مادی اشیاء کو تولنے اور ماپنے کے پیمانے بنانا پڑے ‘اسی طرح اس نے انسانی رویوں کو جانچنے کے بھی معیارات مقرر کئے‘جس کے نتیجہ میں نیک وبد‘قانون وعدالت اور تہذیب و ثقافت جیسے بے مثال پیمانے مدون ہوئے۔
دانتے کہتے ہیں ''ہمارے اعمال خواہ وہ کتنی ہی اقسام میں منقسم کیوں نہ ہوں‘ان کیلئے ہمیں ایک ایسا معیار دریافت کرنا پڑتا ہے‘ جس پہ ان کو ناپا جا سکے‘اس طرح وہ عوامل‘ جو محض ہمارے انسان ہونے سے تعلق رکھتے ہیں‘انہیں ہم عام معنی میں نیکی کا نام دیتے ہیں اور اسی کے مطابق ‘کسی کو اچھا یا بُرا کہتے ہیں‘وہ عوامل جو ہمارے شہری ہونے کی حیثیت سے تعلق رکھتے ہیں‘اسے ہم قانون کہتے ہیں‘جس کی رو سے ہم کسی کو اچھا یا بُرا شہری ثابت کرتے ہیں اور وہ عوامل‘ جو ہمارے اطالوی ہونے سے تعلق رکھتے ہیں‘انہیں ہم تہذیب و ثقافت‘زبان اور رسم و رواج کا نام دیتے ہیں‘ جن سے بحیثیت ِاطالوی ہمارے اعمال ناپے جاتے ہیں‘‘۔زندگی کے انہی تینوں درجات کے تال میل میں قدرتی طور پہ شناخت کی شبیہ ابھرتی ہے ۔
علیٰ ہذالقیاس‘اس کائنات کی بنیاد زوجین پہ رکھی گئی اور انہی زوجین کی دوطرفہ کشش ہی زندگی کا حسن اور کائنات کے سینہ میں پنہاں رازوں کو کھوج نکالنے کا محرک اول بنی‘ورنہ دکھوں سے لبریز یہ فانی زندگی جینے کے قابل کہاں تھی؟لیکن اس حیات ِمستعارکی لذت آفرینیوں کا حال‘زندگی کے آگ میں جلنے والے ان جوڑوں سے پوچھئے‘ جو دنیا والوں سے چھپ چھپ کے محبت کرتے ہیں۔خونی رشتوں کی کشش‘دوستوں کی محبتیں‘پرکیف مذہبی مناسک ‘سماجی کی گداز رسمیں‘تہذیب کی چکاچوند‘موت سے لڑنے والے سورماوں کی بہادری‘حسن و عشق کی دل فریبیاں‘موسیقی کی مدھر دھنوں پہ وصل و فراق کے پُرسوز نغمات‘پرشکوہ عمارات کی تعمیر سمیت انسان نے اپنی حیرت انگیز ایجادات کے ذریعے چند لمحات پہ محیط اس ارضی زندگی کو جینے کے قابل بنا لیا۔انسانی زندگی بجائے خود پیچیدگیوں کا مرقع ہے۔عقل نت نئے تجربات میں اسی لئے الجھتی ہے کہ وہ جبلتوں کی آبائی آمادگی اور سادگی کو شعوری ہدایت کے سپرد کر سکے؛ چنانچہ زندہ انسانوں کے مابین فطری طور پہ پیدا ہونے والے تنازعات کو نمٹانے کیلئے اخلاقی حدود و قیود‘سماجی رشتوںکے وسیلے نظم زندگی‘رسم و رواج کے ذریعے اجتماعیت کا شعور‘مذہب کی الوہی ہدایت کے مطابق ؛خیر وشر کا ادراک اور باہمی تنازعات کو نمٹانے کیلئے عدل و انصاف کے معیارات مقرر کرنے کے علاوہ اس متنوع ارتقاء کے دوام اورخود نوع ِ انسانی کی بقاء کے خاطرقانون کے نفاذ کیلئے ریاست کی شکل میں ایک ایسے انتظامی یونٹ کی ضرورت پڑی‘ جو سماجی انصاف اور گروہ کی اجتماعی بہبود کی عملی ذمہ داری نباہ سکے۔
ہم قانون کی پابندی اس لیے کرتے ہیں کہ ہم آزاد ہو جائیں؛اگر ریاست کی قوت قہرہ نہ ہوتی تو انسانیت کو برباد کرنے والے فتنوں کو روکنا محال ہوتا۔جب انسان تنہا تھا تو اسے اخلاق کی ضرورت نہ تھی‘پھر وہ خاندان کی صورت میں منظم ہوا تو بنیادی اخلاقیات اس کی ضرورت بن گئی‘جب اس نے خاندان سے قبیلہ کی صورت اختیار کی تو اسے خود کو منظم رکھنے کی خاطر روایات کی ضرورت پڑی اور جب وہ مختلف قبائل کی صورت میں باہم متصادم ہوا تو اسے اجتماعی امور نمٹانے کیلئے حدود و قیود کا تعین اور قوانین بنانے پڑے‘ جن کے نفاذکیلئے ایک بالادست طاقت کا ہونا ازبس لازمی تھا۔
تاریخ میں ہمیں حمورابی نام کا پہلا بادشاہ ملتا ہے‘ جس نے زور بازو سے مختلف قبائل پہ غلبہ پا کر قانون کے اطلاق کے ذریعے ریاست کو ابتدائی وجود دیا۔ آج سے سات ہزار سال قبل بابل و نینوا کے‘ اسی بادشاہ‘حمورابی نے انسانی جان کی حرمت کا قانون بنایا‘جس میں ہاتھ کے بدلے ہاتھ‘آنکھ کے بدلے آنکھ اور جان کے بدلے جان لینے کی سزا مقرر کی گئی‘بعد میں آنے والے انسانوں حتیٰ کہ انبیاء نے بھی حرمت جان کے اسی قانون کی توثیق کی‘قرآن نے کہا (ترجمہ) ''اے فہیم لوگو! قصاص میں زندگی ہے‘ تاکہ تم پرہیزگار بن سکو‘‘۔ اس لیے مسلمانوں‘ بلکہ انسانوں کی موجودہ شناخت فطری اورحقیقی ہے اور اسی میں زمانوں کے تقاضوں کے مطابق قدرتی تغیرات اور ارتقاء کا وہ داعیہ موجود ہے‘ جو اسے پیہم رواں دواں رکھے گا؛اگر کوئی سمجھتا ہے کہ بوجوہ یہ سب کچھ غلط ہوا ہے اور درست شناخت کے حصول کیلئے تہذیب و ثقافت کے ازل سے بہتے دھارے کو روک کے پہلے اجتماعی شعوری آزادی کی حامل سول سوسائٹی کا قیام یقینی بنایا جائے تو یہ کام ناممکن اور خلاف عقل ہے‘عملاً نہ تو درست شناخت کی تعریف پہ انسانوں کا اتفاق رائے ممکن ہو گا ‘نہ اجتماعی شعوری آزادی کا پیشگی شرط کا امکان موجود ہے؛حتیٰ کہ فطرت کی وسیع سکیم میں انسان کیلئے اپنی شکل و صورت کے تعین‘ ماں باپ کے انتخاب‘ کی گنجائش نہیں رکھی گئی‘توپھرانسان اپنی شناخت کا فیصلہ خود کیسے کر سکتا ہے؟
قصہ کوتاہ!ہمارے خیال میں شناخت کے بحران کا ایشو حقیقی نہیں‘ بلکہ ایسا فکری مغالطہ ہے ‘جو ہمیں ماضی سے برگشتہ اورحاضر و موجود سے بیزار رکھنے کا ٹول ہے‘جسے کچھ لوگ لاشعوری طور پہ اپنے مذہب‘وطن‘سماج‘تہذیب و ثقافت اور خود اپنی ذات پہ عدم اعتماد کا وسیلہ بنا رہے ہیں۔شکر ہے‘بحیثیت ِانسان ہم مسلمان ہیں‘بطورِ فرد ایک آئینی ریاست کے قانون پسند شہری ہیں اورپاکستان جیسی اس عظیم مملکت کے باسی ہیں‘ جو اس کرہ ٔارض کی متنوع اور قدیم ترین تہذب و ثقافت کی امین ہے۔لہٰذا کوئی مذہب بالخصوص اسلام کسی ایسے تہذیب عمل کی ممانعت نہیں کرتا ‘جو احترام انسانیت سے متصادم نہ ہو‘ کیونکہ عقل ِسلیم کا تقاضا یہی ہے۔ (ختم شد)