"AAC" (space) message & send to 7575

پنجاب میں اقتدار کا نیا کھیل

پنجاب میں بڑے پیمانے پہ انتظامی تبدیلیاں بادی النظری میں اتحادی جماعتوںکی لیڈرشپ کے مابین اختلافات کا شاخسانہ دکھائی دیتی ہیں ‘کیونکہ حالیہ سیاسی بحران کے دوران نوازشریف کی علاج کی غرض سے بیرون ِملک روانگی کا معاملہ ہو یا مولانا فضل الرحمن کی حکومت مخالف مہم کی سرگرانی کا ایشو‘ہر دو معاملات میںگجرات کے چوہدریوں نے سہولت کاری کا فریضہ انجام دینے کے علاوہ سیاسی محاذ پہ اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ایسا مفاہمانہ رویہ اپنایا‘ جو پی ٹی آئی حکومت کی جارحانہ پالیسی کو سوٹ نہیںکرتا تھا‘ بلکہ اس مہیب کشمکش کے دوران بسا اوقات چوہدریوں کے سیاسی رواداری اور انسانی ہمدردی کے لبادوں میں لپٹے بیانات الٹا اپوزیشن کے بیانیہ کو تقویت پہنچاتے رہے‘جس کاپاکستان تحریک انصاف کے حلقوں میں بُرابھی منایا گیا۔
امر واقعہ یہ ہے کہ پاورپالیٹکس کے تقاضوں سے ناواقف پی ٹی آئی نے ابتداء میں پنجاب جیسے بڑے صوبہ کو چلانے کیلئے قاف لیگ کی پختہ کار قیادت کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا اوراسی مقصد کی خاطر پنجاب کی سول بیوروکریسی میں چیف سیکریٹری اور آئی جی پی سمیت زیادہ ترافسران کا انتخاب چوہدری پرویز الٰہی کی مرضی پہ چھوڑ دیا گیا‘مگر بدقسمتی سے چوہدری برادران کی وفادار بیوروکریسی ڈلیورکر سکی‘ نہ نوزائیدہ حکمرانوں کو اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونے میں مدد دینے کی روادار بنی‘جس سے پنجاب میں بتدریج پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت کا گراف گرنے لگا۔دوسری طرف ان ساری انتظامی ناکامیوں کا ملبہ وزیراعلیٰ پنجاب سردارعثمان بزدار کے سر تھونپنے کیلئے ایک منظم میڈیا مہم چلائی گئی‘جس میں پاکستان تحریک انصاف کے وہ حامی صحافی بھی پیش پیش تھے‘ جن کے چوہدری برادران سے دیرینہ تعلقات چلے آ رہے ہیں ‘لیکن اس سب کے باوجود وزیراعظم عمران خان نے قاف لیگ کی قیادت کے ساتھ باہمی اعتماد کے رشتوں کو استوار رکھا۔
سولہ ماہ بعد ان تعلقات میں پہلی دراڑ اس وقت پڑی‘جب پنجاب اسمبلی کے سپیکر چوہدری پرویز الٰہی نے بظاہر مولانا فضل الرحمن کے دھرنا کو تحلیل کرنے کیلئے نادیدہ قوتوں کے ساتھ شٹل ڈپلومیسی کیلئے اپنی خدمات پیش کیں‘جس نے ایک طرف وزیردفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں بنائی گئی حکومت کی مذاکرات کمیٹی کو غیر موثر بنا دیا‘ تو دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان کے سیاسی حریف مولانا فضل الرحمن کو آزمائش کی بھٹی سے سرخرو نکلنے میں مدد دیکر بالواسطہ پی ٹی آئی گورنمنٹ کوکمزور کرنے میں معاونت دی‘پھر وزیراعظم عمران خان کا استعفیٰ لئے بغیر دھرنے کے میدان سے واپس پلٹنے کے بعد جب مولانا کو ناقدین کے تلخ سوالات کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے مختلف ٹی وی چینل کے ساتھ انٹرویوز میں دعویٰ کر دیا کہ وہ اسلام آباد سے خالی ہاتھ نہیں لوٹے ‘بلکہ دھرنا کی بساط لپیٹنے کے صلہ میں انہیں دسمبر میں سیاسی تبدیلی کی یقین دہانی کرائی گئی‘ابتداء میں چوہدری پرویز الٰہی نے خود بھی روا روی میں نجی ٹی وی کے ایک پروگرام میں مولانا کے اسی دعوے کی تائید کردی‘ لیکن جب مولانا نے اس راز سے پردہ اٹھایاکہ پنجاب میں حکومتی اتحادی چوہدری برادارن بھی پی ٹی آئی گورنمنٹ کی کارکردگی سے غیرمطمئن اور وزیر اعظم کے طرز عمل سے ناخوش ہیں‘تو مولانا کے اسی بیان نے چوہدری پرویز الٰہی کے عزائم کو عیاں کر دیا؛اگرچہ بعد میں چوہدری صاحب نے مولانا کے مبینہ دعووں کی تردید کرتے ہوئے وضاحتیں دیں کہ کسی کی ایما پہ مولانا کو دسمبر میں تبدیلی کی یقین دہانی کرائی ‘نہ وہ وزیر اعظم عمران خان کے رویے سے نالاں ہیں‘ لیکن اس وقت تک پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا تھا اور ان بیانات کی منفی توضیحات باہمی اعتماد کے نازک رشتوں کو چکناچور کر چکی تھیں۔
بیشک مسئلہ یہی تھاکہ قاف لیگ روز اول سے اپنی اتحادی جماعت‘ پی ٹی آئی کو قائل کرنے کی سرتوڑکوشش کرتی رہی کہ نواز لیگ کا مقابلہ کرنا ہے تو پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کے حوالے کی جائے ‘لیکن تمام تر مشکلات کے باوجودپی ٹی آئی پنجاب کی وزارت ِاعلیٰ کا تاج سرنڈر کرنے پہ آمادہ ہوئی‘ نہ دس نشستوں والی قاف لیگ اپنے مطالبہ سے دستبردار ہو سکی۔اسی کشمکش کے دوران جب وفاق میں مونس الہٰی کو وزارت بھی نہ ملی تو چوہدریوں کی ناراضی کی سطح مزید بلند ہو گئی اور سیاسی لین دین پہ مبنی ان اختلافات نے دونوں جماعتوں کے درمیان وفاداری کے رشتہ کو کمزور کر دیا‘ بلکہ بتدریج یہ اختلافات اب سیاسی تنازع کی صورت اختیار کرتے دکھائی دینے لگے ہیں ۔
واضح رہے کہ مولانا فضل الرحمن اور چوہدری برادران کے مابین باہمی احترام کے یہ رشتے چوہدری ظہور الہٰی اور مولانا مفتی محمود کے وقتوں سے چلے آ رہے ہیں اور دونوں خاندانوں کے دیرینہ سماجی تعلقات سیاسی مفادات کی لن ترانیوںسے بالاتر ہیں‘اس لیے مولانا نے بلاجھجک چوہدری پرویز الٰہی کے وعدوں پہ بھروسہ کرکے دھرنا کی بساط لپیٹ لی۔چوہدری پرویز الٰہی نے بھی نیک نیتی سے مولانا کو ریسکیو کیا ‘لیکن پاور پالیٹکس کی اسی بے رحم جدلیات نے دونوں کونقصان پہنچایا‘شاید وہ دونوں غلطی پہ تھے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی مولانا کو دی گئی ضمانتوں پہ عمل درآمد کرانے کی طاقت نہیں رکھتے‘جس سے مولانا فضل الرحمن کا ذہنی اضطراب بڑھ رہا ہے‘ دوسری طرف مولانا کی طرف سے خفیہ وعدوں کا افشاں چوہدریوں کو اپنے اتحادیوں سے دور کرنے کا سبب بن گیا‘لہٰذا سیاست کے اس بے رحم کھیل میں دونوں فریق سیاست اور سماجی تعلق گنوا بیٹھے۔اس ڈیل میں پتا نہیں مولانا کا مستقبل کیا ہو گا ؟لیکن بہرحال اس ڈیل میں قاف لیگ تو اپنے طاقتور اتحادی کا اعتماد کھو چکی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ اقتدار کی رسہ کشی نے قاف لیگ اور پی ٹی آئی کے درمیان بداعتمادی کی ایسی دراڑ پیدا کر دی‘ جسے وقت‘ حالات اور سیاسی مفادات کے تقاضے مزید گہرا کریں گے۔یہی وجہ تھی جو مولانا کی سیاسی مہم جوئی کی سرگرانی سے نجات پاتے ہی ‘وزیراعظم عمران خان نے پنجاب کے انتظامی ڈھانچے میں غیرمعمولی تبدیلیاں کر کے چوہدری برادارن کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کے علاوہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی کرسی کو مضبوط بنانے کا تہیہ کر لیا۔فی الوقت پنجاب کی بیوروکریسی میں بڑے پیمانے پہ تبادلوں کی یہ ناگہاں لہر‘اتحادی جماعتوں کے مابین پائے جانے والے‘انہی داخلی تضادات کا شاخسانہ نظر آتی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کی شخصیت اور مزاج سے واقف لوگ جانتے ہیں ‘اگر انہیںموقعہ ملا تو وہ قاف لیگ کو مزید پیچھے دھکیلنے کی خاطر چوہدریوںکیخلاف شہبازشریف دور میں بنائے گئے مقدمات کو ازسر نو زندہ کر سکتے ہیں‘اگریہ درست ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا چوہدریوں کی ناراضی مول لیکر پی ٹی آئی پنجاب جیسے اس حساس صوبہ پہ اپنی گرفت مضبوط رکھ پائے گی؟جہاں کے انتظامی ڈھانچے اور سماج میں نوازلیگ کی جڑیں کافی گہری ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ متذکرہ بالا دونوں جماعتوں کو حالات کے جبر اور نوازشریف کی مخالفت نے باہم متحدکیا اور دونوں پارٹیاں بمشکل معمولی اکثریت سے پنجاب میں حکومت بنانے کے قابل ہوئیں‘ان دونوںکے مابین اگراختلافات بڑھے تو نوازلیگ فائدہ اٹھانے میں دیر نہیں کرے گی۔پنجاب اسمبلی کی371 میں سے دو نشستیں خالی پڑی ہیں۔پی ٹی آئی نے اپنی 181اورقاف لیگ کی 10نشستیں ملا کے191 ممبران سے حکومت بنائی‘ادھر اپوزیشن کے پاس نوازلیگ کی166‘پی پی پی کی 7‘ پی آر ایچ کی ایک اورآزاد امیدواروں کی چار نشستیں ہیں۔
اگر قاف لیگ پی ٹی آئی کو چھوڑ کے اپوزیشن کے ساتھ جا ملی تو نواز لیگ باآسانی وزارت بنا لے گی‘لیکن واقفان ِحال کا کہنا ہے کہ قاف لیگ کی لیڈرشپ سے کسی مہم جوئی کی توقع نہیں کی جا سکتی ‘کیونکہ اے این پی کی قیادت کی مانند قاف لیگ والے بھی احتساب اور پرانے مقدمے کھلنے سے بہت ڈرتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں