میاں نواز شریف کی طرف سے جے یو آئی کے حکومت مخالف آزادی مارچ کی حمایت کے بعد سیاسی بحران مزیدگہرا ہو چکا۔اس سوال کا جواب ملنا تو ابھی مشکل ہو گا کہ اس کٹھن مرحلہ پہ حکام نے نوازشریف کو چوہدری شوگر ملز کیس میں ملوث کر کے جیل سے عدالت لانا کیوں ضروری سمجھا؟کیونکہ کوٹ لکھپت جیل میں قید نوازشریف کی چوہدری شوگر ملز کیس میں گرفتاری اور عدالت کے روبرو پیشی کی ٹائمنگ نہایت الارمنگ تھی۔بادی النظری میں میاں صاحب کو شوگر ملز کیس میں ملوث کرنے سے یہی تاثر ملاکہ جج ویڈیو سکینڈل کے باعث العزیزیہ ریفرنس میں سزا یافتہ نوازشریف کی ممکنہ رہائی کو کاونٹر کرنے کی خاطر گورنمنٹ اسے کسی نئے کیس میں گرفتارکرکے بدستور قید رکھنا چاہتی ہو گی‘ لیکن عملاً اسی تازہ مقدمہ میں ان کی تلویث ہی تو جیل میں قید نوازشریف کو عدالت کے روبرو پیش کرنے کا ذریعہ بنی اور اسی پیشی کی بدولت ہی انہیں قریبی رفقاء اورکارکنوں کو براہ راست مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ میں شرکت کی کال دینے کا موقعہ ملا۔
ہو سکتا ہے کہ یہ پوری مساعی معمول کے قانونی وظائف کا حصہ اور غیرارادی عدالتی عمل کا نتیجہ ہو‘ لیکن بہرحال یہی پیش دستی سیاسی ماحول پہ چھائی کنفیوژن کی ساری دھند صاف کرنے اور حکومت مخالف تحریک کو مہمیز دینے کا وسیلہ بن گئی؛چنانچہ اس پورے عمل کو شک و شبہ سے بالاتر قرار دینا آسان نہیں ہو گا۔عدالت میں پیشی کے موقعے پہ میاں نوازشریف کی میڈیا ٹاک نے لیگی کارکنوںکو نا صرف مخمصے کی کیفیت سے باہر نکالا‘ بلکہ ان کے غیر متزلزل ارادوں اور جارحانہ گفتگو کی گونج نے کارکنوں کے دِلوں میں نئی توانائی بھر دی۔توقع کے عین مطابق‘ نواز لیگ کے بعد عوامی نیشنل پارٹی نے بھی مولانا فضل الرحمن کے دھرنے میں شرکت کی ہامی بھر کے آزادی مارچ کے اثرکو بڑھا دیا۔ شاید اگلے چند دنوں میں آفتاب شیرپاؤ کی قومی وطن پارٹی اور بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کے علاوہ مذہبی جماعتوں سمیت دیگر گروہ بھی حکومت مخالف تحریک کا حصہ بن جائیں اورحالات کی یہی تال میل پیپلزپارٹی کو بھی زیادہ دیر تک نیم دروں‘نیم بیروں والی پالیسی اپنانے کے قابل نہیں چھوڑے گی۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سیاست دان سمجھدار ہو گئے ہیں‘وہ بھی سیاست میں ان جنگی چالوں کو بُروکار لانے کا راز جان گئے‘جن میں مدمقابل کو اپنی حقیقی قوت اور مستقبل کی حکمت عملی سے غافل رکھ کے جان لیوا حملہ کیا جاتا ہے۔
عام طور پہ سیاستدانوں کی طرف سے چلائی جانے والی روایتی سیاسی تحریکیں جلسے جلوسوں‘احتجاجی مظاہروں اور گرفتاریاں دینے جیسے سیدھے سادے علامتی اقدامات سے آراستہ ہوا کرتی تھیں‘جنہیں ریاستی قوت کے ذریعے کنٹرول کرنا آسان ہوتا تھا‘لیکن اس وقت مولانا فضل الرحمن کا طلسماتی آزادی مارچ اپنے دامن میں اسراریت کی ایسی دنیا لیے ہوئے ہے‘ جس کی حرکیات کو سمجھنا آسان نہیں۔لگتا ہے کہ سیاستدان اب کی بار یہ چومکھی لڑائی پورے سٹریٹجک پلان اور تکنیکی طور طریقوں کے ذریعے زیادہ گہرائی میں جا کر لڑنے کی منصوبہ بندی کر چکے ہیں‘اس لئے یہ فیصلہ کن معرکہ نتائج کے اعتبار سے کہیں زیادہ گمبھیر اور دُور رس نتائج کی حامل ہوگا۔یہ امر نہایت حیران کن ہے کہ پی ٹی آئی نے وفاقی سمیت صوبائی حکومتوں کی تشکیل میں جس سہل انگاری سے کام لیا‘ اس نے مرکز‘پنجاب اور پختونخوا کے انتظامی ڈھانچہ کی کمزوریوں کو عیاں کر دیا۔اپوزیشن کی کہنہ مشق قیادت پہلے دن ہی اس حقیقت کو بھانپ گئی تھی کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومتیں ڈلیور نہیں کر پائیں گی اور نا تجربہ کار وفاقی حکومت کی معاشی پالیسیوں کے نتیجہ میں ابھرنے والی مہنگائی کی لہر بہت جلد رائے عامہ کو تبدیلی کی علمبردارحکومت سے برگشتہ بنانے دے گی۔تجربہ کار سیاستدانوں کے اندازے درست نکلے‘کمر توڑ مہنگائی‘بیروزگاری اور گورننس کے فقدان کے علاوہ کشمیر کا مقدمہ لڑنے میں ناکامی کے وبال نے نہایت تیزی کے ساتھ رائے عامہ کو نوازشریف کے بیانیہ کی پشت پہ لا کھڑا کیا۔ابتداء میں مولانا فضل الرحمن اپنے موقف میں تنہا نظر آتے تھے اور اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کی قیادت حکومت سے فوری تصادم کا کوئی خطرہ مول لینے کو تیارنہیں تھیں۔قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر‘شہبازشریف‘ جوڑ توڑ کے ذریعے خاندانی اور جماعتی بقاء کی راہیں تلاش کرنے میں سرگرداں تھے اورآصف علی زرداری اس بندوبست کے بینفشری ہونے کے ناتے اپوزیشن کو کسی بھی انتہائی اقدام سے روکنے میں اپنا مفاد تلاش کرتے تھے۔حکومت ‘اگر چاہتی تو پیپلز پارٹی کے ذریعے علاقائی گروپوں کو سنبھال سکتی تھی ‘لیکن حیرت انگیز طور پہ حکومتی حلقوں نے پیپلزپارٹی پہ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو حاصل جزوی خودمختاری سرنڈر کرنے کیلئے دباؤ بڑھاکے ‘اسے اپوزیشن کی طرف دھکیل دیا اور پھرجعلی اکاؤنٹس کیس میں آصف علی زرداری اور فریال تالپور کی گرفتاری پیپلزپارٹی جیسی صلح جُو جماعت کو بھی مزاحمت کی راہوں تک لے آئی۔ہائی کورٹ سے ضمانتوں کے بعد نوازشریف اور ان کی بیٹی مریم نواز نے بھی کچھ عرصہ کیلئے خاموشی اختیار کر کے حکومت کو قدم جمانے کی مہلت دی تھی۔ایسے حالات میں جب مولانا فضل الرحمن اپنے موقف میں تنہا‘نوازشریف خاموش اورپیپلزپارٹی موجودہ بندوبست کو پانچ سال تک چلانے پہ آمادہ تھی۔حکمراں اشرافیہ شہباز شریف کے بیانیہ کو تقویت پہنچا کے نوازشریف کی ٹکراؤ کی پالیسی کو کند بنا سکتی تھی‘ مگرگورنمنٹ نے مہارت کی بجائے محض طاقت کے ذریعے مسائل کو سلجھانے کی راہ اختیار کر کے معاملات کوزیادہ بگاڑ دیا۔بلاشبہ وہ حکومت جو احکامات تو جاری کرے‘ لیکن سماج کی رہنمائی کرے‘ نہ پیداواری عمل میں حصہ لینے والے طبقات کی مدد کر سکے‘ تو ایسے میں لوگوں کو حکومت کی حمایت کی ترغیب کس طرح دلائی جا سکتی ہے؟
طاقت کے اندھے استعمال سے صرف اپوزیشن کو ہی دیوار سے نہیں لگایا گیا‘ بلکہ حکومت کی جارحانہ کارروائیوں سے زچ ہو کے سول بیوروکریسی نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا‘ جس سے گورننس مفقود ہوتی گئی اور انتظامی بحران بڑھتاگیا۔افراط ِزر کی بدولت روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے مہنگائی کا سیلاب امنڈ آیا‘جس نے غریب اورمتوسط طبقہ کی زندگی اجیرن بنا دی۔بغیر کسی موثر حکمت عملی کے ریونیو بڑھانے کے شوق میں حکومت نے قانونی کوڑے کو بروکار لا کر تاجروں کی مشکیں کسنے کی کوشش میںکاروباری برادری کو خوفزدہ کر دیا۔عدم تحفظ کا شکار‘سہمے ہوئے صنعت کاروں نے سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ کے‘ صنعتی سرگرمیوں کا پہیہ جام کر دیا۔کارپوریٹ سیکٹر میں مندی کی بدولت ہزاروںکارکن بیروزگار ہو گئے‘جس سے معاشی بحران مزیدگہرا ہوتا گیا۔اقتصادی بحران سے نکلنے کیلئے گورننس کو بہتر بنانے کی بجائے حکومت نے مرکزی دھارے کے ذمہ دار میڈیا کی زباں بندی کر کے ملک بھر کی رائے عامہ کو سوشل میڈیا کی لن ترانیوں کے حوالے کر دیا۔شہریوں کی بڑی تعداد یوٹیوب چینلز اور سماجی رابطہ کی ویب سائٹس پہ ڈالی جانے والی غیر مصدقہ خبروں سے اثر لے کر عدم تحفظ کا شکار ہوتی گئی۔
اگر ہم چودہ ماہ پہ محیط اس پورے منظر نامہ کا اجتماعی جائزہ لیں‘ تو ہمارے گردو پیش میں رونما ہونے والے معمول کے واقعات نہایت پراسرارانداز میں پریشرگروپوں اورسیاسی جماعتوں کوگورنمنٹ کے خلاف صف آراء کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ایک تو زیرک مزاحمت کار کی طرح نوازشریف جانتے ہیں کہ حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اس سے اچھا وقت اورایسے موافق حالات اسے پھر کبھی نہیں ملیں گے‘دوسرا مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کا سب سے زیادہ فائدہ مسلم لیگ ن کے سوا کسی اورکو نہیں مل سکتا۔