قومی سیاست کی بساط پر مہروں کی پیشقدمی اور پسپائی کا عمل نہایت محتاط انداز میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات سے ترتیب پاتا دکھائی دیتا ہے۔ عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے عمران خان کو ایوانِ اقتدار سے نکالنے کے بعد ابھرنے والی اعصاب شکن کشمکش میں کئی ڈرامائی موڑ آئے لیکن اسحاق ڈار کا وطن واپس لوٹ کر وزارتِ خزانہ کا قلمدان سنبھال لینا اور ایون فیلڈ ریفرنس کیس میں مریم نواز کی بریت کا فیصلہ کافی حد تک اس سیاسی ٹوٹ پھوٹ کی بحالی کا ذریعہ بنا جس کی ابتدا2016ء میں پاناما سکینڈل سے ہوئی تھی؛ تاہم آڈیوز لیکس کی بازگشت نے تغیر و تبدل کے اِن سنجیدہ مناظر کو ہڑپ کر لیا ہے۔ اس وقت مریم نواز‘ شریف فیملی کے سیاسی جانشین کی حیثیت سے نواز لیگ کی ڈفیکٹو لیڈر بن کر ابھری ہیں۔ مسلم لیگی حلقوں میں انہیں اسمبلی فلور تک پہنچانے کی تجاویز بھی زیرِ غور ہیں۔ شنید ہے کہ انہیں سندھ سے قومی اسمبلی کے کسی حلقے سے منتخب کرانے یا پھر پنجاب کی صوبائی نشست سے الیکشن لڑا کر اسمبلی تک پہنچایاجائے گا۔
2014ء کے دھرنوں کے بعد سے پی ٹی آئی کی سیاست کا محور شریف خاندان کو قومی سیاست سے آئوٹ کرکے نئی قومی لیڈرشپ کے طور پر خود کو سامنے لانا تھا لیکن قلیل مدت میں ہی حالات کی سرکش لہروں نے اس سوچ کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔ نیرنگیٔ سیاست دیکھئے کہ پی ٹی آئی بحیثیت جماعت تو ابھی تک پاور سٹرکچر میں موجود ہے، خیبرپختونخوا، پنجاب، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں تحریک انصاف کی حکومتیں ہموار انداز میں چل رہی ہیں، بلوچستان میں بھی یہ ابھی تک حکومتی اتحاد کا حصہ ہے؛ اگرچہ وہاں جے یو آئی اسے حکومت سے الگ کرنے پر مصر ہے لیکن عمران خان کو مہارت کے ساتھ اقتدار کی حرکیات سے الگ کر دیا گیا ہے۔ اگر ہم غور سے دیکھیں تو اس وقت حکومتی تادیب کا ہدف صرف اور صرف عمران خان ہیں جسے وہ اپنی رومانوی مقبولیت سے تعبیر کرکے خود انسیت سے سرشار نظر آتے ہیں۔
اس وقت عالمی سیاست کے تانے بانے بھی نئے بندوبست کی تدوین میں مشغول دکھائی دیتے ہیں۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ عمران خان سے نجات کی سکیم کو عالمی قوتوں کی خاموش حمایت بھی حاصل ہو گی کیونکہ عمران خان بھی‘ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح اپنی افتادِ طبع کی بدولت اقتدار کے تقاضوں اور خارجہ پالیسی کی نزاکتوں سے خود کو ہم آہنگ نہیں رکھ پائے۔ جدید رموزِ حکمرانی میں منقسم اختیارات اور فیصلہ سازی کا متنوع نظام ایسے عناصر کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کرتا۔ اقتدار سے الگ کیے جانے کے بعد عمران خان شدید نوعیت کا جذباتی ردعمل دینے کے بجائے اگر اپنی کوتاہیوں کا بے لاگ جائزہ لیتے اور حالات و واقعات کا بغور مشاہدہ کرتے تو وہ اس نازک تغیر وتبدل سے پیدا ہونے والے نتائج کو اپنے حق میں موڑنے کے علاوہ اُن تادیبی کارروائیوں سے بھی بچ سکتے تھے جو اس وقت تیزی سے اُنہیں اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں۔ پہلے آٹھ سال سے التوا میں پڑے ممنوعہ فنڈنگ کیس کے فیصلے سے انہیں دھچکا پہنچایا گیا، پھر توشہ خانہ ریفرنس کے ذریعے نااہلی کی تلوار ان کے سر پر لٹکا دی گئی، 21 اگست کو اُن کے خلاف اسلام آباد میں سیشن جج سمیت اعلیٰ سطحی پولیس اہلکاروں کو دھمکیاں دینے کی پاداش میں دہشت گردی سمیت مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج ہوا اور اسی معاملے پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے پہلے توہینِ عدالت کی کارروائی میں انہیں طلب کیا، پھر ایف آئی آر سے دہشت گردی کی دفعات خارج کرکے انہیں کچھ ریلیف دیا، عدالت نے انہیں غیر مشروط معافی مانگنے کا موقع دیا مگر وہ انہوں نے ضائع کر دیا جس پر عدالتی کارروائی آگے بڑھائی گئی۔ اس کے بعد انہوں نے کچھ سنجیدگی کا مظاہرہ کیا اور عدالت کے روبرو اپنے بیان پر افسوس کا اظہار کیا۔اس کے بعد انہوں نے عدالتِ عالیہ میں معافی نامہ جمع کرانے کے علاوہ سیشن جج صاحبہ کی عدالت میں جا کر معافی مانگنے میں بھی جھجک محسوس نہ کی۔ اسی دوران حکومت نے ان کا وارنٹِ گرفتاری جاری کیا اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا کہ فی الحال عمران خان کو گرفتار کرنے کا کوئی ارادہ نہیں مگر پی ٹی آئی کے کارکنان عمران خان کو اپنی ریڈ لائن قرار دیتے ہوئے ان کی گرفتاری کو حکومت کی سنگین غلطی باور کرانے لگے۔ ہفتے کی رات کو جاری ہونے والا یہ وارنٹ گرفتاری اس وقت بے اثر ہو گیا جب سوموار کو عدالت نے عمران خان کی معافی قبول کرتے ہوئے توہین عدالت کا کیس ختم کر دیا۔ اس وقت عمران خان کے سر سے توہینِ عدالت کی تلوار ہٹ گئی ہے لیکن فی الحال ان کی مشکلات کم نہیں ہوں گی کیونکہ وفاقی کابینہ نے سائفر جیسے سفارتی معاملے سے جڑی آڈیولیکس کو جواز بنا کر خان صاحب کے خلاف قومی سلامتی سے متعلق راز افشا کرنے کے الزام میں کارروائی کی منظوری دے دی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس عہد میں اطلاعات تک رسائی اہمیت کی حامل ہے۔ انفارمیشن ایک قسم کی طاقت ہے اورعمران خان کی ٹیم انفارمیشن کی طاقت کے استعمال کا فن دیگر جماعتوں کی نسبت بہتر جانتی ہے؛ چنانچہ خان صاحب اب بھی پُرامید ہیں کہ مخالفین کو مسخرکرکے بہت جلدکھویا ہوا مقام وہ دوبارہ پا لیں گے۔ یہ بجا کہ ریاستی ڈھانچے میں ہونے والی سرگوشیوں کی خبر انہیں بروقت مل جاتی ہے اور خان صاحب کی سائبر فورس مناسب وقت پہ ان کا دفاع مؤثر بنا لیتی ہے، اِس جنگ میں‘ جو دراصل انفارمیشن کے میدان میں لڑی جا رہی ہے‘ فریقین مخفی منصوبوں کو طشت از بام کر کے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں سرگرداں ہیں۔ کچھ دن قبل ڈارک ویب کے ذریعے وزیراعظم ہائوس کی رازدارانہ مشاورت اور خفیہ میٹنگز کی آڈیوز لیک کرنے کے ساتھ ہی ایسی مزید کئی فائلوں کی نیلامی کی خبر نے بظاہر شہباز حکومت کو صدمہ پہنچایا لیکن ڈپلومیٹک سائفر سے سیاسی مفاد کی کشیدگی سے متعلق عمران خان کی مشاورت پر مبنی مرحلہ وار دو آڈیوز لیک کے علاوہ خان صاحب کی کچھ وڈیوز کے لیک کیے جانے کی خبروں نے فی الحال پی ٹی آئی کو دفاعی پوزیشن پر کھڑا کر دیا ہے۔
شنید ہے کہ نوازلیگ اگلے چند دنوں میں پنجاب پر تصرف پانے کی ایک اور کوشش کے ذریعے موجودہ سیاسی کشمکش کا رخ موڑ سکتی ہے۔ پنجاب ملک کا سب سے بڑا اورسیاسی طور پر فیصلہ کن قوت کا حامل صوبہ ہے جو مختصر اور طویل المدتی‘ دونوں صورتوں میں نوازلیگ کی قسمت کا تعین کرے گا۔ اگرچہ سوشل اور مین سٹریم میڈیا پر اکثر آوازیں پی ٹی آئی کے لیے وقف ہیں لیکن پنجاب میں نواز شریف کا روایتی ووٹ بینک اب بھی مربوط ہے۔ ہرچند کہ مسلم لیگ کی حمایت کرنے والے اہل الرائے کا تجزیہ یہی ہے کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانا پی ڈی ایم کی سیاسی غلطی تھی اور اس کا خمیازہ نواز لیگ کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ملکی معیشت کے تنزل کے سبب عمران خان کی مقبولیت کم ہو رہی تھی اور اگر انہیں2023ء تک اقتدار میں رہنے کی مہلت دے دی جاتی تو اگلے الیکشن میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کا صفایا ہو جاتا لیکن جب بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے رکے ہوئے پروگرام کے سبب مہنگائی بڑھی اور خان صاحب کو وزارتِ عظمیٰ سے ہٹایا گیا تو پی ٹی آئی کی جانب سے ایندھن پر دی جانے والی سبسڈی قومی خزانے پر بھاری پڑ رہی تھی۔ حکومت نے اس سبسڈی کو ختم کیا تو مہنگائی کی ایک لہر امڈ آئی۔ نیز عمران خان کی برطرفی کے بعد روپیہ اپنی قدر کا ایک تہائی سے زائد حصہ کھو بیٹھا۔ اگست میں ملک کو تاریخ کی سب سے زیادہ42.31 فیصد ریکارڈ مہنگائی کا سامنا تھا، فطری طور پر جس کا وبال پی ڈی ایم حکومت کے گلے پڑ گیا حالانکہ اکثر حلقوں کے مطابق یہ سب پی ٹی آئی کی معاشی پالیسیوں کا نتیجہ تھا۔ اگرچہ نواز لیگ یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ 2018ء میں معاشی لحاظ سے مضبوط اور سیاسی طورپر مستحکم ملک عمران خان کے حوالے کیا گیا تھا مگر رائے عامہ ٹھوس حقائق کو خریدنے کے بجائے اس تاثر کو جلد قبول کرتی ہے جو اسے لمحۂ موجود میں مل رہا ہوتا ہے۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ اگر پی ڈی ایم حکومت نہ سنبھالتی تو عمران خان اپوزیشن کی قیادت کو پیچیدہ مقدمات سے نجات کا موقع دیتے نہ وہ اس قانون سازی کا تدارک کر سکتے جو پی ٹی آئی نے اپنے سیاسی مستقبل کو محفوظ بنانے کی خاطر کر رکھی تھی۔ پی ٹی آئی کے اقدامات کے بادل اگلے دس سال تک اپوزیشن بالخصوص نواز لیگ کے مستقبل پر چھائے رہتے۔
نواز شریف کے بہت سے حامیوں کا خیال ہے کہ موجودہ وفاقی حکومت مسلم لیگ کے قائدکی خواہشات کی نمائندگی نہیں کرتی۔ اگرچہ شہباز شریف سیاسی طور پر نواز شریف کے نااہل ہونے کے بعد پارٹی کے صدر بنے تھے مگر سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نواز لیگ کا اوسط حامی اور ورکر اب بھی شہباز شریف سے مطمئن نہیں ہے کیونکہ شہباز شریف مزاحمتی بیانیے کے برعکس روایتی مفاہمتی بیانیے کے حامی ہیں اور اس لیے موجودہ حکومت کو نواز شریف کی سوچ کے برعکس دیکھا جاتا ہے لیکن چند دوسرے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نواز شریف کے ساتھ شہباز شریف کا تصادمِ فکر شاید ہی نظریاتی ہو، نواز شریف بھی 1980ء کی دہائی میں اپنے سیاسی آغاز کے دوران مفاہمتی بیانیے پر کاربند رہے؛ چنانچہ انہوں نے جان بوجھ کر اپنے مزاحمتی بیانیے کو کافی لچکدار رکھا اور اسی لچک نے نواز شریف کو اپنی سیاسی ضرورتوں کے مطابق حالات کو ڈھالنے اور دوبارہ اپنے حق میں تشکیل دینے کا نادر موقع فراہم کیا۔ شریف برادران کے مابین اختلاف اگر تھا بھی تو سیاسی طاقت حاصل کرنے اور اسے برقرار رکھنے کی حکمت عملی تک محدود رہا؛ تاہم عمران خان کی برطرفی کے بعد سے مزاحمتی بیانیے نے نواز لیگ کی اندرونی تقسیم کو حقیقی وجودی بحران میں بدل دیا ہے۔ یہاں تک کہ عمران خان بھی عملی طور پر اپنے دور میں مقتدرہ کے کہنے پر بعض فیصلوں کا اعتراف کرنے کے بعد آج نواز شریف کے اُس مزاحمتی بیانیے کو اُٹھا چکے ہیں، جس کی بازگشت ''ووٹ کو عزت دو‘‘کے نعرے میں سنائی دیتی تھی۔