"AAC" (space) message & send to 7575

انتخابی کلچر کی شروعات

پچھلے کئی ہفتوں سے مرکزی دھارے کے میڈیا کی پوری توجہ قومی بجٹ سے جڑے مباحث اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی جعلی بینک اکاونٹس کیس میںگرفتاری کے علاوہ اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹی کانفرنس کے انعقاد جیسی سرگرمیوں پہ مرتکز رہنے کی وجہ سے ضم شدہ قبائلی اضلاع کی سولہ صوبائی نشستوں پہ انتخابات کی سرگرمیوں کو پوری کوریج نہیں مل سکی۔دوسرے تحریک انصاف کے سوا دیگر ملک گیر جماعتوں کی عدم دلچسپی بھی قبائلی اضلاع کے انتخابات کو پس منظر میں دھکیلنے کا سبب بنی۔ہماری پارلیمنٹ نے 31 مئی 2018ء کو 25 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے سات قبائلی ایجنسیوں اور ایف آرز کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کا تاریخ ساز فیصلہ کر کے فاٹا کے عوام کو پہلی بار صوبائی اسمبلی کا ووٹ کاسٹ کرنے کا موقعہ دیا۔قبل ازیں 1996ء میں سابق صدر فاروق لغاری نے ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے قبائلی عوام کو ووٹ کا حق دیکر انہیں قومی اسمبلی کیلئے براہ راست نمائندے منتخب کرنے کا موقعہ دیا ‘ورنہ اس سے پہلے تو قبائلی علاقوں کے صرف چند سو متعین کردہ ملکان کو ہی قومی اسمبلی کے امیدواروں کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہوا کرتا تھا؛اگرچہ اُس وقت بھی بارہ ایم این ایز اور آٹھ سینیٹرز سمیت بیس ممبران‘پارلیمنٹ کے اندر فاٹا کی نمائندگی کرتے تھے‘ لیکن قبائلی علاقوں کے منتخب ایم این ایز کو فاٹا کے امور میں قانون سازی کا حق حاصل نہیں تھا۔
اب 20 جولائی کوپہلی بارضم شدہ قبائلی اضلاع کی سولہ صوبائی نشستوں کے لئے 26 لاکھ62 ہزار550 ووٹرز حق رائے دہی استعمال کریں گے‘جن کیلئے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 1943ء پولنگ سٹیشن قائم کئے ہیں۔ان سولہ جنرل نشستوں کیلئے آزاد اور سیاسی جماعتوں کے ساڑھے چار سو سے زیادہ امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے‘ٹرائبل ڈسٹرکٹ میں خواتین کی چارمخصوص نشستوں کیلئے بھی سیاسی جماعتوں کی 30 خواتین اور واحد اقلیتی نشست کیلئے 9 غیر مسلم امیدواروں کی طرف سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے ہیں۔آبادی کے لحاظ سے بڑے ضلع باجوڑکی تین صوبائی نشستوں پہ 78 امیدواروں میں مقابلہ ہو گا‘ یہاں 5 لاکھ 22 ہزار480 رجسٹرڈ ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کریںگے۔دوسرے بڑے ضلع خیبر کی تین نشستوں کیلئے85 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے‘یہاں کل 5 لاکھ 19ہزار 290 رجسٹرڈ ووٹرز اپنا ووٹ کاسٹ کریں گے‘اسی طرح ساوتھ وزیرستان کی دو صوبائی نشستوں کے لئے19 امیدوراوں کے درمیان مقابلہ ہو گا‘یہاں 3 لاکھ76 ہزار 635 ووٹرز حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ضلع کرم کی دو نشستوں کیلئے63 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے‘یہاں کے 3 لاکھ 52 ہزار 794 بالغ افراد ووٹ کا حق استعمال کریں گے۔شمالی وزیرستان کی دو صوبائی نشستوں کے لئے کل 2لاکھ 94 ہزار 820 ووٹرز حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ڈسٹرکٹ مہمندکی دو صوبائی نشستوں کیلئے22 امیدوراوں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے‘یہاں 2 لاکھ71 ہزار251 افراد ووٹ ڈال سکیںگے‘ضلع اورکزئی کی ایک نشست کیلئے 1 لاکھ61 ہزار992 ووٹرز اپنا ووٹ کاسٹ کریں گے۔پانچ سابق ایف آرز پہ مشتمل نیم قبائلی علاقوںکی ایک نشست کیلئے 1 لاکھ61 ہزار992 ووٹرزکو حق رائے دہی استعمال کرنے کا موقعہ ملے گا۔
گزشتہ سترہ سال کے دوران دہشت گردی کی جنگ سے متاثر ہونے والے فاٹا کا دیہی سماج پہ مشتمل گدازخطہ اپنی منفرد ثقافت اور منجمد قبائلی نظام کے باعث تاحال شخصی آزادیوں کا ادراک حاصل نہیں کر سکا ‘اس لیے یہاںکا ووٹرز ابھی برادریوں کے مضبوط بندھن سے الگ نہیں ہو سکے گا‘لہٰذا یہاں بڑی برادریوں کے حامل افراد ہی مضبوط امیدوار تصور کئے جا رہے ہیں‘دوسرے امن و امان کی نازک صورت حال کے پیش نظر اکثر اضلاع میں دفعہ 144 کے نفاذکی وجہ سے یہاں کی انتخابی مہم میں وہ روایتی سرگرمی دیکھائی نہیں دیتی جو بندوبستی علاقوں کے انتخابی مہمات میں رنگ بھرتی نظر آتی ہیں؛ چنانچہ فعال امیدوار نجی روابط اور روایتی جرگوں کے ذریعے ووٹرز تک رسائی پانے کی کوشش میں سرگرداں ہیں۔رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق ‘جنوبی وزیرستان کی دوصوبائی نشستوں پہ جے یو آئی کے امیدوراوں کی پوزیشن مضبوط بتائی جاتی ہے‘یہاں پی ٹی ایم کے حامی بھی جے یو آئی کو ووٹ دے سکتے ہیں‘شمالی وزیرستان میں تحریک انصاف اور اے این پی کے درمیان کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے‘یہاں اگر پی ٹی ایم کے ووٹرز نے اپنا وزن عوامی نیشنل پارٹی کے پلڑے میں ڈالا تو نتائج حیران کن ہوں گے۔کرم‘مہمند اور خیبر کے اضلاع میں حکمراں پی ٹی آئی کا پلڑا بھاری رہے گا‘ تاہم باجوڑ میں پی ٹی آئی کے ساتھ پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی کے امیدوار بھی نمایاں نظر آتے ہیں۔ناقدین کہتے ہیں؛الیکشن کے التواء کا فائدہ حکمراں جماعت کو ملا‘جس نے حالیہ بجٹ میں ضم شدہ قبائلی اضلاع میں بنیادی ڈھانچہ کی تعمیر‘صحت‘تعلیم اور مواصلات کے شعبوں میں ترقیاتی سکیموں کیلئے 190 ارب روپے مختص کر کے ووٹرز کی توجہ حاصل کی‘19 جون کو وزیراعلیٰ محمود خان نے انتخابی ضابطہ اخلاق کی پرواہ کئے بغیر خیبر ہاؤس میں ایک پرشکوہ تقریب میں انصاف روزگار سکیم کے تحت 5550قبائلی نوجوانوں کو بلاسود قرضوں کا اجراء کے لیٹرز تقسیم کئے؛اگرچہ الیکشن کمیشن نے نوٹس لیکر انصاف روزگار سکیم کے فنڈ منجمد کر دیئے‘ لیکن سکیم اجراء کے جو اثرات مرتب ہونے تھے ہو گئے‘اس سے قبل خیبر پختونخوا کے سنیئر وزیر عاطف خان اور پی ٹی آئی ایم این اے اقبال آفریدی نے ضلع خیبر اورکرّم میں انتخابی جلسوں میں شرکت کر کے ترقیاتی سکیموں کا اعلان کیا‘ تاہم صوبائی الیکشن کمیشن نے نوٹس لیکر وزیراعلیٰ سمیت صوبائی وزراء اور ممبران اسمبلی سے جواب طلب کر لیا۔غالب امکان یہی ہے کہ ضم شدہ اضلاع کے عملیت پسند شہری اپنا وزن حکمراں جماعت کے پلڑے میں ڈال کے علاقائی ترقی کے عمل کو آگے بڑھانے میں معاونت کریں گے۔بلاشبہ ہمارے بندوبستی نظام کا حصہ بن جانے کے باوجود قبائلی اضلاع کے سماجی ماحول میں کسی جوہری تبدیلی کے آثاردیکھائی نہیں دیتے‘آج بھی یہاں سوچنے کے انداز اور زندگی گزارنے کے طورطریقے قبائلی اقدار میں گندھے نظر آتے ہیں۔امر واقعہ بھی یہی ہے کہ ان ساتوںاضلاع میں بسنے والے قبائل ذہنی طور پہ ابھی خود کو شہری ثقافت اور سرکاری قوائد و ضوابط سے ہم آہنگ رکھنے کو تیار نہیں؛حالانکہ عام خیال یہی تھا کہ ایف سی آر کے خاتمہ کے بعد جب اجتماعی ذمہ داری کا کالا قانون ختم ہو گا تو ضم شدہ قبائلی اضلاع کے لوگوں میں شہری حقوق کا ادراک اور شخصی آزادیوں کے احساسات جِلا پائیں گے‘ لیکن بدقسمتی سے ایک تو ہمارے پالیسی سازوں نے قبائلی معاشرے کے ذہنی جمود کا درست اندازہ نہیں لگایا۔
دوسرے انضمام کے ساتھ ہی ابھرنے والی نسلی تحریکوں نے فاٹا کی نئی نسل کیلئے قبائلی عصبیتوں کے آشوب سے نکلنے کی راہیں مسدود بنا دیں‘خاص طور پہ حادثاتی طور پہ ابھرنے والی نوجوانوں کی تنظیم‘پی ٹی ایم کے متنازعہ نعروں نے قبائلی نوجوانوں کی اکثریت کو قومی دھارے کی سیاست سے منسلک ہونے سے روک لیا‘اسی تحریک کے شرانگیز نعروں کی بدولت پیدا ہونے والے کشیدگی ایسے نادیدہ خوف کا سبب بنی‘ جو قبائلی عوام کے پاکستانی سماج کے مرکزی دھارے کا جُز بننے کے امکانات کو ذائل کر رہی ہے‘وہ قبائلی نوجوان جو پولیٹیکل ایجنٹ کے عدالتی و انتظامی نظام سے نالاں اور ایف سی آر جیسے قوانین سے بیزار دیکھائی دیتے تھے۔اب‘ انضمام کے بعد سروسیز فراہم کرنے والے سرکاری محکموں کی عملداری کے علاوہ امن عامہ کی ذمہ داری نبھانے والے اداروں کو بھی شک کی نظروں سے دیکھنے لگے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں