"AAC" (space) message & send to 7575

ٹی ٹی پی سے امن معاہدہ

دہشت گردی کے خلاف جنگ کی کوکھ سے پیدا ہونے والے مسلح گروہوں کی جارحیت کو کند کرنے کے لیے پاکستان افغان طالبان کی وساطت سے کالعدم ٹی ٹی پی سے امن معاہدہ کر رہا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق طویل مذاکرات کے بعد بالآخر حکومت اور کالعدم تحریک طالبان باہمی تنازعات کو پُرامن طریقوں سے حل کرنے کی خاطر سیزفائر پر متفق ہو چکے ہیں۔ یہ سیزفائر ٹی ٹی پی اور پاکستانی حکام کے درمیان کابل میں کئی ہفتوں پہ محیط خفیہ بات چیت کے نتیجے میں ممکن ہوا، جس کے بعد ٹی ٹی پی اور قبائلی رہنماؤں کے مابین مذاکرات کا نیا دور شروع ہوا، جو بوجوہ بے نتیجہ رہا؛ تاہم پہلی بار افغان طالبان نے فریقین کے مابین ثالثی کرانے کی تصدیق کردی۔ مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں ''ٹی ٹی پی کو انگیج کرنے کا طریقہ کارغلط ہے جبکہ وقت کا تعین بھی درست نہیں، دوسرا، مذاکرات کرنے والی ٹیم اس قدر پیچیدہ معاملات کو نمٹانے کی اہلیت نہیں رکھتی‘‘۔ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی سے بات چیت کا درست وقت مئی2021ء تھا جب ٹی ٹی پی کے امیر نورولی نے ازخود رابطہ کرکے مذاکرات کی پیشکش کی تھی، جسے نظرانداز کر دیا گیا تھا۔ دوسرا، بات چیت کے تازہ مرحلے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے جن قبائلی رہنمائوں کا انتخاب کیا گیا، وہ ٹی ٹی پی خاص طور پر حاجی گل بہادر گروپ کے لیے قابلِ قبول نہیں۔ ماہرین اس معاملے میں بندوبستی علاقوں کے علما اور عمائدین کے علاوہ مولانا فضل الرحمن کو کردار دینے کے بھی حامی تھے لیکن کارآمد لوگوں کو پس پشت ڈال کر انتہائی حساس معاملات کو نامطلوب افراد کے حوالے کرنا پیچیدگیاںبڑھا سکتا ہے۔
مولانا صاحب کے بارے میں شاید تاثر یہ ہو کہ وہ ٹی ٹی پی سے تصفیے میں مدد دینے کو سیاسی مفاد میںبدل سکتے ہیں۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اولاً تو یہ خدشہ ہی بے بنیاد ہے، مولانا صاحب ایک ذمہ دار قومی رہنما ہیں‘ وہ ایسے کام کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کر سکتے؛ تاہم اگر ایسا ممکن ہو بھی تو اس خطے میں قیامِ امن کی یہ بہت کم قیمت تھی۔ چنانچہ بظاہر اسی کھینچا تانی میں تنازع کے پائیدار حل کے امکانات دور ہو رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق چند عوامل ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے انجام کا تعین کریں گے۔
پہلا، ٹی ٹی پی کے مطالبات اور پاکستان کی سلامتی سے وابستہ مفادات میں توازن قائم رکھنے کے علاوہ فریقین کی طرف سے ایک دوسرے کو دی جانے والی پیشکش کوصیغہ راز میں رکھنا۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ فی الحال ایجنسیوں کو اس معاملے سے الگ رکھ کے پشاور کور کے کمانڈرکی قیادت میں سرکاری مذاکرات کاروں نے ٹی ٹی پی کو افغانستان سے واپس پلٹنے کے لیے محفوظ راستہ فراہم کرنے کے عوض طویل المدتی جنگ بندی پر راضی کرنے اور مسلح تنظیم کو تحلیل کرکے مرکزی دھارے کی سیاست میں شامل ہونے کی پیشکش کی ہے لیکن اس پُرکشش پیشکش کے باوجود ٹی ٹی پی کی طرف سے دو مطالبات پہ اصرار مذاکرات میں تعطل کا وسیلہ بنا۔ پہلا، ملک کے سابقہ قبائلی علاقوں (فاٹا) میں فوجی دستوں میں خاطر خواہ کمی، دوسرا آئین میں ترمیم کے ذریعے2018ء میں کے پی میں ضم کیے جانے والے قبائلی علاقوں کے انضمام کا خاتمہ۔ مذاکرات کار شاید فاٹا میں دستوں میں کمی پر تیار ہو جائیں لیکن انضمام کے خاتمے کا مطالبہ ناقابلِ عمل دکھائی دیتا ہے۔
دوسرا اہم ایشو یہ ہے کہ افغان طالبان اپنا وزن کس پلڑے میں ڈالیں گے؟اسی تناظر میں افغان طالبان کا ثالثی کا کردار مرکزی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ کیا طالبان ٹی ٹی پی کو توقعات سے کم پر تصفیہ کرنے یا پھر پاکستان کو ان کی شرائط ماننے پر مجبورکریں گے؟ماہرین کاخیال ہے کہ طالبان حکومت کے لیے اپنی بقا اور سیاسی و معاشی مفادات کو پسِ پشت ڈالنا مشکل ہو گا۔ سب سے پہلے تو طالبان کی پوزیشن ان کے اپنے خارجہ تعلقات اور پاکستان پر انحصار کی سطح پر تشکیل پانے والا وہ احسان ہے جو پاکستان کی طرف سے طالبان کی سیاسی اور مادی حمایت کی صورت میں سامنے موجود ہے۔ حالیہ مہینوں میں طالبان کی جانب سے ٹی ٹی پی کو مذاکرات پر مجبور کرنے کی ایک وجہ افغانستان کے گہرے ہوتے معاشی اور انسانی بحران کے بیچ طالبان کا پاکستان پر بڑھتا ہوا انحصار تھا۔ پاکستان اپنے ہاں موجود افغانوں کی فوری واپسی کے علاوہ پاک افغان سرحدی تجارت کو محدود کرکے طالبان کی آمدنی پر معاشی دباؤ بڑھا سکتا ہے۔ انہی معاشی تقاضوں نے کچھ طالبان رہنماؤں کو اصلاحِ احوال کی طرف مائل کیا ہے۔ سراج حقانی‘ جو کابل میں قائم مقام وزیر داخلہ ہیں‘ ٹی ٹی پی سے مذاکرات کرانے کے لیے سب سے زیادہ متحرک نظر آئے۔ عالمی تنہائی کے آشوب کی وجہ سے طالبان کو اس امر کا بھی احساس ہے کہ ان کی حکومت عالمی برادری سے الگ تھلگ ہونے کی وجہ سے مستقبل قریب میں اپنے مشرقی ہمسایے کے ساتھ کشیدگی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ ایسی صورت میں افغانوں کو مزید مشکلات کا سامنا کرنے کے علاوہ طالبان حکومت کی بقا کو بھی خطرات درپیش ہو سکتے ہیں؛ تاہم یہ مجبوریاں افغان طالبان کی کالعدم تحریک سے نظریاتی وابستگی کو مکمل ختم کرنے کے لیے ناکافی ہیں جبکہ سراج حقانی امریکا کے خلاف مزاحمت میں ٹی ٹی پی کے تعاون کا کھلے عام اعتراف کرتے ہوئے اسے تنہا نہ چھوڑنے کا اعادہ بھی کرتے رہے ہیں۔
اگر طالبان کی پاکستان پر انحصار کی سطح تبدیل نہ ہوئی تو ٹی ٹی پی پر ان کی درمیانی پوزیشن کے لیے دو کلیدی عوامل اثرانداز ہوں گے۔ ایک، طالبان کی اندرونی سیاست، جس میں ٹی ٹی پی کے لیے حمایت کا عنصرموجود ہے۔ طالبان کا وہ قندھاری دھڑا جو ٹی ٹی پی کے لیے اپنی حمایت بڑھا کر اسے پاکستان سے بچاتا ہے‘ اس میں طالبان کے وزیر دفاع ملا یعقوب نمایاںہیں۔ یہ حلقہ سراج حقانی کی پاکستان کے ساتھ مل کرکام کرنے کی ترجیح کو کس حد تک پورا ہونے دے گا‘ اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔ دوسرا، ٹی ٹی پی کے مطالبات پر طالبان کا موقف اہم ہوگا۔ اگرچہ طالبان اصولی طور پر ٹی ٹی پی کی دعوتی تحریک کی حمایت کرتے ہیں لیکن یہ واضح نہیں کہ وہ ٹی ٹی پی کی مذاکراتی پوزیشن کو بھی تسلیم کرلیں؛ تاہم یہ بات قابلِ فہم ہے کہ ٹی ٹی پی کے مطالبات کی تکمیل پاک افغان سرحد پر افغان قوم پرستوں کے موقف کو بھی مزید مضبوط کر سکتی ہے۔ دوسری طرف طالبان میںکچھ لوگوں‘ خاص طور پر انہیں جو حکومتی بقا کے لیے داعش کے خراسانی گروہ کے بارے میں فکر مند ہیں‘ کو خدشہ ہے کہ اگر ٹی ٹی پی قبائلی علاقوں میں کمزور پڑی تواس خطے میں داعش سمیت کئی مسلح دھڑے جڑ پکڑ کر سرحد پار سے طالبان کو چیلنج کر سکتے ہیں۔ اگرچہ ٹی ٹی پی کے زیادہ ترلوگوں نے طالبان کی طرف سے مذاکرات کو ایک اور موقع دینے کے اصرار کا جواب مثبت طور پر دیا ہے؛ تاہم ٹی ٹی پی خود بھی بات چیت کے سیاسی مقاصد پرمنقسم ہے۔ لگتا ہے کہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد گروپ کی تشدد کی مہم نے نسبتاً کم قیمت پر ایک بڑا سیاسی مقصد حاصل کرلیا ہے۔ اسے ایسی رعایتیں ملنے کا امکان ہے جس سے اس کی سیاسی حیثیت کو فروغ ملے گا۔ وہ قیدیوں کی رہائی کو بالآخر گروپ کو مضبوط کرنے کے طور پر دیکھتی ہے لیکن ٹی ٹی پی کے کچھ لوگ اس امر پر فکر مند بھی ہیں کہ بات چیت سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘ چاہے تصفیے کی شرائط کچھ بھی ہوں کیونکہ جب ٹی ٹی پی غیر مسلح ہو جائے گی تو ریاست کی ان کے پاؤں کے نیچے سے قالین کھینچنے کی طاقت برقرار ہو گی۔ یہ لوگ ماضی کے معاہدات کا حوالہ دیتے ہیں، جو بڑی حد تک ناکامیوں اور آپریشنز پر منتج ہوئے لیکن ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ ریاست اور ٹی ٹی پی کے معاہدات کو ناکام بنانے میں امریکا کا دباؤ بنیادی محرک تھا جواب اس خطے میں موجود نہیں رہا؛ چنانچہ اس وقت عہد وپیماں نبھانے میں کوئی امر مانع نہیں ہو گا؛ تاہم کچھ رہنما بات کرنے کے دوران تشدد میں کمی کے مضمرات کے بارے میں فکرمند ہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ اگر تشدد کے آپشن کو ترک کر دیا تو ان کی حیثیت کم ہو جائے گی۔ تیسرا عنصر‘جس میں بنیادی طور پر خاندانوں اور ٹی ٹی پی سے منسلک پناہ گزینوں کے بڑے قبائلی نیٹ ورک شامل ہیں‘ جو آپریشن ضربِ عضب کے دوران افغانستان چلے گئے تھے‘ وہ اب حکومت کے ساتھ کسی ایسے تصفیے کے حامی ہیں جو اس امر کو یقینی بنائے کہ افغانستان سے ان کی فوری اور محفوظ واپسی ممکن ہو سکے۔ اس گروہ میں بہت سے لوگ کئی سالوں سے مشرقی افغانستان میں انتہائی غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ افغانستان کے بڑھتے ہوئے انسانی بحران کے باعث اس گروہ کو خوراک اور دیگر اشیائے ضروریہ تک رسائی جیسے مہلک مسائل درپیش ہیں۔
پاکستانی سیاستدان بھی بظاہر ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات پر خاموش ہیں لیکن سطح کے نیچے اضطراب موجود ہے۔ شاید اسی لیے وزیراعظم شہبازشریف کو اعتماد میں لینے کے علاوہ قومی قیادت کو بندکمرے میں دوبار بریفنگ بھی دی گئی ؛ تاہم اس میں مولانا فضل الرحمن شریک نہیں ہوئے۔ اکثر حلقوں کو اس ایشو پر بحث سے روک بھی دیا گیا ہے۔ پشاور کور کی قیادت میں ڈیل کرنے کی پچھلی کوششیں (جیسے 2004ء کا شکئی معاہدہ جسے امریکی ڈرون حملے میں نیک محمد کی موت نے ناکامی سے دوچار کیا)کامیاب نہیں ہو سکیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان کی پارلیمانی سیاست مذاکرات کے اگلے مرحلے کی تشکیل کیسے کرے گی، خاص طور پر اگر کسی تصفیے کی حمایت کے لیے آئینی تبدیلیوں کا مطالبہ کیا گیا تو اس معاہدے کا مستقبل کیا ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں