1829ء میں مصر میں کسی فرقہ وارانہ تصادم میں مسلمانوں کے ہاتھوں چند عیسائیوں کی ہلاکت کے بعد اس وقت کے پوپ پائیس ہشتم (Pius VIII) نے برطانیہ کے بادشاہ جارج چہارم کو لکھا تھا: یہ واقعہ معمولی نہیں، معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لئے تحقیقات کرائی جائیں۔ پوپ کے مشورہ پہ کنگ آف انگلینڈ نے تنازع کی حقیقت جاننے کے لئے کچھ ماہرین کو قاہرہ بھجوایا جنہوں نے کافی چھان بین کے بعد بادشاہ کو رپوٹ پیش کی‘ جس میں کہا گیا تھا: اگرچہ مسلمانوں کی طرف سے بیت المقدس کی فتح کے بعد امید تھی کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے مابین تلخیاں ختم ہو جائیں گی لیکن یہاں بڑھتی ہوئی ذہنی تفریق اس امر کی غماز ہے کہ اگلے برسوں میں ایک بار پھر صلیبی جنگوں کی آگ ایک مرتبہ پھر بھڑک سکتی ہے۔ تحقیقاتی رپورٹ پڑھنے کے بعد پوپ پائیس ہشتم نے کنگ آف انگلینڈ کو مشورہ دیا: اس وقت مسلم دنیا خوابِ غفلت کا شکار ہے‘ یہ بہترین وقت ہے کہ کمزور ممالک پر قبضہ کر کے وہاں نسلی، لسانی اور فرقہ وارانہ تقسیم بڑھانے کے علاوہ خلافت کے ادارے اور جہاد کی اصطلاحی سپرٹ کو ختم کر کے مسلمانوں کی نظریاتی وحدت کو بکھیر دیا جائے؛ چنانچہ 1829ء کے بعد برطانیہ کی خفیہ ایجنسیوں نے اس منصوبے پہ کام شروع کیا۔ مقصد کے حصول کے لئے پہلے بتدریج سمرنا، قبرص اور سپین سمیت ملحقہ مملکتوں کو فتح کر کے یورپ سے مسلمانوں کو نکال دیا گیا اور پھر لارنس آف عریبیہ جیسے کرداروں کے ذریعے عربوں اور ترکوں کے درمیان نسلی تفریق کی آگ بھڑکا کے خلافت کے ادارے کو ختم کر دیا گیا۔ مشہور جاسوس ہمفرے کی وساطت سے امت مسلمہ میں نظریاتی تقسیم کی ایسی دراڑیں ڈالی گئیں جنہیں آج تک پُر نہیں کیا جا سکا۔ کم و بیش اسی زمانہ میں یہاں ہندوستان میں بھی نہایت پُراسرار انداز میں مختلف مسالک کی شناخت ابھاری گئی جس کے مہلک اثرات آج بھی ہمارا تعاقب کر رہے ہیں۔ نیشنل ازم اور قومی ریاستوں کی تخلیق کا رجحان بھی اسی عہد کی پیداوار ہے۔ اس سے قبل مسلم ہسٹری میں قومی ریاستوں کا تصور مفقود تھا، یہ تصور اس وقت پیدا ہوا جب پوپ پائیس نے کہا تھا: خلافت کے ادارے کو توڑ کے دنیا بھر کے مسلمانوں کو مختلف جھنڈے تھما کے الگ الگ مملکتوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ لیکن تمام تر سازشوں کے باوجود اسلامی ریاست یعنی خلافت کا قیام اب بھی مسلمانوں کی آرزوؤں کا محور اور جہاد کی کشش مسلم نوجوانوں کے قلب و روح میں جگمگاتی نظر آتی ہے۔ میری نظر میں یہی اصطلاحات امت کے درمیان سیاسی وحدت اور باہمی ایثار کا توانا محرک بن سکتی ہیں۔ قطع نظر اس بات کے کہ روس کے خلاف افغانوں کی مزاحمت اور امریکہ کے خلاف متفرق عسکری گروہوں کی مہمل جدوجہد کے مقاصد سیاسی تھے یا تزویراتی؛ اس حقیقت سے صرفِ نظر ممکن نہیں کہ ماضی قریب میں جہاد کے نام پہ مسلمان نوجوانوں نے جس بے جگری کے ساتھ اپنا خون نچھاور کیا‘ اس کی مثال ڈھونڈنا مشکل ہے۔ اب بھی اسلامی اصطلاحات کے اسی نفسیاتی اثر کو کسی ایسی توانائی میں ڈھالا جا سکتا ہے جو اربوں مسلمانوں کو امت واحدہ کی لڑی میں پرو سکتی ہے۔ علی ہٰذا لقیاس! مغربی طاقتیں فقط جنگیں جیتنا نہیں چاہتیں بلکہ ماضی کی طرح آج بھی ان کی دفاعی حکمت عملی کا ہدف مسلمانوں کے دلوں اور دماغوں سے پیغمبر اسلام سیدنا محمد رسول اللہﷺ کی اتباع اور امتِ واحدہ کے تصور کو مٹانا ہے۔ اس حقیقت کو علامہ اقبال نے بھی اپنی مشہور نظم ابلیس کی مجلس شوریٰ میں بیان کیا، جس کا حاصلِ نظم شعر یہ ہے کہ ؎
یہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ محمدﷺ اس کے بدن سے نکال دو
یہودی آج بھی اِس تصور کے اسیر ہیں کہ وہ اللہ تعالی کی برگزیدہ قوم ہیں، باقی دنیا کو ان کی خدمت گزاری کے لئے پیدا کیا گیا ہے، لیکن اسلام نے مسلمانوں کو خیر و شر کا ادراک، خودداری کا احساس اور شرفِ آدمیت کا شعور دے کر نوعِ انسانی سے برابری کا سلوک کرنے کا سبق سکھایا ہے۔ اس وقت بھی صہیونیت کے زیر اثر مغربی طاقتیں جدید سائنسی نظریات کی آڑ لے کر مسلمانوں کے دل و دماغ سے احترامِ انسانیت کا احساس اور خیر و شر کا ادراک ختم کر کے انہیں ایسی پروفیشنل اپروچ کے تابع لانا چاہتی ہیں جو کسی نظریاتی اصول اور شرعی حدود کو خاطر میں لائے بغیر محض مالی نفع و نقصان کی بنیاد پر یہودیوں اور نصاریٰ سمیت سب کے لئے کام کرنے کو تیار ہو جائیں۔ گویا وہ ہمیں میکانیکی تمدن میں ڈھال کے ایک ایسے بے شناخت ہجوم میں بدلنا چاہتی ہیں جس کی کوئی اخلاقیات نہ ہوں۔ ایک مفروضہ یہ بھی ہے کہ کورونا وائرس وبا کو جواز بنا کے پوری دنیا میں نافذ کئے گئے لاک ڈائون کا مقصد مسلمانوں کی اجتماعی عبادات‘ جو باہمی ربط کا قدرتی وسیلہ ہیں، کو تحلیل کرنا تھا۔ اس وقت ایک خاص حکمت عملی کے تحت پوری دنیا سے ایشیائی باشندوں اور گلف کی ریاستوں سے پاکستانیوں کا بڑے پیمانے پہ انخلا بھی مسلمانوں کے اندر تفریق بڑھانے کی پالیسی کا جُز ہوگا۔ گلف کی کئی حکومتوں نے فنانس ڈیپارٹمنٹ میں مقامی لوگوں کے سوا کسی غیر ملکی کو ملازمت دینے پہ پابندی عائد کر دی ہے۔ ابھی حال ہی میں وزیراعلیٰ پنجاب نے مظفر گڑھ میں انڈسٹریل سٹیٹ کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ یہاں گلف سے واپس آنے والے پاکستانیوں کو کھپایا جائے گا، گویا خلیجی ممالک سے بڑی تعداد میں کارکنوںکی واپسی کا خدشہ موجود ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ کورونا لاک ڈائون کے بعد ملک بھر کے سرکاری و غیر سرکاری اداروں، مویشی منڈیوں اور مارکیٹوں میں معمول کی سرگرمیاں بحال ہو چکی ہیں لیکن تعلیمی ادارے اب بھی بند پڑے ہیں۔ دنیا بھر میں ٹرانسپورٹ اور انڈسٹریز کا پہیہ رواں ہو چکا ہے لیکن تیل کی مارکیٹ بدستور گرتی جا رہی ہے۔ خلیج کے بڑے ممالک نے اپنی کئی رِگز بند کر دیں، جس سے کساد بازاری میں اضافہ ہو گیا۔ کورونا لاک ڈائون کے باعث عراق اور شام سمیت قریبی ممالک میں سے مزاحمتی تحریکوں کی بساط سمٹ رہی ہے۔ ان حالات میں ایران کو چین کے ساتھ تجارتی معاہدات کی گنجائش مل گئی ہے مگر خدشہ ہے کہ یہ پیش دستی عربوں اور ایرانیوں کے مابین نسلی تعصبات کو بڑھانے کا سبب بنے گی۔ لیکن اسی مایوس کن پس منظر کے جلو میں ترکی نے آیا صوفیہ مسجد کی بحالی کے ذریعے جوابی بیانیہ پیش کرکے مغرب کے تن بدن میں آگ لگا دی۔ ترکی نیٹو کا فعال ممبر اور ایشیا کے لئے یورپ کے گیٹ وے کی حیثیت رکھتا ہے۔ مغربی طاقتوں کے لئے اُس کے خلاف تادیبی کارروائی کے نتیجہ میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیاں کبھی نہ تھمنے والی جنگ شروع ہو سکتی ہے۔ ترکی کو اگر نیٹو اتحاد سے نکال دیں تو نیٹو ٹوٹ جائے گا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ترکی خلافت کی بحالی کی طرف پیش قدمی کرکے مغربی استعمار کی دو سو سالوں پہ محیط مسلم کُش پالیسی کو طشت از بام کرنا چاہتا ہے اور یہ مرکزیت بہت جلد پوری امت کی ہمدردیاں حاصل کر لے گی۔ یہ تو واضح ہے کہ مسلمانوں کو قومی ریاستوں کے دائروں میں منقسم کرکے مغربی طاقتیں جب بھی کسی مسلم ملک کے خلاف کارروائی کرنا چاہیں تو دوسرے مسلم ممالک کو ساتھ ملا لیتی ہیں۔ عراق کے خلاف کارروائی کے دوران ہمسایہ مملکتوں کی حمایت لی گئی، افغانستان پہ حملہ کے وقت نائن الیون کا رونا روتے ہوئے دہشت گردی اور القاعدہ کی گردان سے پوری مسلم دنیا کو لاتعلق بنا دیا گیا لیکن دوسری طرف اگر کسی مسلم ملک نے اسرائیل یا عیسائی مملکتوں کے خلاف کارروائی کی کوئی کوشش کی تو پوری عیسائی دنیا متحد ہوگئی۔ محسوس ہوتا ہے کہ عالمی طاقتوں کو خطرہ ترکی سے ہے کہ کہیں وہ ماضی کی طرف پلٹ گیا تو مسلمانوں کو متحد ہونے کا مرکز مل جائے گا۔
بہرحال! تاریخ کا اٹل اصول یہی ہے کہ جو چیز ابھرتی ہے‘ وہ گرتی ضرور ہے۔ ماضی کی اس کے سوا کوئی اہمیت نہیں کہ وہ زندہ لوگوں کے کردار و مقاصد کو متاثر کرتا ہے اور تاریخ کی اس کے سوا کوئی اہمیت نہیں کہ وہ ہمارے حال کو درخشاں اور مستقبل کی راہوں کو روشن بناتی ہے۔ نپولین نے کہا تھا کہ خدا کرے میرا بیٹا تاریخ کا مطالعہ کرے کیونکہ تاریخ ہی صحیح فلسفہ ہے جو پورے ماضی کو صرف ایک تصویر میں سمونے کی کوشش کرتی ہے۔