ہماری مملکت پیراڈائم شفٹ کے ایسے نازک مرحلے سے گزر رہی ہے جسے بجا طور پہ ہم یورپ میں اصلاح اور نشاۃ ثانیہ کی تحریکوں سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔ ان میں زمان و مکاں کی رعایت اور اس عہد کے آلاتِ تخیل و ذرائع ابلاغ کی بوقلمونی کے سوا کوئی جوہری فرق موجود نہیں۔ نشاۃ ثانیہ کی تحریک نے جس طرح 16ویں صدی کی مذہبی‘ سیاسی‘ فکری اور ثقافتی فضا میں ہلچل پیدا کرکے ریاستی و سماجی ڈھانچے اور عقائد کو نئی جہتیں دینے کے علاوہ براعظم یورپ کو جدید دور کی قیادت کے اسباب مہیا کرکے کیتھولک چرچ اور بادشاہ کا دائمی گٹھ جوڑ توڑ ڈالا تھا‘ اسی طرح ہم بھی ایک نظر نہ آنے والے بندوبست سے گلو خلاصی کی ایسی متنوع صورتوں سے نبردآزما ہیں جن کی وضاحت کے لیے ہمیں نئی اصطلاحیں درکار ہوں گی۔ پچھلے ستّر برسوں میں ہمیں فرسودہ سیاسی تصورات کے تابع رکھ کر جس جمود کے سپرد کیا گیا‘ وہ کافی گہرا تھا۔ اب ہمارے لیے ان پیچیدہ خیالات کو اپنی روح سے جدا کرنا دشوار ہو رہا ہے کیونکہ سوشل میڈیا سے ابھرنے والی انفارمیشن کی یلغار نے خاص و عام کے اذہان کو پراگندہ اور ماحول کو آلودہ کر دیا ہے۔ التباسات کی دھند میں اصل حقائق اور درست راہِ عمل کی تلاش مزید مشکل ہوگئی ہے۔ یہ بات اب کوئی راز نہیں رہی کہ نیو نوآبادیاتی نظام کے تحت ہماری ریاست طویل عرصہ تک عالمی دفاعی مقاصد کے لیے وقف رہی اور یہاں کی اجتماعی شعور کی مظہر‘ مقبول سیاسی قیادت بھی دردناک انجام سے دوچار رہی۔ پُراسرار ہاتھوں نے قائداعظم محمد علی جناح کے علاج معالجہ کی سہولت روک کر انہیں راہی ملک عدم کیا۔ پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو جلسۂ عام میں گولی مار دی گئی‘ قاتلوں کا سراغ آج تک نہیں ملا ۔برصغیر کے عظیم سیاستدان حسین شہید سہروردی کی بیروت میں پُراسرار موت تقسیمِ ہند کے متعلق اہم رازوں کو ہمیشہ کے لیے دفن کرگئی۔ لیاقت علی خان سے لے کر بینظیر بھٹو اور نواز شریف تک جس نے بھی مملکت کی خودمختاری کی آرزو کی اسے رسوائیوں کی زندگی اور اذیت ناک موت ملی۔ قوم کو سقوط ڈھاکہ کے آشوب سے نکال کر نئی امید دینے والے ذوالفقار علی بھٹو کو بھی ناکردہ گناہ میں پھانسی دینے کے بعد چند مزدوروں سے جنازہ پڑھوا کر دوسروں کو عبرت دلائی گئی مگر جو اس سانحہ کے اصل ذمہ دار تھے وہ صاف بچ نکلے اور عزت و تکریم کے حقدار ٹھہرے۔ تمام تر اطاعت شعاری کے باوجود موقعہ شناس ضیا الحق نے جب ملک کو ساورن بنانے کا خواب دیکھا تو وہ ایک فضائی حادثے کا شکار ہو گئے۔ بینظیر بھٹو سڑکوں پہ بے کسی کی موت ماری گئیں اور نواز شریف کو دو بار جلاوطنی کی کلفتوںکا سامنا کرنا پڑا۔ وہ آج اپنی جماعت کی حکومت ہونے کے باوجود وطن واپس لوٹ سکتے ہیں نہ ان کی بیٹی کو بیرون ملک سفر کی اجازت ہے۔ کابل سے پسپائی کے بعد ہمارے نظام پہ امریکی گرفت کچھ ڈھیلی پڑی تو نئے مسائل نے سر اٹھا لیا‘ تقدیر نے جب غیرموبوط واقعات کی مدد سے مختلف کرداروں کو آگے بڑھا کر افغانستان میں امریکہ جیسی مہیب قوت کو اَن دیکھی تباہی سے دوچار کرکے جنوبی ایشیا کی سیاسی اور اقتصادی جہتیں بدلیں تو ہمارے ریاستی ڈھانچہ میں بھونچال برپا ہونے لگے۔ تاحال ہم ملک کو دہشت گردی کی مظاہر سے الگ نہیں کر سکے۔
افغانستان میں طالبان کی ادھوری فتح دونوں ممالک کی اجتماعی زندگی کا ایسا نازک مرحلہ ثابت ہوئی جس میں ایک پاؤں ہارے ہوئے دشمن کی گردن پہ‘ دوسرا ابھی تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پھنسا ہوا ہے۔ ایسے میں طاقتور عالمی مقتدرہ ہمیں ان اعمال بارے جوابدہ ٹھہرانے کے جال بُن رہی ہے جو ہم نے مغربی اشرافیہ کے عالمی مفادات کی خاطر سرانجام دیے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ امریکی افغانستان میں اپنی شکست کا ذمہ دار پاکستان کو سمجھتے ہیں‘ اس لیے یہاں وہ طاقت کا مرکز تبدیل کرکے پاپولر سیاسی قوتوں کو غلبہ عطا کرنے کی ایسی سکیم کو عملی جامہ پہنانا چاہتے ہیں جو سنہ71ء جیسا انتشار انگیز ماحول پیدا کر سکے چنانچہ کابل سے انخلا کے بعد امریکہ سمیت مغربی اشرافیہ نے ابلاغ کے وسیع نظام کے تحت ہمارے اوپر دباؤ بڑھانے کی خاطر پاکستان کو دہشت گردی کی آماجگاہ کے طور پہ پیش کرنے کا بیانیہ تشکیل دیکر ہمیں ٹیرر فنانسنگ کے الزامات کے تحت ایف اے ٹی ایف میں جکڑ لیا۔ پچھلے پچھتّر برسوں میں سوویت یونین کے کیمونسٹ نظریات کی راہ روکنے کی خاطر مغربی قوتوں نے یہاں شدت پسند تنظیموں کی پراکسیز کے علاوہ جمہوری حقوق و سیاسی آزادیوں کی حوصلہ شکنی کے ذریعے آئین و قانون کی حکمرانی کی راہ روکے رکھی۔ آج سے کچھ عرصہ قبل تک کچھ اور جماعتیں بھی ہماری پارلیمنٹ اور سویلین حکومت کو اسی طرح ڈکٹیٹ کراتی تھیں جس طرح روشن خیال عمران آج پارلیمنٹ سے باہر کھڑے ہوکر حکومت‘نظامِ انصاف اور مقتدرہ کو کرا رہے ہیں‘ وہ بھی ماضی کی پروردہ قوتوں کی طرح آئین و قانون اور مذہب کی من مانی تشریح کرکے ایسے نئے سیاسی تمدن کی اساس رکھنا چاہتے ہیں‘ جس طرح 1953ء میں امریکی اشیر باد سے کچھ قوتوں کی پشت پناہی کرکے ملک بنانے والی سیاسی قیادت اور جمہوری سوچ کی حامل پارٹیوںکو دیوار سے لگایا گیا تھا۔ اسی طرح آج جمہوری جماعتوں اور لبرلز کو غیرمعمولی پذیرائی دے کر مبینہ سویلین بالادستی کی راہ بنائی جا رہی ہے۔ دو سال قبل جب نواز شریف نے لندن سے وڈیو لنک پرایک جلسہ میں خطاب کے دوران کچھ شخصیات کوتنقید کا نشانہ بنایا تو اس کے پیچھے بھی برطانیہ کی ایما شامل تھی بصورت دیگر سیاسی پناہ کا حامل قیدی میزبان ملک کی اجازت کے بغیر کسی کے خلاف اس قدر غیرمعمولی پیش دستی کیسے کر سکتا تھا؟ علی ہذالقیاس‘ یہی وہ پہلا سگنل تھا کہ عالمی طاقتیں اب ملکی سیاست میں غیر سیاسی قوتوں کے غالب رول کی متمنی نہیں رہیں۔ اس اشارہ کو درست طور پہ سمجھنے کے بعد جب پانامہ کے ذریعے نواز حکومت کا تختہ الٹنے کی غلطی سدھارنے اور مملکت کو ریگولیٹ کرنے کی کوشش کی گئی تو حیران کن طور پہ خان صاحب کی کلٹ فالوونگ کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا لیکن تمام تر رکاوٹوں کے باوجود ملک کو 2017ء کی پوزیشن (چین سے اقتصادی تعلق) پہ واپس لانے کی پالیسی ترک نہیں کی گئی۔
اسی ثابت قدمی کے ردعمل میں سوشل میڈیا پہ کبھی نہ تھمنے والی تنقیدی مہم نے اُن روایتی تصورات کو بربادکر دیا جو پچھلے پچھتر برسوں میں استوار کیے گئے تھے۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے اعتماد کا ووٹ ہارنے کے بعد قوم کو گروہی کشمکش کی دلدل میں کھینچ کر نئی نسل تقسیم کرکے ملک کو کمزور کرنے کی روش اپنا لی‘ دراصل انہیں معلوم ہے کہ عالمی سیاسی مارکیٹ میں کیا چیز بکتی ہے؟ وہ اچھے سے جانتے ہیں کہ کونسا بیانیہ مغربی اشرافیہ کی توجہ حاصل کرتا ہے۔ ہماری سیاسی جماعتیں سویلین بالادستی لینے کے فریب میں لاشعوری طور پر ملک میں نفرت آمیزجذبات سے مملو سیاسی پولرآئزیشن کا ماحول پیدا کرکے جس قسم کی خلیج پیدا کر رہی ہیں یہ مملکت کی تقسیم پہ منتج ہوگی۔ ہماری مقتدرہ سے زیادہ امریکہ کے زہریلے دانتوں کو اور کون جانتا ہو گا‘ آکٹوپس کی طرح پھیلے عالمی نظام کی درجنوں شاخوں نے عمران خان اور آصف زرداری کے علاوہ نوازشریف سمیت سب کو انگیج رکھا ہوا ہے۔ عالمی طاقتیں مربوط حکمت عملی کے تحت نہایت مہارت کے ساتھ کرداروں کو آگے پیچھے کرنے میں مشغول ہیں۔ جب تک پاکستان عالمی طاقتوں کا مفادپورا کرتا رہا‘ تب تک اِس مملکت کی سلامتی کا تحفظ بھی مغرب کی ذمہ داری تھا‘ جب سے امریکہ کی پاکستان میں دلچسپی ختم ہوئی‘ ملکی بقا کا سارا بوجھ ریاستی اداروں اور سیاسی قیادت کے سر آن پڑا لیکن دونوں باہمی اعتماد سے عاری اور اجتماعی دانش کو اپلائی کرنے کی سائنس سے ناواقف ہیں کیونکہ قبل ازیں امریکہ نے دونوں کو سرجوڑ کر سوچنے کا موقعہ دیا نہ باہم بھروسہ کی مشق کرائی۔ چنانچہ ہر دشمن اسی دراڑ سے داخل ہوکر عوام کے درمیان تفریق بڑھا کر ملک کو انتشار کی آگ میں جھونکنے کی کوشش کرتا ہے۔