2014ء کے چار مہینوں پہ محیط دھرنے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحران کی مہیب لہروں نے بدستور ہمارے ریاستی ڈھانچے اور سماجی و سیاسی وجودکو وقفِ اضطراب رکھا ہوا ہے۔ سیاسی بیانیے کی انتشار انگیز پیچیدگیوں نے ملکی معیشت، قومی سیاست، صحافت، ادارہ جاتی نظم و ضبط حتیٰ کہ نظامِ عدل کو اپنی لپیٹ میں لے کر ہر فرد اور ہر ادارے کو تنازعات میں الجھا دیا ہے۔ اس وقت مقتدرہ سے لے کر پارلیمنٹ اور ایوانِ عدل تک‘ کوئی ایسا فورم باقی نہیں بچا جو باہم دست و گریبان گروپوں کو سر جوڑ کر بیٹھنے کا ماحول فراہم کر سکے۔ اس لیے ہمارے چاہنے کے باوجود بحران در بحران کا یہ سلسلہ رکتا دکھائی نہیں دیتا۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ اس کشمکش کے سارے کردار نتائج وعواقب کی پروا کیے بغیر‘ اپنے جماعتی، ادارہ جاتی اور شخصی مفادات کو پسِ پشت ڈال کے اجتماعی بقا کے لیے ذہنی لچک دکھانے کو تیار نہیں۔ یہ ایسی گنجلک صورتِ حال ہے جس کے محرکات ہماری قیادت کے شخصی رویوں اور داخلی سیاسی تنازعات کے علاوہ عالمی حالات کی نزاکتوں میں بھی پیوست ہیں۔ اس دلدل سے نکلنے کے لیے ملک کو عوام کی اجتماعی مساعی، قومی قیادت کے ایثار، برادر مسلم ممالک کے تعاون اور عالمی برادری کی مدد درکار ہو گی۔ شاید اسی ضرورت کے پیشِ نظر وزیراعظم شہباز شریف نے 9 جنوری کو جنیوا میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کے ساتھ مل کر موسمیاتی تغیرات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مصائب سے نمٹنے کی خاطر بین الاقوامی ڈونرزکانفرنس کی میزبانی کی۔ یہ کانفرنس حالیہ سیلابوں کی تباہ کاریوں کے ازالے کیلئے اجتماعی کاوشوں کو منظم کرکے پاکستانی عوام کے لیے بین الاقوامی برادری کی طرف سے ریسکیو اور ریلیف کی سرگرمیوں کو عملی جامہ پہنانے کا پلیٹ فارم مہیا کرے گی۔ اسی کانفرنس میں پاکستان نے ریزیلیئنٹ ریکوری، بحالی اور تعمیرِ نو کا ایسا فریم ورک پیش کیا جس کے نفاذ کے لیے وہ بین الاقوامی برادری کے ہنگامی تعاون کے علاوہ طویل المدتی شراکت داری کا بھی خواہاں ہے۔ فور آر ایف دستاویز میں وفاقی اور صوبائی سطحوں پر متعین ترجیحی اور ترتیب وار منصوبوں کا خاکہ پیش کیا گیا، جس میں شفاف اور باہمی تعاون پر مبنی مالیاتی امور اور ادارہ جاتی انتظامات کا طریقہ کار شامل ہے۔
کانفرنس میں بین الاقوامی مالیاتی اداروں، فاؤنڈیشنز اور فنڈز کے علاوہ بین الاقوامی تنظیموں، نجی شعبے اور عالمی سطح کے سرکاری و غیرسرکاری اداروں کی طرف سے اب تک 10 ارب 70 کروڑ ڈالر امداد کے وعدے ملے، سعودی عرب نے پاکستان میں اپنی سرمایہ کاری10بلین ڈالر تک بڑھانے کے علاوہ سٹیٹ بینک میں5 بلین ڈالر جمع کرانے کا عندیہ بھی دیا۔ واضح رہے کہ جولائی‘ اگست 2022ء میں پری مون سون طوفانی بارشوں کے بعد آنے والے سیلابوں میں تقریباً 1700 افراد ہلاک ہوئے جبکہ ملک کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈوب گیا، جس سے سوا تین کروڑ سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے۔ خاص طور پر سندھ، جنوبی پنجاب اور بلوچستان کے کئی اضلاع میں لاکھوں گھر، کمرشل عمارتیں، سڑکیں‘پل اور سکول سیلابی ریلوں میں بہہ گئے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے آفاتِ سماوی کے بعد نقصانات کا تخمینہ30بلین ڈالر لگایا جبکہ بحالی و فوری تعمیرِنو کی ضروریات کے لیے 16.3 بلین ڈالر کا تخمینہ لگایا گیا۔
دریں اثنا آرمی چیف نے بھی خلیجی ممالک کے پہلے سرکاری دورے کے دوران سعودی حکام سے ملاقات کی۔ جنرل سید عاصم منیر اپنے سرکاری دورے کے آخری مرحلے میں متحدہ عرب امارات پہنچے اور اماراتی صدر شیخ محمد بن زاید سے ملاقات کی۔ اس سے قبل انہوں نے جمعرات کو سعودی دارالحکومت ریاض میں سعودی وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان سے ایک طویل ملاقات کی، جس کے بعد سعودی شہزادے نے ٹویٹ میں کہا ''ہم نے برادر ممالک کے درمیان سٹرٹیجک شراکت داری پر زور دیا، دو طرفہ عسکری اور دفاعی تعلقات کا جائزہ لیا اور باہمی تعاون کو مضبوط بنانے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا‘‘۔ اتوار کے دن سعودی وزیراعظم اور ولی عہد محمد بن سلمان نے آرمی چیف کا اپنے سرمائی کیمپ میں استقبال کیا۔ آرمی چیف کا خلیجی ممالک کا دورہ ایسے وقت میں شروع ہوا جب پاکستان معاشی بحران سے نکلنے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہا ہے۔
اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر 4.5 ارب ڈالر ہیں جبکہ کمرشل بینکوں کے پاس 5.8 بلین ڈالر ہیں۔ ملک ابھی گزشتہ سال کے سیلاب کی تباہ کاریوں سے باہر نہیں نکلا تھا کہ ہوشربا مہنگائی کی لہر نے زندگی کا قافیہ تنگ کر دیا۔ پچھلے ہفتے کے آغاز پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے امید ظاہر کی تھی کہ سعودی عرب ہماری معیشت کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے سٹیٹ بینک میں اپنے ڈالرز پارک کرے گا۔ فی الوقت اسلام آباد کو زرمبادلہ کے ذخائر کو مناسب سطح تک پہنچا کر ڈیفالٹ سے بچنے کی خاطر سعودی عرب کی مالی معاونت کی ضرورت ہے۔ ریاض نے نومبر2021ء میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور میں بھی قومی خزانے میں 3 بلین ڈالرز جمع کرا کے ہماری معیشت کو ریسکیو کیا تھا۔ گزشتہ ماہ ملک کو آئی ایم ایف کی شرائط میں توسیع کا سامنا کرنا پڑا‘ حالانکہ اپریل میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے وزیر اعظم شہباز شریف نے اقتصادی امداد اور غیرملکی سرمایہ کاری کے حصول کے لیے خلیجی ممالک کے متعدد دورے کیے تھے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق‘ پچھلے سال اپریل سے نومبر تک‘ سعودی عرب نے تیل کی درآمد کے لیے 900 ملین ڈالر کے علاوہ 500 ملین ڈالر سے زیادہ کی نقد امداد فراہم کی تھی۔ قطر نے بھی اگست میں شہباز شریف کے دوحہ وزٹ کے دوران 3 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا تھا۔ تجزیہ کاروںکا کہنا ہے کہ آرمی چیف کے رواں دورے کو معاشی تناظر میں دیکھا جائے گا کیونکہ یہ ایسے وقت میں وقوع پذیر ہوا جب خاص طور پر مملکت کو شدید نوعیت کے مالیاتی مسائل نے گھیر رکھا ہے اور ملکی قیادت ڈیفالٹ سے بچنے کی خاطر سعودی شاہی خاندان کی طرف دیکھ رہی ہے۔ پاکستان اگست 2022ء میں آئی ایم ایف سے 1.17بلین ڈالر قرض حاصل کرنے میں کامیاب رہا لیکن 1.18 بلین ڈالر کی اگلی قسط‘ جو نومبر میں ملنا تھا‘ میں تاخیر مشکلات کا سبب بن گئی کیونکہ پی ڈی ایم حکومت آئی ایم ایف کی شرائط‘ بشمول ایندھن پر محصولات میں اضافہ‘ قبول کرنے کو تیار نہیں تھی۔ وزیراعظم صاحب نے جنیوا ڈونرز کانفرنس میں بھی واضح کیا کہ سیلاب سے تباہ حال غریبوں پر مہنگائی کا مزید بوجھ نہیں ڈال سکتے۔ اس تمام تر مساعی کے باوجود جب تک حکومت دیرپا سیاسی استحکام کا ہدف حاصل نہیں کرتی‘ اقتصادی حالات اور امنِ عامہ کی صورتیں دگرگوں رہیں گی۔ عبوری سیاسی استحکام کی خاطر صدر عارف علوی اور مفاہمت کے ماہر آصف علی زرداری کی کوششیں بھی تاحال بارآور نہیں ہو سکیں۔ عمران خان کی ضد زندگی کے اجتماعی دھارے کو ہموار رہنے دیتی ہے نہ پی ڈی ایم کی قیادت لچک دکھانے کو تیار ہے؛ چنانچہ خونخوار بدامنی اور شدیدترین اقتصادی مشکلات سیاسی ڈیڈ لاک کو زیادہ سنگین بنا رہی ہیں؛ تاہم سیاسی جمود کو توڑنے کی خاطر متبادل راستے بنانے کی کوششیں بھی ساتھ ساتھ جاری ہیں۔
جوڑتوڑ کے ذریعے مجموعی سیاسی ڈھانچے میں تبدیلیوں کی راہ بنانے کی خاطر سندھ میں ایم کیو ایم کی نشاۃ ِثانیہ، بلوچستان کے مصنوعی سیاسی ڈھانچے کو تحلیل کرکے سیاست کے مرکزی دھارے سے منسلک کرنے کیلئے پیپلزپارٹی اور جے یو آئی کو متحرک کرنے کی تگ و دو اہم ہے مگر ان ساری لن ترانیوں کے باوجود دنیا سیاسی استحکام کو تشدد کی عدم موجودگی کے تصور سے جانچے گی۔معاشی ترقی اور سیاسی استحکام کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ ایک طرف غیر مستحکم سیاسی ماحول سے جڑی غیر یقینی صورتحال سرمایہ کاری اور اقتصادی ترقی کی رفتار سست کرتی ہے تو دوسری طرف خراب اقتصادی کارکردگی حکومت پر شہریوں کے اعتمادکو ختم کرکے بدامنی کو جواز فراہم کرتی ہے؛ چنانچہ کسی بھی مملکت کی بقا کے لیے سیاسی استحکام، سماج کے اقتصادی حالات، بیرونی سرمایہ کاری، اندرونی و بیرونی تنازعات کو سلجھانے کی حکومتی استعداد، سماجی سطح پر نسلی و مذہبی کشیدگی کو کم کرنا، امن و امان کی بحالی اور جمہوری احتساب کا بہتر معیار ناگزیر ہوتا ہے۔