"AAC" (space) message & send to 7575

ڈیجیٹل عہد میں میڈیا کی آزادی

میڈیا کارکنان اور عمالِ حکومت کے مابین تیزی سے بڑھتی ہوئی کشمکش بدلتی تہذیبی اقدار کا پتا دے رہی ہے۔ امر واقعہ بھی یہی ہے کہ دنیا کا بیشتر حصہ اس وقت ایسی تبدیلیوں کی زد میں ہے، جس کے بارے میں یہ پیشگوئی کی جا سکتی ہے کہ نسلِ انسانی کا مستقبل غیر یقینی سے دوچار ہو جائے گا، جو مسائل درپیش ہیں‘ وہ واقعی پیچیدہ ہیں، موسمیاتی تبدیلی، معاشی اور معاشرتی عدم مساوات، طویل جنگیں، سماجی تنازعات، غربت اور ان سب کے نتیجے میں مہاجرین کی بڑھتی تعداد، دہشت گردی، قوم پرستی اور عوامی حاکمیت کا اصول جیسے چیلنجوں کا سراغ گلوبلائزیشن اور تکنیکی ترقی کی یادگار علامتوں میں ملتا ہے۔ جب سیاسی، معاشی اور تکنیکی تغیرات یکجا ہوں تو معاشرتی سیاق و سباق یکسر بدل جاتے ہیں، جس کا براہِ راست اثر قومی اداروں کی حیثیت، عوامی اعتماد اور اظہار ِرائے کی آزادی کی نوعیت پہ پڑتا ہے۔ ہرچند کہ عالمی، قومی اور علاقائی سطح پہ اجتماعی زندگی کے تناظر تبدیل ہوئے لیکن یہ خیال کہ اظہارِ رائے کی آزادی ذہن انسانی کے ارتقا میں کلیدی اہمیت رکھتی ہے، مغرب کے جمہوری تصورات کا بنیادی مفروضہ ہے۔ عہدِ جدید کے پیچیدہ سیاسی، معاشی، سماجی اور ثقافتی عوامل کی تفہیم اور انسانیت کی اجتماعی میراث کی منتقلی کیلئے میڈیا کی ضرورت و اہمیت کو معتبرسمجھنے کے باوجود دنیا بھر کی مقتدرہ نے ابلاغی وسائل کو انسانی اذہان کو کنٹرول کرنے کے آلات میں بدل کے میڈیا کو پاور پالیٹکس کا ٹول بنا لیا، شاید اسی لئے پوری انسانیت اور سماجی علوم کی فیکلٹی میں اظہارِ رائے کی آزادی کا مسئلہ مزید پیچیدہ ایشو بن کے ابھرا ہے۔ ریاست کسی شخص کے اعمال کو قانونی تادیب کے تابع لے سکتی ہے لیکن خیالات کے دھارے کو قابو پانے پہ قادر نہیں ہو سکتی۔ لوگ کیا کہتے ہیں، کیا لکھتے ہیں یا دوسری صورت میں اپنے آپ کو کس طرح ظاہر کرتے ہیں یہ انتہائی حساس اور پیچیدہ معاملہ ہے۔ مثال کے طور اداروں کے خلاف اقدامات اور اداروں کے کردار پر تبصروں میں کیا فرق ہے؟ ہم ان عوامل کے درمیان ایسی قانونی لکیر کہاں تک کھینچ سکتے ہیں، جسے سب کیلئے قابل قبول بنایا جا سکے؟ہاں!عملی طور پرآزادیٔ اظہار کو محدود کرنے کیلئے کچھ دلائل سمجھ میں آتے ہیں، آج بھی شہریوں کی بڑی اکثریت تقریر کی آزادی اور انسانی حقوق کی حامی ہے لیکن وہ لوگ جو اظہارِ رائے کی آزادی کو اہمیت دیتے ہیں، ان خیالات پر پابندی کا تقاضا کرتے ہیں جو انہیں پسند نہیں ہوتے، جیسے ہولوکاسٹ، وہ اپنی اس روش کو شخصی ذمہ داری کے تصور اور باہمی احترام کے اصولوں سے جواز فراہم کرتے ہیں۔
یہ بجا کہ آزادیٔ اظہار کی حدود مستقل ہیں نہ اسے ثقافتی اور سماجی سیاق و سباق میں مقید رکھا جا سکتا ہے لیکن کسی بھی معاشرے کی صحت اور طاقت کا انحصار بہرحال اچھی حکمرانی سے متعلق ہوتا ہے۔ ملکی اداروں پر اعتماد اور شہریوں کے درمیان باہمی اعتماد‘ یہ دونوں عوامل مختلف مفاداتی گروہوں کیلئے اظہارِ رائے کی آزادی کا جواز ڈھونڈتے ہیں، یعنی ایک طرح کی کھلی فضا بڑی حد تک اُس آزاد میڈیا کی مرہونِ منت ہو جو لامحالہ تیز رفتار و دور رس تبدیلیوں کا محرک بنتا ہے۔ عام طور پر جمہوری سرگرمیوں اور خاص طور پر نیوز میڈیا کو عوامی حلقوں کی نمائندگی کا وسیلہ سمجھا جاتا ہے؛ اگرچہ پیشہ ورانہ جانچ اور گیٹ کیپنگ افعال کی وجہ سے میڈیا شہریوں کو غیر جانبدارانہ اور قابل اعتماد معلومات فراہم کر سکتا ہے لیکن بسا اوقات کچھ عوامل انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ ہمارے ہاں پریس کی آزادی کو ملکی آئین میں ریاست کی حاکمیت، قومی وقار اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کی حدود کے اندر مخصوص قوانین کے تحت تحفظ دیا گیا ہے، جس میں فریڈم آف انفارمیشن آرڈیننس 2002ء اور کوڈ آف کنڈکٹ رولز2010ء زیادہ نمایاں ہیں تاکہ گمراہ کن اور جانبدارانہ خبروں کی اشاعت یا پھر مذہبی، نسلی اور لسانی تعصبات کی آبیاری روکی جا سکے لیکن یہی وہ بنیادی قوانین ہیں جو پاکستان میں اظہارِ رائے کی آزادی کو کنٹرول اور میڈیا پہ ریاستی اختیارات کی تصدیق کرتے ہیں۔اگرچہ قانوناً کوئی گورنمنٹ میڈیا کے مواد کو متاثر نہیں کر سکتی لیکن کچھ حدود و قیود کے تحت وہ اسے ریگولیت ضرور کرتی ہے۔ دنیا بھر میں ذرائع ابلاغ نے اپنی سماجی ذمہ داری کا اعتراف کرتے ہوئے، عمومی اخلاقی ہدایات کے مطابق ابلاغی اداروں کا مضبوط سیلف ریگولیشن سسٹم قائم کیا تاکہ ازخود ان کی پابندی کی جاسکے لیکن باہمی اعتماد کے فقدان نے یہاں ایسی رضاکارانہ پابندیوں کی راہ روکی ہوئی ہے، اسی فضا میں صحافیوں نے میڈیا اتھارٹی کے تصور کو مسترد کیا۔
مغربی ممالک میں اخلاقیات کا ضابطہ‘ جو کئی سالوں میں بتدریج اور مرحلہ وار تیار ہوا‘ پندرہ بنیادی اصول پہ محمول ہے، جن میں یہ اصول بھی شامل ہے کہ میڈیا‘ لوگوں کو ان کے بارے میں چھپنے والی خبروں کا جواب دینے یا ردّ کرنے کا موقع دینے میں فراخ دلی دکھائے گا۔ بسا اوقات وہ ذاتی رازداری کا احترام کرتے ہوئے نام افشا نہ کرنے کا بھی پابند رہے گا تاکہ نہ تو کسی بے گناہ کو عوامی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے اور نہ ہی اس کی رازداری کا حق کمپرومائز ہو لیکن ہم جب اپنے ماحول پہ نظر ڈالتے ہیں تو صورتِ حال برعکس دکھائی دیتی ہے۔ ڈیجیٹلائزیشن اور گلوبلائزیشن کے تحت بڑھتے ہوئے کمرشلائزیشن کے رجحان نے میڈیا کے تیز رفتار تغیرات کے حامل مواصلاتی نظام کو زمان و مکاں کے ساتھ سماجی رویوں کے لحاظ سے بھی بدل کے رکھ دیا ہے۔ نئی قسم کی بین الاقوامی کارپوریشنز جیسے گوگل، یوٹیوب، ٹویٹراور فیس بک ابلاغی ڈھانچے میں ایسی تبدیلی لائی ہیں جو مارکیٹ کے رجحان اور میڈیا کے بہائوکو متاثر کرتی ہیں۔ گویا سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا نے نیوز انڈسٹری کے مستقبل کو غیر یقینی سے دوچار کرنے کے علاوہ خبروں کی رپورٹنگ کا بڑھتا ہوا حصہ فیس بک اور دیگر پلیٹ فارمز کے ذریعے پہنچانے کا متوازی نظام استوارکر لیا ہے جو اس اشتہاری آمدنی کا حصہ دار بھی بن گیا جس نے ہمارے روایتی میڈیا کو زندہ رکھا ہوا تھا۔ یہ ساری تبدیلیاں ریاست اور میڈیا ہائوسز کو ایک ساتھ بڑی ایڈجسٹمنٹ پر مجبور کر رہی ہیں۔ میڈیا سسٹم کے بدلتے ہوئے کردار کا مطلب یہ ہے کہ آزادیٔ اظہار کے بارے میں ہمیں نئے نقطہ ہائے نظر تلاش کرنا ہوں گے۔ الفاظ اور تصاویر نئے معنی حاصل کرکے سماج اور ریاست پہ یکساں اثر انداز ہوتے ہیں، ہم کیسے رہتے ہیں اور ہمارے حکمراں کیسے کام کرتے ہیں بلکہ ہم ایک دوسرے کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ذاتی زندگی کا تحفظ، سلامتی اور خواہشوں وامیدوں سے متعلق دبے ہوئے مسائل زیادہ تیزی سے ابھر رہے ہیں، ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ یہ مسائل کیسے حل ہوں گے۔
ڈیجیٹل میڈیا کلچر میں اظہارِ رائے کی آزادی قوانین میں بیان کردہ آزادیٔ اظہار سے متعلق اصولوں کو متاثر کرچکی ہے، اس مسئلے کو حل کیے بغیر پاکستان میں پریس کی آزادی ممکن نہیں ہو گی۔ پاکستان میں میڈیا کی صورتحال 2018ء کے الیکشن کے تناظر میں زیادہ بگڑی۔ پریس کی طرف سے انکوائری کو مخصوص زاویے سے دیکھا گیا کہ میڈیا نے وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں قائم سویلین حکومت کی کمزوریوں کو کسی کی سرپرستی سے جوڑ دیا۔ جب میڈیا کے کچھ حصوں نے ایسی جسارت کی تو انہیں خاموش کرانے کی خاطر سائبر قوانین کو استعمال میں لانا شروع کر دیا گیا۔ تنقید کرنے والے صحافیوں کو نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑا، ٹی وی کی کئی نامور شخصیات لائن اپ ہوگئیں۔ اس مہم کا آغاز ٹویٹر پر نفرت انگیز ٹرولنگ سے ہوا جو بتدریج شدت اختیار کرتی گئی، جس سے صحافیوں کیلئے خطرات بڑھے۔ عام خیال یہی ہے کہ صحافیوں کو نشانہ بنانے والے نام نہاد''سائبر واریرز‘‘ حکمران پارٹی یا تعلقاتِ عامہ سے منسلک ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا بھر میں آمرانہ حکومتیں اپنے عوام کی فلاح و بہبود کے بجائے اختلافِ رائے کو دبانے کیلئے زیادہ وقت اور وسائل صرف کرتی ہیں، اس لحاظ سے پاکستان بھی کچھ مختلف نہیں۔ جنابِ وزیر اعظم نے ایک سے زیادہ مواقع پر اس خواہش کا برملا اظہار کیا کہ چین کی طرح اگر وہ سینکڑوں کرپٹ مخالفین کو جیل میں ڈال سکتے تو وہ پاکستان کو معاشی قوت بنا لیتے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے اہم مخالفین جیل میں ہیں یا بدعنوانی کے مقدمات بھگت رہے ہیں لیکن حکومت اب بھی غیر فعال اور بے سمت دکھائی دیتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں