"AAC" (space) message & send to 7575

کشمکش سسٹم میں توازن لائے گی؟

سابق وزیراعظم نوازشریف کی علاج کی غرض سے بیرون ِملک روانگی اور مریم نواز کی سیاسی گوشہ نشینی کے بعد ہمارے سیاسی ماحول پہ چھانے والا سکوت قومی سیاست میں وسیع تر مفاہمت کے امکان کی خبر دے رہا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کی روایتی شعلہ بیانی اور مولانا فضل الرحمن کے پلان بی اور سی کے تحت ملک بھر میں بڑے جلسوں کا انعقاد سیاست کے سمندر میں کوئی جواربھاٹا پیدا نہیں کر سکے گا۔ ہرچند کہ میڈیا میں پیشگوئیاں کرنے پیشہ ور تجزیہ کار اب بھی دسمبر میں ''تبدیلیوں‘‘کے اشارے دینے سے باز نہیں آئیں گے‘ لیکن لگتا یہی ہے کہ مستقبل قریب میں پی ٹی آئی حکومت کیلئے سیاسی محاذ پہ کوئی بڑا چیلنج ابھر نہیں سکے گا‘ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تغیرات کا وہ فطری عمل رک جائے گا ‘جو اجتماعی حیات کی بقا کا ضامن اور زندگی کی یبوست کو تضادات سے مزین کر کے پرکشش بنانے کے اسباب مہیا کرتا ہے۔
ایک ابدی سچائی یہ بھی ہے کہ فطرت ناتواں قوموںکیلئے پھلنے پھولنے کے امکانات ختم کرتی ہے‘ نہ کسی طاقتور کو اس زمین پہ دائمی بالادستی قائم رکھنے کی مہلت دیتی ہے۔ لاریب‘قدرت نے زندگی کے دوام کو فنا وبقا کے درمیان اس طرح متغیر رکھا کہ ایک طرف ہرعروج کو زوال آشنا کیا‘ تو دوسری جانب امکانات کے نئے دریچے کھلے رکھ کے زندگی کے دھارے کو رواں دواں رکھا۔اسی طرح قدرت نے انسانی شعور کے ارتقاء کیلئے بھی اونچ نیچ اور دھوپ چھاؤں کا ایسا مسحور کن کھیل مرتب کیا‘ جس کی معمورگردشیں ہردم انسانی فکر کو جِلا دیتی رہتی ہیں۔ سورج اور چاند کی محوری گردشوںکی مانند حیات اجتماعی کا کبھی نہ تھمنے والا یہ سفر یونہی ازل سے ابد تک فطرت کے متعین کردہ دائروں میں محو خرام رہے گا۔بہرحال‘اس نظام کائنات میں قدرت کا اٹل قانون یہی ہے کہ جو چیز ابھرتی ہے‘ وہ گرتی ضرور ہے۔
اس وقت ہمارے سسٹم میں زلزلوں کے جو جھٹکے محسوس کئے جا رہے ہیں‘ان کا مرکز دراصل وہ سی پیک منصوبہ ہے‘ جس نے پاکستان جیسی معلق مملکت کوایک ناگزیر ریاست میں بدل کے مغربی طاقتوںکو خوفزدہ کر دیا۔امر واقعہ بھی یہی ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری نے ہمارے لیے کرۂ ارض کا اقتصادی مرکز اورعالمی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی بننے کے راہیں کھول دیں ہیں۔ اقتصادی مقابلہ بھی جنگ کی ایک صورت رہا ہے‘ لیکن اس پُرزور اور پیچیدہ عہد میں تو اقتصادیات ہی بین الاقوامی تعلقات کی نزاکتوں اور طاقتور مملکتوں کے مابین پیکار کے ممکنات کو ظاہرکرتی ہیں۔ مبصرین کے خیال میں نوازشریف کی حکومت ‘اگر سی پیک بنانے کی بھینٹ چڑھی تو اب عمران خان کی حکومت بھی سی پیک کی راہ روکنے کی کوششوں کا شکار ہوسکتی ہے؛ تاہم امریکی ترجمان ایلس ویلزکے سی پیک پراجیکٹ بارے منفی تبصرہ سے دو باتیں تو عیاں ہو گئیں‘پہلی یہ کہ موجودہ حکومت سی پیک کی بساط لپیٹ نہیں سکی اور دوسرے یہ کہ ملک میں برپا اس سیاسی کشمکش کی دبیز تہہ کے نیچے یہ عظیم منصوبہ اب بھی اپنی پوری آب و تاب سے رواں دواں ہے‘جس کی تصدیق یو ایس انٹیلی جنس ذرائع کر رہے ہیںکہ چین نے کسی نہ کسی طور اب بھی سی پیک منصوبے پہ کام جاری رکھا ہوا ہے اور شاید یہی اطلاعات امریکی مقتدرہ کا اشتعال بڑھانے کا سبب بنیں۔ ادھرمغربی طاقتیں اس گیم چینجر منصوبہ کی رخ گرادنی کی خاطر ہر حد تک جائیں گی‘ لیکن پہلے مرحلہ میں وہ پاکستان کو اپنی پڑوسی مملکتوں‘بالخصوص‘بھارت‘ایران اور افغانستان سے دست و گریباں کرنے کی کوشش ضرورکریں گی۔ یمن میں حوثی باغیوں کی مبینہ مزاحمت کو کچلنے کیلئے پاکستانی فورسز بھجوانے کیلئے بلاواسطہ اوربالواسطہ امریکی دباو ٔکو اسی تناظر میں دیکھا جائے گیا۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت بھی بادی النظر میں اسی پلان کا شاخسانہ نظر آتی ہے‘جسے ہماری ریاست کی اجتماعی دانش نے صبر و تحمل کے ذریعے ٹال دیا۔ صدر ٹرمپ کی طرف سے افغان امن مذاکرات میں تعطل کو بھی ہمیں پاک افغان تعلقات میں پیچیدگیاں پیدا کرنے کی کوششوں کا جُز سمجھنا چاہیے۔ عالمی طاقتوں کی شاطرانہ چالوں سے قطع نظر‘اس وقت پاکستان کی غیر علانیہ فارن پالیسی بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کو معمول پہ لانے کے علاوہ برادر اسلامی ملک ایران سے سفارتی تعلقات بہتربنانے کی مساعی کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔
ابھی حال میں وزیراعظم عمران خان کے بعد آرمی چیف کی ایران کے صدر حسن روحانی سے ملاقات بھی اہمیت کی حامل تھی‘اگرہم غور سے دیکھیں تو ہمارے سروں پہ منڈلاتے مصنوعی سیاسی بحرانوں کی طرح اُس ففتھ جنریشن وار کا ہدف بھی دراصل یہی پاک چین اقتصادی راہداری ہوگی‘ جس میں بظاہر مقتدرہ کو نشانہ بنایا جاتا ہے‘اس لئے جُوں جُوں اس اہم پراجیکٹ پہ کام آگے بڑھتا جائے گا تُوں تُوں ریاست کیخلاف سیاسی شورشیں زور پکڑتی جائیں گی۔ مغربی طاقتوں نے پہلے ایم کیو ایم‘بلوچ لبریشن آرمی اور پی ٹی ایم کی شوریدگی کے علاوہ سویلین بالادستی کی تحریک کو بھی ففتھ جنریشن وار میں بدلنے کی کوشش کی ‘لیکن ہماری سیاسی و عسکری قیادت نے کمال تدبر کے ساتھ ان سازشوں کو تحلیل کردیا۔اب‘ ابھرتی ہوئی سٹوڈنٹ موومنٹ کو بھی نہایت احتیاط سے سنبھالناہو گا۔ نوجوانوں کی رومانوی خواہشات کو طاقت کے ذریعے دبانے یا نفرت انگیز الزام تراشی کے وسیلے اشتعال بڑھانے کی بجائے ان توانا جذبوں کو برداشت اور درگزر کی حکمت کے ذریعے ریگولیٹ کر لیا گیا‘ تو نتائج اچھے ملیں گے۔ توقع ہے کہ جس طرح ریاست نے افغان بارڈر پہ پنپنے والی غیرمعمولی کشیدگی اورکشمیر میں بھارتی اشتعال انگیزی کو خاموشی کی طاقت سے ناکام بنایا‘اسی طرح وہ داخلی سطح پہ بھی ہرقسم کی نظریاتی اور سیاسی محاذآرائی کو محبت و اپنائیت کے روّیوںسے کند بنا دے گی۔ ابھی حال میں دی ''اٹلانٹک‘‘نے لکھا ہے کہ پاکستانی مقتدرہ ففتھ جنریشن وار لوز کررہی ہے۔مغربی میڈیا کی یہ نفسیاتی یلغار اصل میں اعصابی جنگ کا حصہ ہوگی ‘جسے مخالفین کے حوصلے پست کرنے کیلئے بروئے کار لایا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ بین الاقوامی اداروں کی طرف سے کئے گئے ایک تازہ اکنامک سروے میں بتایا گیا ہے کہ مڈل ایسٹ کی مملکتیں اپنی ضروریات کی70 فیصد اشیاء یورپ سے‘کم و بیش 10 فیصد جاپان اور 15 فیصد باقی دنیا سے درآمدات کرتی ہیں‘ لیکن سی پیک کی تکمیل کے بعد مڈل ایسٹ کی 70 فیصد تجارت چین سے منسلک ہو جائے گی اورمستقبل قریب میں دنیا بھرکی کل آبادی کے چالیس فیصد کی حامل‘چین اور بھارت کی ریاستیں‘مشرق وسطیٰ کا تیل صرف کرنے والی سب سے بڑی مارکیٹ بن جائیں گی۔ اگر‘ ایسا ممکن ہوا تو دنیا کی معیشت کا پلڑا مغرب سے مشرق کی طرف جھک جائے گا اور شاید یہی اقتصادی الٹ پھیر امریکہ سمیت مغربی دنیاکی اُن خوشحال ریاستوں کو معاشی و تہذیبی زوال سے ہمکنار کردے گی‘جنہوں نے تیسری دنیا کا استحصال کر کے یورپ کے عدیم المثال عشرت کدے تعمیر کئے۔انیسویں صدی کے آغاز پہ جب یورپی ممالک گراں بار چینیوں کے وسائل کے حصے بخرے کرنے کو لپکے تو نپولین نے کہا تھا :
''چین کو سویا رہنے دو‘ اگر چینی جاگ اٹھے تو دنیا افسوس کرے گی‘‘۔
بلاشبہ کسی قوم کے لئے اشیاء اور تہذیب کے تبادلہ کی اُس سہولت کو پانے کیلئے‘جو قوموں کی زندگی میں زرخیزی اور تحرک پیداکرتی ہیں‘کسی اہم تجارتی شاہراہ سے وابستہ ہونا ضروری ہے‘ اسی لئے چین کی گوادر کی بندرگاہ سے وابستگی دنیا پہ اقتصادی غلبہ پانے کی طرف موثر پیشقدمی ثابت ہو سکتی ہے۔ شاید اسی لئے امریکہ نے چین کی معاشی سرگرمیوں کو محدود کرنے کی خاطر عرب‘ایران کشیدگی کو ہوا دے کرخلیج عرب اور آبنائے ہرمز کی آبی گزرگاہوںکو بند کر رکھا ہے‘ لیکن امریکہ سمیت دنیا کی کسی بھی طاقت کیلئے عالمی گزرگاہوں کو کسی بھی مملکت کیلئے زیادہ دیر تک بند رکھنا ممکن نہیں ہو گا۔اس لئے امید واثق ہے کہ سی پیک اپنی تکمیل کے مراحل جلد عبور کر لے گا اور روس‘ ایران اور بھارت سمیت ترکی بھی بہت جلد اسی عظیم اقتصادی منصوبہ کے ساتھ جڑے نظر آئیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں