مولانا فضل الرحمن کے دھرنے و آزادی مارچ کے سدباب کی خاطر اٹھائے جانے والی انتظامی اقدامات سے پتا چلتا ہے کہ حکومت کو اب یقین ہو گیا ہے کہ یہ افتاد ٹلنے والی نہیں؛چنانچہ سیاسی طور طریقوں سے معاملات سلجھانے کی کوششوں کے پہلو بہ پہلو ریڈ زون اور سرکاری عمارتوں کو محفوظ بنانے کیلئے دھرنا کے شرکا کی راہ میںخاردار تاریں اورکنٹینرز حائل رکھنے کی تیاری بھی جاری ہے؛اگرچہ ہرحکومت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ شہریوں کے بنیادی حقوق کو مجروح کئے بغیر سرکاری املاک کی حفاظت اور امن عامہ کی بحالی کی خاطر پوری قوت سے اپنی اتھارٹی کو بروکار لائے‘ لیکن معاشرتی تنوع اور سیاسی پیچیدگیوں کے تال میل میں ریاستی طاقت کا استعمال دو دھاری تلوار کی مانند بیک وقت دونوں طرف کاٹتا ہے اور وہ حکمران‘جو اتھارٹی کے درست استعمال کا ہنر نہیں جانتے‘ وہ اپنی ہی طاقت کے ہاتھوںخود کٹ جاتے ہیں۔کسی مناسب مہارت کے بغیر طاقت کے بے دریغ استعمال کے ذریعے خود کو تباہ کرنے والے حکمرانوں کی داستانوں سے تاریخ بھری پڑی ہے؛چنانچہ اس نازک صورت حال میں حکومت کو نہایت سوچ سمجھ کے احکامات جاری کرنا پڑیں گے‘ کیونکہ وزیراعظم عمران خان‘ اب کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کے ذمہ دار ہیں‘وہ جو کچھ کریں گے‘اس سے ہزاروں لوگوں برباد یا آباد ہوسکتے ہیں؛حتیٰ کہ ان کا عمل ان لوگوں پہ بھی اثرانداز ہو گا‘ جن کے اباؤاجداد بھی ابھی پیدا نہیں ہوئے اور اس امر کا امکان بھی موجود ہے کہ ریاستی طاقت کا غیر ضروری استعمال بظاہر اس پرامن سیاسی تحریک کو پُرتشدد مزاحمت کی طرف دھکیل دے گا۔
امر واقعہ یہ ہے کہ ملک کی وہ سب سے بڑی مذہبی جماعت‘حکومت کیخلاف برسرپیکار ہے‘ جس کی سیاسی تحریک کا ہراول دستہ دینی مدارس کے وہ طلبا ہیں‘ جن کی ذہنی و نظریاتی وابستگی ان عسکری تنظیموں سے رہی ‘جو مسلح مزاحمت کی ناگوار تاریخ رکھتی ہیں۔اس لیے سرکاری فورسز کے ہاتھوںایک طالب علم کی ہلاکت بھی کسی نئی تحریک کا سبب بن سکتی ہے۔مولانا فضل الرحمن کی اس دھمکی کو سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے ''اگر ریاستی اداروں نے تشدد کی راہ اپنائی تو ہم انتقام لیں گے‘‘۔یہ اسی امر کی جانب واضح اشارہ ہے کہ سرکاری فورسز کی تھوڑی سی بے احتیاطی ‘اسی جمہوری تحریک کومسلح مزاحمت میں بدل سکتی ہے۔چند دن پہلے سیفما کی تقریب میں بھی جب مولانا فضل الرحمن کی حکومت مخالف تحریک کے مذہبی انتہا پسندی میں ڈھل جانے کے خدشہ کی بابت سوال اٹھایا گیا تومولانافضل الرحمن واضح الفاظ میں اسے خارج از امکان قرار نہیں دے سکے؛چنانچہ اسلام آباد میں دھرنے کے دوران‘ اگرکوئی بھی انسانی المیہ وقوع پذیر ہو گیا‘ تو اس کے نتائج ریاست سمیت پورے سماج کے لیے انتہائی مہلک ثابت ہو سکتے ہیں۔تاریخ بتاتی ہے کہ انسانی معاشروں میں دور رس انقلابی تبدیلیوں کے محرکات مذہبی عقائد یا پھر اقتصادی مفادات میں مضمر ہوتے ہیں۔فی الوقت اقتصادی زبوں حالی نے بالاتر طبقات سے لے کر عام آدمی کی زندگیوں کو دگرگوںکر رکھا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ معاشی مشکلات کی بدولت ہر چہرہ پہ فکر و اضطراب نقش ہے اور اسی وجہ سے ہر گھر میں غم و اندوہ کی فراوانی ہے‘لہٰذا‘یہی ناقابل ِبرداشت معاشی مجبوریاں عام لوگوںکو باآسانی حکومت مخالف تحریکوں کا ایندھن بنا سکتی ہیں۔
اسی طرح مذہبی تنازعات کے حوالہ سے ہمارا سماج‘ جس نوع کی حساسیت اور عدم برداشت کے آشوب میں مبتلا ہے‘طالع آزماؤں کیلئے اس کا استحصال کرنا نہایت آسان عمل ہو گا؛چنانچہ گہری اور دُور رس تبدیلیوں کے لیے ماحول پوری طرح تیار ہے‘اگر فریقین نے معقولیت کی راہ اختیار نہ کی تو حالات‘حکومت اور اپوزیشن‘دونوں کے ہاتھ سے نکل جائیں گے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ چالیس برسوں پہ محیط ہماری قومی پالیسی کے نتیجے میں ملک کے طول وعرض میں پھیلے دینی مدارس کے طلبا سیاسی غلبہ اور جاہ و جلال کی ہوس ایک حقیقت پسند کے طرح کرتے ہیں اورانہیں اقتدار تک رسائی کیلئے مذہبی جماعتوں کی لاحاصل جمہوری جدوجہد کے برعکس طالبان کی طرح مسلح طورطریقوں سے حصول اقتدارکی جدوجہد زیادہ پرکشش نظر آتی ہے۔ذرا تصور کیجئے کہ مولانا فضل الرحمن جب اپنی ذیلی تنظیم'' انصار الاسلام‘‘ جیسی‘نیم عسکری فورس کے جُلو میں اسلام آباد پہ منظم سیاسی یلغار کریں گے تو گورنمنٹ کی سویلین مشینری اس کے سامنے ٹھہر پائے گی؟ لامحالہ جذبات کی اس لہر کو روکنے کی خاطر فوج کی مدد حاصل کرنا پڑے گی‘یہی پیش دستی ریاستی اداروں اور مذہبی قوتوں کو ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کرے گی‘لہٰذا فورسز کے ذریعے معاملات کو سلجھانے کی کوشش خطرات سے خالی نہیں ہو گی‘اس لیے مسائل کے حل کی خاطر گورنمنٹ سیاسی طور طریقے اپنائے تو مملکت اور معاشرہ‘دونوں کے حق میں بہتر ہو گا‘ بصورتِ دیگر حالات کسی ایسی طرف جا سکتے ہیں‘ جس کا ریاست اور سماج تصور بھی نہیں کر سکتے۔
شام کی مثال ہمارے سامنے ہے‘ جہاں ریاستی طاقت کے ذریعے انسانی خواہشات اور جذبات کے دھارے کو کنٹرول کرنے کی کوشش میں‘ بشار الاسد ایک مستحکم ریاست کوخانہ جنگی کے جہنم میں دھکیل بیٹھے۔علیٰ ہذالقیاس‘پچھلے چودہ ماہ میں جے یو آئی نے چاروں صوبوں میں جلسے‘جلوس اور ریلیاں منعقد کر کے حکومت کی معاشی پالسیوں کو ہدف تنقید بنا کے عوامی ہمدردیاں سمیٹنے کے علاوہ پی ٹی آئی حکومت کو دینی اقدار کیلئے خطرہ باور کروا کے وزیر اعظم عمران خان کی راہ میں بہت سے کانٹے بچھاتی رہی‘ لیکن مذہبی اور اقتصادی محرکات کی حامل ان مہلک مہمات کے تدارک کی فکر کرنے کی بجائے حکومت نے مولانا فضل الرحمن کا تمسخر اڑانے میں وقت ضائع کردیا۔اب‘ جب اپوزیشن نے ملک کی پوری مذہبی حرارکی‘تاجروں‘ صنعت کاروں‘علاقائی جماعتوں‘ڈاکٹرز‘وکلاء‘قومی دھارے کے میڈیا اورپریشر گروپوں سمیت رائے عامہ کو ہمنوا بنا کے حکومت کا نفسیاتی محاصرہ مکمل کر لیا‘ تو گورنمنٹ کو بات چیت کے ذریعے معاملات سلجھانے کاہوش آیا‘لیکن اب‘ غلطیوں کے مداوا کیلئے تبدیلی کی قربانی درکار ہو گی‘ وگرنہ یہی کشمکش خود ریاست کے ''ریڈ زون‘‘تک پہنچ جائے گی۔حکومت ‘اگر پہلے دن ہی سے مذہبی جماعتوں اورپیداواری عمل میں حصہ لینے والی تاجر و صنعتکار برادری کو انگیج کرتی تو اپوزیشن کی جماعتیں اس قدر جلد منظم ہو کے اس کا سیاسی اور نفسیاتی گھیراؤ نہ کر سکتیں‘لیکن ستم ظریفی کی انتہا دیکھئے کہ اس نازک مرحلہ پہ بھی سیاسی ڈیڈ لاک کو تحلیل کرنے کی خاطر کوئی ٹھوس لائحہ عمل اپنانے کی بجائے محض دیکھاوے کے اقدامات کا سہارا لیکر خودفریبی میں پناہ تلاش کی جا رہی ہے۔حکومتی بزرجمہروں نے ملک بھر کے علماء کی وزیراعظم کے ساتھ نمائشی ملاقات کا اہتمام کر کے اپنی کمروریوں کو مزید عریاں کر دیا۔ایک تو وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات کرنے والے وفد میں کوئی قابل ذکر عالم دین موجود نہیں تھا‘ دوسرے علامہ تقی عثمانی سمیت تمام جید علماء نے وزیر اعظم کے ساتھ ملنے سے انکار کر کے حکومت کی رہی سہی ساکھ کو بھی تباہ کر دیا۔
وزیر اعظم عمرا ن خان صاحب ریاستی اداروں کی حمایت اور احتساب کے کوڑے پہ اکتفا کرنے کی بجائے روزاول ہی سے سیاسی قوتوںکے ساتھ ربط و تعلق استوار رکھتے اور رائے عامہ پہ اثرانداز ہونے والے میڈیا سمیت بااثرعلماء کرام کو ہمنوا بنانے کی منصوبہ بندی کرتے تو وہ اتنا جلد تنہا نہ ہوتے ‘لیکن افسوس کے حکومت نے ہمارے سیاسی نظام کے فطری ماحول سے خود کو لاتعلق کر کے تنہا پرواز کی‘ جو کوشش کی تھی ‘اسی نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔گورنمنٹ دراصل اِس وقت اپنی غیر عقلی پالیسیوں کے منفی نتائج کا شکار ہونے جا رہی ہے۔