کوٹ لکھپت جیل میں قید سابق وزیراعظم نوازشریف کی مقتدرہ کے ساتھ ڈیل کی خبروں کی اشاعت کے باوجود فریقین کی خاموشی سے تو یہی لگتا ہے کہ بالادست قوتیں معتوب سیاستدانوں کو بریک کرنے میں ناکامی کے بعد‘ اب انہیں نفسیاتی طور پر سنبھالنے کی کوشش میں سرگرداں ہوں گی۔ہماراماضی گواہی دیتا ہے کہ مقبول عوامی لیڈر شپ کے سیاسی مستقبل کو ٹھکانے لگانے کیلئے قانونی تادیب سے زیادہ مفاہمتی عمل زیادہ کارگر ثابت ہوتا ہے۔اس ملک کی پہلی پاپولرسیاسی جماعت کی وارث بے نظیر بھٹو دوبار اورپنجاب کے مقبول ترین لیڈرمیاں نوازشریف ایک دفعہ مبینہ مفاہمت کی وساطت سے جلاوطنی قبول کر کے اپنے سیاسی کردار کو داغدار اور کئی دہائیوں پہ محیط سویلین بالادستی کی عوامی جدوجہد کو ٹھکانے لگا کے آمریتوں کی راہ کے کانٹے صاف کر چکے ہیں۔اپنی دوسری خودساختہ جلاوطنی کے بعد جنرل مشرف سے این آر او کرلینے کے بعد واپس پلٹنے کی کوشش میں بے نظیر بھٹو جیسی عظیم لیڈر اپنی جان گنوا بیٹھی‘ تاہم اس لحاظ سے نوازشریف خوش قسمت نکلے کہ جیسے تیسے انہیں قومی سیاست کے اس کھاڑے میں واپس آنے کی راہ مل گئی‘جسے چھوڑ کے وہ سعودی عرب کی مقدس فضاؤں میںجا بیٹھے تھے‘لیکن بدقسمتی سے اب ایک بار پھر انہیں ویسی ہی آزمائش درپیش ہے‘2000ء میں وہ جس کا سامنا کرنے سے کنی کتراگئے تھے۔
ہمیں امیدرکھنی چاہیے کہ انہوں نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ لیا ہوگا۔اب وہ اپنی طاقت کا درست اندازہ لگانے میں کوتاہی نہیں کریں گے۔ گزشتہ دوسال کے دوران ہماری سیاست میں مزاحمت کی علامت سمجھے جانے والے نوازشریف کے ساتھ ڈیل کی خبریں جھاگ کی طرح ابھرتی اور ڈوبتی رہیں‘ بلاشبہ ایسی تراشیدہ خبریں ہمیشہ ان تلخ حقائق کا نقاب ابہام بنتی ہیں‘جن سے مملکت کے پوشیدہ مقاصد کی تکمیل یا پھر رائے عامہ کی رخ گردانی مطلوب ہواکرتی ہے۔اس ساری صورت حال کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس عہد میں ذرائع ابلاغ کو جتنی سرعت اور وسعت ملی‘پبلک کو معیاری اطلاعات کی فراہمی کا نظام اتنا ہی بے اعتبار ہوتا گیا۔دنیا بھر کے ماہرصحافیوں کی سرگرانی اور میڈیا ہاؤسزکی فعالیت کے باوجود عام آدمی کیلئے صداقت تک رسائی کے امکانات آج بھی اسی طرح معدوم ہیں‘جیسے دو سو سال قبل تھے‘یعنی جس ماحول میں ہم زندہ ہیں‘ وہاں ایک ہی واقعہ بارے درجنوں ذرائع ابلاغ مختلف زاویوں سے سیلاب کی مانند اتنی انفارمیشن بکھیر دیتے ہیں کہ ان میں سے درست اورغلط کا انتخاب کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔خاص طور پہ عام شہری کے پاس ان متضاد اطلاعات کی تصدیق کے ذرائع موجود ہیں ‘نہ اتنا وقت اور مہارت کہ وہ بے ترتیبی کے ساتھ ابھرنے والی ادھوری انفارمیشن کی کڑیاں جوڑ کے خودکسی نتیجہ تک پہنچ سکے؛چنانچہ مجبوراً وہ باخبر سیاستدانوں کی آراء یا مشاق صحافیوں کے تجزیوں کی طرف رجوع کرتے ہیں ‘لیکن یہاں بھی متضاد نقطہ ہائے نظر کے حامل لوگ ژولیدہ بیانی کے ذریعے سامعین و ناظرین کی کنفیوژن بڑھا دیتے ہیں۔اصل میں جس طرح جدید سیاست کی بے رحم تنقید نے ہرشعبہ میں کرپشن اور کم صلاحیتی کو بے نقاب کر کے ہمیں جمہوریت کی کبریائی حیثیت پہ شک کرنے پہ مجبور کر دیا‘اسی طرح الیکٹرنک میڈیا‘سینکڑوں اخبارات اورسوشل میڈیا کی بے قابو یلغار نے کم تراذہان کو بلند کرنے کی بجائے بلند نظروں کو بھی گرا دیا ہے۔کسی لیڈر کی دستار‘تجزیہ کار کی رائے یا دانشورکی ساکھ قابل ِاعتبار نہیں رہی ہے۔
امر واقعہ بھی یہی ہے کہ کچھ دیر کیلئے کوئی ایک خبر یا کسی دانشور کا تجزیہ ہمیں قائل کرلیتا ہے‘ لیکن اگلے ہی لمحہ اسی طرح کی کئی دوسری خبریں پچھلی اطلاعات کے تاثر کوذائل کرکے بے یقینی کی دھند بڑھا دیتی ہیں۔گویا ہمارا ابلاغی نظام عام لوگوں کو آگاہی دینے کی بجائے قاری سے مشاہدہ کی فطری قوت چھین کے اسے اندھیروںمیں دھکیل دیتا ہے۔متضاد اطلاعات کے ذریعے اچھائی اوربرائی میں تلبیس کا یہ عمل اب باقاعدہ فن کی صورت اختیار کر چکا۔دنیا بھر کا کمرشل میڈیا اسی آرٹ کے سہارے کروڑوں انسانوںکو فرضی حقائق کے جال میں پھنسا کے آقاوں کی خوشنودی حاصل کرتا ہے۔مشہورامریکی سیاہ فام دانشور میلکم ایکس نے کہا تھا ''اگر آپ ہوشیار نہیں ہیں تو یہ میڈیا آپ کو ان لوگوں سے نفرت کرنا سیکھا دے گا‘ جو مظلوم ہیں اور ان سے محبت جو ظالم ہیں‘‘۔اسی تناظر میں اگر ہم پچھلے بیس سال کے سیاسی سفر کو پلٹ کے دیکھیں تو ہمیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا جواز ‘ سیاستدانوں سے جڑی کرپشن کی داستانیں‘الیکشنوں میں دھاندلی کی بازگشت‘ پانامہ سکینڈل کی گونج اوراقتدار کی غلام گردشوں میں پنپنے والی ڈیل کی خبریں آتش بازی کی ان پُھل جھڑیوں کی مانند دکھائی دیں گی ‘جو فریب نظر کے سوا کچھ نہیں ہوتیں۔ظاہر ہے اب نوازشریف سے ڈیل کی خبروں اور ان کا استرداد بھی حقائق کا نقاب ابہام یا پھراس کمزور سی سیاسی مزاحمت کا سرکچلنے کی کوئی نئی چال ثابت ہوا گا۔
بالکل ایسے ہی جیسے چند دن قبل چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے دوران مقتدرہ نے اپنے اصل پلان کو کیموفلاج رکھنے کی خاطر آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن کو مفاہمت کی بات چیت میں انگیج کر لیا اوراسی دوران صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنا کے مولانا فضل الرحمن سمیت پوری اپوزیشن کے اعتماد کو متزلزل کر دیا۔اس حوالے سے فی الحال سیاسی قوتوں کی کامیابی کے امکانات بعید ہیں‘اپوزیشن تاحال ملک کے اندر کسی بھی ایشو پہ کوئی موثر عوامی تحریک اٹھا سکی‘ نہ مستقبل قریب میں کسی ناقابل تسخیر مزاحمت کے آثار دیکھائی دیتے ہیں۔ میاں نوازشریف‘مولانا فضل الرحمن اور مریم نواز کے سوا اپوزیشن کا کوئی اور لیڈر مزاحمت کے جھمیلوں میں الجھنے کے حق میں نہیں۔اس ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پیپلزپارٹی‘چالیس سال تک ماریں کھانے کے بعد‘کسی بھی قسم کی عملی مزاحمت کی سکت کھوبیٹھی‘ اس لیے زرداری صاحب جوڑ توڑ کے ذریعے پاور پالیٹیکس میں جگہ بنانے پہ مجبور نظر آتے ہیں‘انہیں معلوم ہے‘ آمریتوں کے خلاف ناکام سیاسی جدوجہد نے پارٹی ورکرز کے اعصاب توڑ ڈالے ہیں۔زرداری اور فریال تالپور پہ مقدمات کی سختیوں نے بلاول بھٹو زرداری کی فقط اس لفظی تنقید کو بھی خاموش کرا دیا‘جس کے ذریعے وہ میڈیا کی توجہ حاصل کرتے تھے۔
پیپلزپارٹی کی صف اول کی قیادت کی مانند مسلم لیگ نوازکے صدر میاں شہبازشریف بھی مقتدرہ سے ٹکراو کی بجائے افہام و تفہیم سے راہ عمل نکالنے میں عافیت تلاش کرتے ہیں‘اس لیے وہ اپنے بڑے بھائی اور بھتیجی کو سمجھانے بجھانے میں مصروف ہیں۔شاید وہ جانتے ہیں کہ جنوبی ایشیاکی تزویری صورت حال کے پیش نظرعالمی طاقتیں پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات میں سہولت پاتی ہیں؛چنانچہ وہ پاکستان کی کمزورسیاسی لیڈرشپ پہ انحصار نہیں کر پائیں گی‘ مغربی میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی فی الحال پاکستان کی داخلی سیاسی کشمکش سے لاتعلق رہیں گی‘ جس کی دلیل یہ ہے کہ مختاراں مائی اور ملالہ یوسفزئی کی صحت اور شخصی آزادیوں کیلئے فکرمند ہونے والی مغربی اشرافیہ میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری کو علاج معالجہ کی جائز سہولت کی عدم فراہمی پہ خاموش ہیں۔