وفاقی تحقیقاتی ادارے نے کارروائی کرتے ہوئے ڈیرہ اسماعیل خان سے ایک ایسے گروہ کے سات افراد کو پکڑا ہے جس نے افغان مہاجرین کیلئے 35 ہزار سے زیادہ شناختی کارڈ بنانے کا اعتراف کیا ہے، ملزمان کی نشاندہی پہ ایف آئی اے نے نادرا کے چار ملازمین کو بھی گرفتارکر لیا، جن میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کی سطح کے دو اہلکار بھی شامل ہیں۔ اس منظم گروہ کے قبضے سے سینکڑوں جعلی ڈومیسائل، شناختی کارڈ، پاسپورٹ، جعلی تعلیمی اسناد، اتھارٹی لیٹرز، سیشن ججز اور سرکاری افسران کی جعلی مہریں، دستخطوں کے نمونے، وطن کارڈز، پولیس کلیئرنس سرٹیفکیٹس، میڈیکل ایج سرٹیفکیٹس، مدارس سرٹیفکیٹس، اسلحہ لائسنس، سینکڑوں موبائل فون سمز، مختلف بینکوں کی چیک بکس اورحیران کر دینے والا دیگر حساس سامان برآمد ہوا۔
سرکاری اعداد و شمارکے مطابق 1980 کی دہائی میں ڈیرہ اسماعیل خان لائے جانے والے افغان مہاجرین کی بڑی تعداد نے غیر قانونی طریقوں سے یہاں سکونت اختیار کر لی، جن میں پشہ پل، ہمت، درابن، نائیویلہ اور لنڈہ شریف کے افغان مہاجر کیمپوں میں بسنے والے تقریباً تمام مہاجرین اور ان کی اولادیں شامل ہیں، جنہیں اب میسر سماجی حقوق سے محروم کرنا دشوار ہو گا، جعلی ڈومیسائلز حاصل کرنے والے ان مہاجرین کے خلاف متعدد انکوائریاں کی گئیں جو بیکار ثابت ہوئیں، اس وقت بھی محکمہ اینٹی کرپشن جعلی ڈومیسائل بارے الگ سے تحقیقات کر رہا ہے لیکن سسٹم کی کمزوریوں کے باعث عموماً ایسی کارروائیاں رائیگاں جاتی ہیں۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ ماضی کی طرح متذکرہ بالا غیر معمولی کارروائی بھی ہمارے قانونی ڈھانچے کے روایتی تسائل کی نذر ہو جائے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان میں سیاسی عدم استحکام نے پاکستان میں داخلی سلامتی کے منظرنامے کو شدید متاثر کیا اور ہمارے سماج میں افغان مہاجرین کی سرایت کا انتہائی اہم پہلو پاکستان کی داخلی سلامتی سے منسلک ہو گیا، لاکھوں افغان مہاجرین کی موجودگی اگرچہ ہمارے سماجی فریم ورک پر مضمر اثرات ڈالتی رہی لیکن عالمی تعلقات کے تقاضوں نے ان مہلک عوامل کو ریگولیٹ کرنے کی مہلت نہ دی۔ افغان تنازع کا سب سے اہم نتیجہ ہی ہمسایہ ممالک میں افغان مہاجرین کی بڑے پیمانے پر منتقلی تھی جس نے پاکستانی معاشرے میں کئی سماجی اورسکیورٹی چیلنجوں کو جنم دیا۔ 1980 کی دہائی میں افغان مہاجرین کی آمد کے بعد یہاں فرقہ وارانہ تشدد، منشیات کی سمگلنگ، اُجرتی قاتلوں کے گروہوں کی آبیاری، دہشت گردی کی لہریں اور منظم جرائم کا ایسا ہولناک کلچر استوار ہوا جس نے سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے سماجی فیبرک اور انتظامی ڈھانچے کی چولیں ہلا ڈالیں۔ افغان مہاجرین کے یہی گروہ، جنہیں اس سرزمین سے کوئی ہمدردی نہیں، اپنے کاروباری مقاصد کیلئے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی تمام مرکز گریز تحریکوں کی مالی معاونت کے علاوہ قابل لحاظ افرادی قوت بھی فراہم کرتے ہیں لیکن سیاسی مصلحتوں نے ہمارے اداروں کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں۔ گزشتہ تین چار سالوں میں یہاں سے افغان مہاجرین کی واپسی کے عمل کی شروعات کی گئیں لیکن کام میں تسلسل کو برقرار رکھا نہیں جا سکا اور بوجوہ مہاجرین کی واپسی کا عمل بار بار معطل ہوتا رہا؛ چنانچہ اب بھی 30 لاکھ سے زیادہ افغان باشندے پاکستان کے مختلف شہروں میں مقیم ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ان کی بیدخلی کی مہم چلائی گئی تو افغان مہاجرین کی اکثریت ڈیرہ اسماعیل خان اور بلوچستان کے مختلف اضلا ع میں منتقل ہو گئی جہاں قوم پرست جماعتیں ان کی آباد کاری کی منتظر بیٹھی تھیں۔ افسوس کہ انتہا پسندی کے رجحان نے مقامی تہذیب و ثقافت پر افغان مہاجرین کے اثرات پہ بحث کی اجازت نہ دی، اس لئے یہاں تنقیدی سوچ کو فروغ مل سکا نہ عالمگیریت اور کثیر الثقافتی معاشروں کو درپیش مسائل پر تبادلۂ خیال کی روایت پروان چڑھ پائی۔
آج بھی ہم سیاست کے علاوہ بین الاقوامی علوم، سیاسی معیشت، مذہبی علوم کے میدان میں اعلیٰ معیار کی علمی تحقیق کا استقبال کرتے ہیں لیکن سیاسی شعور بیدار کرنے اور متنوع ثقافتوں کے علم و فہم کو گہرا کرنے کی مساعی کے روادار نہیں ہیں۔ اس لئے سماجی عوامل خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں مہاجرین کی وسیع پیمانے پہ آبادی کاری کی راہ میں حائل نہیں ہوئے بلکہ نسل پرست تنظیموں کی طرف سے افغان مہاجرین کی پاکستان میں مستقل آبادکاری کی مہمات نے اس معاملہ کو زیادہ پیچیدہ بنا دیا۔ قوم پرستوں کی جانب سے افغان مہاجرین کے پُرامن انخلا کی مخالفت انسانی ہمدردی یاکسی اصولی مؤقف پہ مبنی نہیں بلکہ اس میں پاکستان کے شمال مغربی علاقوں پہ افغانوں کے حق کا سوال اور علیحدگی کا پیغام (لر و بر یو افغان)پنہاں ہے جو قومی سلامتی کے لئے زہر قاتل کی حیثیت رکھتا ہے مگر افسوس کہ ان آوازوں کی حوصلہ شکنی میں تاخیر کر دی گئی۔ تاریخ کی ستم ظریفی دیکھئے یہ وہی جماعتیں ہیں جنہوں نے 1960-70ء کی دہائی میں افغانستان کی روس نواز حکومتوں کے ایما پہ صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) اور بلوچستان میں پختون قوم پرستی کی بنیادوں پہ علیحدگی کی تحریکیں برپا کر رکھیں، خان عبدالولی خان جنہوں نے ذولفقار علی بھٹو کی جمہوریت کے ہاتھوں بہت دکھ اٹھائے اور محمود خان اچکزئی کے والد صمدخان اچکزئی جو گریٹر پشتونستان کی منزل کی راہ میں جان گنوا بیٹھے تھے‘ابتدا میں افغان مہاجرین کی پاکستان آمد کی مخالفت کرتے نظر آئے، اس عہد میں قوم پرستوں کو اتنی وسیع عوامی حمایت حاصل نہ تھی، عالمی حالات بھی قوم پرستوں کے مقاصد سے ہم آہنگ نہیں تھے؛ چنانچہ ریاست کیلئے علیحدگی پسندی کے رجحانات کو کچلنا آسان تھا لیکن پچھلے چالیس سالوں میں پلّوں کے نیچے سے کافی پانی بہہ گیا ہے۔ اب اداروں کی پہلے جیسی رٹ باقی رہی نہ عالمی حالات سرد جنگ کے زمانوں سے مماثل ہیں، اس لئے ریاستی قوت سے ریجنل نیشنل ازم کو دبانا آسان نہیں رہا۔
1979ء میں روس کی فوجی مداخلت کے بعد عالمی حمایت سے افغانستان میں جب مسلح مزاحمت کی ابتدا ہوئی تو وقت کی بے رحم گردشوں نے قوم پرستوں کو دیوار سے لگا دیا تھا۔ بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں سمیت تمام پختون قوم پرست تنظیمیں، جو اب افغان مہاجرین کے پشتی بان نظر آتی ہیں، اس وقت کمیونزم کے خلاف عسکری تحریک کے حامی افغانوں کو پناہ دینے کی شدید مخالف تھیں۔ خان عبدالولی خان اور محمود خان اچکزئی افغان مجاہدین کو اشرار اور فسادی کہتے رہے کیونکہ افغانوں کے پین اسلام ازم کے پلیٹ فارم پہ منظم ہو جانے سے نسل پرستی اور علیحدگی کے رجحانات دب گئے تھے ؛تاہم نائن الیون کے بعد کابل پہ براہ راست امریکی جارحیت کے بعد غیر ملکی فوج کی چھتری تلے افغانستان میں ایک سیکولر نیشنل ایسٹ حکومت قائم کرکے قوم پرستی کے رجحان کو تازہ کمک فراہم کی گئی تو شمال مغربی سرحدی علاقوں میں پیش پا افتادہ قوم پرستوں کو نئی زندگی مل گئی خاص طور پر نوجوانوں کے اندر مرکز گریز رویوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ ضیا الحق دور میں اگر افغان مہاجرین اور مجاہدین کی عسکری تنظیموں کو کھلی چھوٹ دے کر ملک کے اقتصادی نظام، سیاسی تمدن، تہذیبی اقدار اور داخلی انتظامی ڈھانچے میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی جاتی تو افغان مہاجرین آج ہماری سلامتی کیلئے خطرہ ہوتے نہ ہمارا معاشرہ علاقائی شناختوں کے تعصبات میں منقسم ہوتا۔ حیرت ہے، وقت کی صرف ایک کروٹ نے ضیاء الحق کی داخلی سلامتی اور خارجی تعلقات پہ مبنی ڈاکٹرائن کو بیکار بنا ڈالا۔ کمیونزم کے خلاف مسلم مملکتوں کی سیاست کو مذہبی نظریات سے مملو کرنے والی مغربی طاقتوں کے مفادات تبدیل ہوئے تو انہوں نے نسل پرستی کے مدفن شدہ نظریات کو جھاڑکر ایک بار پھر ہمیں ذہنی تقسیم کے عمل سے گزارنے کی ٹھان لی کیونکہ ہماری ابلاغی مہارت اپنے طاقتور اتحادیوں کو قومی سلامتی کے تقاضوں اور ملکی سرحدوں کی حرمت کا احساس نہیں دلا سکی، یہ امریکی انگیخت ہی ہے جو علاقائی قوم پرستی کے مسخ شدہ نظریات کو قومی وحدت کے خلاف صف آرا کرنے کی جسارت کرتی دکھائی دیتی ہے۔