"AAC" (space) message & send to 7575

تاریک پہلو

افغانستان میں امریکی شکست کے بعد پوری دنیا میں طاقت کا توازن تبدیل ہونے لگا ہے‘ خاص طور پر یورپ کو مایوسی کی تاریکی نے گھیر لیا ہے۔ اہلِ مغرب جن افسردہ کن اندھیروں سے ٹٹول ٹٹول کے باہر نکلنے کی کوشش میں مصروف ہیں‘ ممکن ہے یہ اسی پیراڈائم شفٹ کا ٹرانزٹ پیریڈ ہو جس کی پیش گوئی مشرق و مغرب کے دانشور ایک عرصے سے کر رہے تھے؛ تاہم سماجی زوال سے قطع نظر مغرب کی اجتماعی دانش میں اب بھی اتنی ذہنی لچک موجود ہے جو ان نفسیاتی جھٹکوں کو سہہ سکتی ہے، لیکن خدشہ ہے کہ تیزی سے بدلتی منزلوں میں ہمارے فکر وخیال کا ناقہ راہ کی اِس اونچ نیچ کے وبال کو برداشت نہیں کر پائے گا کیونکہ ان حالات میں ہمیں جس قسم کے شرح صدر اور سیاسی نظم و ضبط کی ضرورت تھی‘ وہ عنقا ہے۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ قومی قیادت کا ذہنی جمود سیاست میں کنفیوژن بڑھانے کا وسیلہ بن رہا ہے۔ کسی کو علم نہیں کہ ملک کس طرف جا رہا ہے‘ کل کیا ہونے والا ہے۔ فیصلہ سازی کا مرکز کہاں ہے؟ یعنی اُن بنیادی امور کے بارے میں ہمیں کہیں سے کوئی وضاحت نہیں ملتی جن سے ہماری اگلی نسلوں کا مستقبل وابستہ ہے۔
اگرچہ علامہ اقبالؒ نے ہمیں امید کا دامن تھامے رکھنے کا سبق دیا؛ تاہم اپنے ذہنی سفر کے ایک خاص مرحلے پہ وہ خود بھی شکوہ کناں ہو کے ''خُوگرِحمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے‘‘ کی شکایت تک آ پہنچے تھے۔ بلاشبہ یہ ہمارا حق ہے کہ ہم اس سیاسی جوڑ توڑ سے پوری طرح آگاہ رہیں جس کا ہمیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ ملکی تاریخ میں پہلی بارجمعرات کو سٹاک مارکیٹ اچانک دو ہزار پوائنٹ نیچے گر گئی، اس سے قبل بھی ہماری سماجی زندگی پہ مجموعی معاشی انحطاط کے اثرات گمبھیر نظر آ رہے تھے‘ خودکشی کے بڑھتے ہوئے واقعات، معصوم بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کی مہیب واردتیں، انتہا پسندی کا عفریت اور نسلی و لسانی تفریق جیسے تمام عوامل اِسی معاشی و فکری افلاس کا نتیجہ ہیں جس نے ہر پہلو سے ہمارے سماج کو غیر محفوظ بنا دیا ہے۔ سیاست و معیشت تو درکنار‘ ہمیں احساس تک نہیں کہ معاشرے سے وہ مزاحمتی ادب مفقود ہوگیا ہے جس نے سیاسی و سماجی زندگی کو معنی و مفہوم عطا کرنا ہوتے ہیں۔ اب زندگی کی توانائی سے لبریز فیض احمد فیضؔ، حبیب جالبؔ اور احمد فرازؔ جیسے وہ انقلابی شعرا پیدا نہیں ہوتے، جو اپنے عہد کے ضمیرکی آواز بنتے ہیں۔ الغرض، دل و دماغ پہ چھائی پژمردگی سے عیاں ہے کہ آج ہم بلند خیالی اورقوتِ ارادی جیسی اُن ملکوتی صفات سے تہی دامن ہو چکے ہیں جو قوموں کے عروج و زوال میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ پراگندہ انفارمیشن کا سیلاب ہمیں لمحۂ موجود کی کوئی واضح تصویر بنانے کا موقع نہیں دیتا، گویا ہمارے تمام نظریاتی اور سیاسی پیمانے التباسات کی دھند میں ڈوب گئے ہیں، اسی لیے تو اجتماعی حیات بے یقینی اور اضطراب کے درمیان ہچکولے کھانے لگی ہے۔ ہم خود اور ہمارے رہنما‘ اپنے زوال کے مظاہر سے نمٹنے کی صلاحیت کھو رہے ہیں۔ افسوس کہ رائے عامہ بنانے والے ماہر تجزیہ کاروں کے تمام اندازے گھڑی بھر میں غلط ثابت ہو جاتے ہیں۔انفرادی اور اجتماعی معاملات کے حوالے سے ہم سب کو ہر روز ایک نئی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حکمراں اشرافیہ حال اور مستقبل کے بارے میں قطعیت کے ساتھ جو بھی دعویٰ کرے‘ صورت حال اس کے برعکس نکلتی ہے۔ جنوبی ایشیا میں سرعت کے ساتھ بدلتی پیچیدہ صورتحال کے تناظر میں اقتصادی شہ رگ کشمیر کے بارے میں ہماری نئی قومی پالیسی کے خد و خال پریشاں کن ہیں۔ طالبان کی قیادت میں ابھرتے ہوئے نئے افغانستان میں اب بھی زمین گرم ہے، وہاں طالبان کی فتح ابھی جنگ کے اثرات سے دگرگوں ہے، جہاں اُن کا ایک پیر ہارے ہوئے مگر زندہ دشمن کی گردن پہ اور دوسرا اپنی بقا کے تقاضوں میں پھنسا ہوا ہے۔ چین سے دیرینہ دوستی پہ شکوک و شبہات کے سائے منڈلا رہے ہیں، کسی کج کلاہ کو معلوم نہیں کہ زخم خوردہ امریکا کے ساتھ تعلقات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ اِس قسم کے سیاسی و سماجی بحرانوں سے نمٹنے کیلئے کوئی متبادل سفارتی پالیسی یا قابلِ اعتماد متبادل قیادت پیدا نہیں ہونے دی گئی، جو مشکل کی گھڑی میں آگے بڑھ کر قومی معاملات کو ہاتھ میں لیتی۔ اگر کوئی تھا بھی تو اس کی شخصی اور سیاسی ساکھ کو اتنے چرکے لگائے گئے کہ وہ سر اٹھانے کے قابل نہیں رہا۔ حکمراں ایلیٹ تو اپنی ناتجربہ کاری کے باعث ڈلیور کرنے میں ناکام رہی لیکن ان ساڑھے تین سالوں میں اپوزیشن کی ''پختہ کار‘‘قیادت بھی اپنی سمت کا نہ تو درست تعین کر سکی نہ ہی قوم کو منزلِ مقصودکا نشاں بتانے میں کامیاب ہو پائی۔ ہر روز وہ لانگ مارچ‘ اِن ہائوس تبدیلی یا نئے انتخابات کے مطالبات کی گونج میں ایسی پھلجھڑیاں چھوڑتی ہیں جو فضا میں ہی تحلیل ہو جاتی ہیں، یعنی اپنی کم مائیگی کی بدولت ملت کے رہنما کسی ٹھوس لائحہ عمل کی تشکیل کے امکان کو ہر روز بعیدتر کر دیتے ہیں۔
مضبوط سرحدیں اچھے پڑوسی پیدا کرتی ہیں لیکن تہتر سالوں میں ہماری بدقسمت آنکھیں مضبوط سرحدیں اور نہ ہی اچھے پڑوسی دیکھ سکیں۔ دریں اثنا انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ایجاد اور خاص طور پر سوشل میڈیا کی طلسماتی لہروں نے ہمارے احساسات کی سرزمین کو مسخر کرکے نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کے تصور کو ہی بدل ڈالا۔ موجودہ سماجی و سیاسی مسائل کے نفسیاتی تجزیے کیلئے ہمارے پاس الفاظ ہیں نہ وہ منظم خیالات جن کی وساطت سے سیاسی فکرکی صورت گری کر سکیں‘ اسی کارن ہمیں اذہان کی پیچیدگی اور غیر یقینی صورتحال کو برداشت کرنے میں دشواری پیش آ رہی ہے‘ خاص طور پر جب ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہو جو جذباتی یقین سے متصادم ہیں۔ ایک بالغ ذہن کئی وجوہات کی بنا پر سماجی اور سیاسی پیچیدگیوں کو برداشت کرنے کے قابل ہوتا ہے‘ بالخصوص عمرانی علم کے ذریعے بیان کردہ استدلال سے خود کو بہت جلد ہم آہنگ کر لیتا ہے۔ صحت مند ماحول میں تجزیہ کاروں کی مسند معلومات پہ مبنی تجزیاتی سوچ خود یا دوسروں کو کنفیوز کرنے کے بجائے رائے عامہ سے مطابقت پیدا کر لیتی ہے۔ وہ موجودہ سماجی و سیاسی مسائل کے بہت سے پہلوؤں پربحث کرتے ہوئے اپنے لیے ایسے موضوعات تلاش کرنے میں بھی کامیاب ہو جاتی ہے جن سے کئی دیگر افراد اچھی طرح مانوس ہوتے ہیں۔
سیاست اور سماجیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ زندگی میں بے وقوفانہ عمل معمول کی بات ہیں لیکن الجھن یہ ہے کہ انہیں سیاسی طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ قارئین اس بات سے بخوبی واقف ہوں گے کہ عہدِ جدید میں طاقتور ریاستوں نے انسانی حقوق اور سماجی آزادیوں کے حصول کے نعروں کو کمزور مملکتوں میں مداخلت کا وسیلہ بنایا، کسی بھی ریاست کو نشانہ بنانے سے پہلے سیاسی انتشار کے ذریعے وہاں کے عوام کو گمراہ کرنے کیلئے کئی پُراثر اصطلاحات استعمال کی جاتیں۔ ''قابلِ نفرت سلطنت‘‘ یا ''بدی کا محور‘‘ جیسی اصطلاحات کا اطلاق سیاسی ہتھکنڈوں کی کلاسیک مثالیں ہیں جن کے ذریعے خود اپنی برائیوں کو دوسروں کے وجود پہ منعکس کیا گیا۔ سیاست میں استعمال ہونے والی اِن پرشکوہ اصطلاحات کے مطالب ہمیشہ سوچ سے باہر رہے ہیں لیکن طاقتور پروپیگنڈا مشینری کے ذریعے ابہام سے لبریز ان الفاظ کے من پسند مفاہیم کو من و عن تسلیم کرایا گیا۔ نائن الیون کا نفسیاتی اثر ایک طرح سے سرحدوں پر دخل اندازی تھی، اس سے یہی ثابت کیا گیا کہ سرزمین کبھی بیرونی حملے سے آزاد نہیں ہوتی۔ ماہرین نے اس واقعے کے مخصوص نفسیاتی مفہوم کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ذہنی حد کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس کی خلاف ورزی ہوئی۔ پانچویں نسل کی جنگ کا مطلب بھی یہی ہے کہ ہماری نفسیاتی حدود اب بیرونی حملے سے محفوظ نہیں رہ سکتیں۔ جیسے کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کے نفسیاتی احساس کو عراق پر حملہ زن ہونے کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں بروئے کار لایا گیا یعنی رجعت پسندی اور بے حسی نے عوام کو صدر بش کی عراق پالیسی کو نقابِ ابہام فراہم کیا‘ جیسے میسور (انڈیا) پر حملہ آور ہونے کیلئے برطانیہ نے بلیک ہول سکینڈل کو استعمال کیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں