اس وقت حکومت جاری سیاسی بحران کی پیچیدگیوں پہ قابو پانے کی خاطر پارلیمنٹ کے ذریعے قانونی اصلاحات لانے کی کوشش میں عدالتی فعالیت سے الجھ رہی ہے۔ موجودہ آئینی بحران اگرچہ نواز لیگ کے لیے نیا نہیں ہے لیکن اسی نامطلوب کشمکش کی بدولت عدلیہ پر پہلی دفعہ مشکلات کے بادل لہراتے دکھائی دیتے ہیں۔ ماضی میں حالات کے جبر نے عدلیہ کو سویلین حکومتوں کو گرانے کی قوت سے بہرور رکھا؛ تاہم نوازشریف نے ہر دور میں عدالتی فعالیت کے خلاف خاموش مزاحمت کی روش ترک نہ کی اور اب پہلی بار نواز لیگ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے عدالتی فعالیت کو کند بنانے کی جارحانہ مشق میں سرگرداں نظر آتی ہے۔ 2017ء میں جب نواز شریف کو نااہل کر کے ایوانِ اقتدار سے رخصت کیا گیا تو نواز شریف نے ووٹ کو عزت دو کا مزاحمتی بیانیہ اپنا کر ملکی سیاست کے سارے ڈائنامکس بدل ڈالے۔ اُسی پیش دستی کے مضمرات نے آج بھی طاقت کے مراکز کو وقفِ اضطراب رکھا ہوا ہے؛ تاہم حالات کے تیور بھانپ کر مقتدرہ نے خود کو وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ رکھنے کی خاطر پوری شرحِ صدر کے ساتھ عوام کو قوت کا محور مان کر پارلیمنٹ کے حقِ حاکمیت کو تسلیم کر لیا لیکن عدلیہ تاحال ان حقائق کو ماننے کے لیے خود کو تیار نہیں کر سکی۔ اس لیے موجودہ عدالتی سیٹ اَپ کو اندر اور باہر سے ناقابلِ یقین مزاحمت کا سامنا ہے، جسے اگر بروقت ہموار نہ کیا گیا تو سب ایک ایسے دلدل میں دھنستے چلے جائیں گے جس سے باہر نکالنے والا بھی کوئی نہیں ہو گا۔ ہو سکتا کہ ہمہ دان دیوتا ان آرا کا تمسخر اڑائیں لیکن سچ یہی ہے کہ کائنات کی بوقلمونی اور زندگی کا تنوع ہمارے محدود اذہان کے احاطے سے باہر ہے، یعنی تاریخ کی رفتار اور معنی اس کے سوا کچھ نہیں کہ بہ تسلسل اور بہ تواتر جبر اور من مانی کارروائیوں کا دائرہ تنگ تر کیا جائے اورمفاہمت و صلح کے خط میں توسیع ہونی چاہئے مگر افسوس کہ ہماری اشرافیہ ابھی ماضی کی نفسیات سے دامن چھڑانے کو تیار نہیں۔
امر واقع یہی ہے کہ جسٹس شوکت صدیقی کی راولپنڈی بار سے خطاب کی باز گشت ابھی فضا میں تحلیل نہیں ہو پائی تھی کہ نواز لیگ کے نہال ہاشمی، دانیال عزیر اور طلال چودھری کی جارحانہ تنقید نے اعلیٰ عدلیہ کو نواز لیگ کے ساتھ براہِ راست تصادم میں الجھا دیا۔ جس وقت نواز لیگ کی صف اول اور دوم کی لیڈرشپ کو توہینِ عدالت کے کیسز میں انتخابی سیاست کے لیے نااہل کرکے سیاسی اکھاڑے سے باہر کیا جا رہا تھا‘ عین اسی وقت عدلیہ خود بھی لاشعوری طور پہ اس سیاسی اکھاڑے میں اتر چکی تھی جس کی جدلیات کا اسے کچھ تجربہ نہ تھا؛ چنانچہ پی ٹی آئی کے پونے چار سالہ دورِ اقتدار میں ایک پیج کے حامل حکمرانوں نے احتساب عدالتوں کے ذریعے لیگی قیادت کو ہمہ جہت مقدمات میں الجھا کر پابہ زنجیر رکھا ہوا تھا تو اُسی وقت مریم نواز نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی اعترافی وڈیو پبلک کرکے سلیکٹڈ احتساب کی چولیں ہلا ڈالیں لہٰذا حکومت اپنی تمام تر مساعی کے باوجود نواز لیگ کا ''احتساب‘‘ کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی اور اب تو پاور پالیٹکس کی جدلیات ان سبھی کو‘ جنہوں نے تقدس کا لبادہ زیبِ تن کر رکھا تھا‘ سیاست کے اُس خارزار میں کھینچ لائی ہے‘ جہاں سب کے قدم چھلنی ہو جاتے ہیں۔
تقدیر کی جبریت نے قومی تاریخ میں پہلی بار عدالتی کرداروں کو اُس برہم پارلیمنٹ کے سامنے لاکھڑا کیا، جو نظامِ عدل کے ہاتھوں زخم خوردگی کی طویل تاریخ رکھتی ہے، اور جس کی تلخی کا اندازہ پارلیمنٹیرین کے خطابات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ چنانچہ سیاسی جماعتوں میں مذاکرات کی ناکامی کے بعد تیزی سے بڑھتے ہوئے جس بحران نے جوڈیشری کو چاروں اطراف سے گھیر لیا ہے‘ اس کا بغیر کسی نتیجے کے ختم ہونے کے امکانات معدوم ہیں کیونکہ یہ بحران ایسا سینڈروم بن گیا ہے جس میں عدلیہ پارلیمنٹ کو ایک مخصوص دائرے میں لانے اور پارلیمنٹ عدالتی اصلاحات میں اپنی بقا تلاش کرنے لگی ہے۔ چند ہفتے قبل حکومت نے پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں میں اُن تراشیدہ قواعد کو ریگولیٹ کرنے کا ایسا بل پاس کیا، وکلا برادری تیس سالوں سے جس کی ڈیمانڈ کر رہی تھی؛ تاہم اس بل کی تشکیل سے قبل ہی ازخود نوٹس لے کر اس قانون پر عملدرآمد روک دیا گیا۔ پاکستان بار کونسل سمیت چاروں صوبوں کی بارکونسلوں اور بار ایسوسی ایشنز سمیت دانشوروں، ادیبوں، صحافیوں اور سیاسی جماعتوں نے سپریم کورٹ پریکٹس اور پروسیجر بل کا گرم جوشی سے خیرمقدم کرتے ہوئے مجوزہ قانون کی حتمی منظوری سے قبل اس پر عمل درآمد روکنے کے پیشگی حکم امتناعی کو پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار پر اثر انداز ہونے کی کوشش سے تعبیر کیا۔ خود عدلیہ کے اندر سے بھی نئے قانون کو عدالتی نظام میں پائی جانے والی پیچیدگیوں کو ریگولیٹ کرنے کا جائز ٹول قرار دیا گیا۔
سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023ء کہلانے والی یہ قانون سازی ایسے وقت میں سامنے آئی جب سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب میں صوبائی انتخابات میں تاخیر پر الیکشن کمیشن کے خلاف سو موٹو کیس کی سماعت کر رہا تھا اورجس کے خلاف قومی اسمبلی نے متفقہ قرارداد منظور کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے پارلیمنٹ کی حدود اور سیاسی امور میں مداخلت بند کرنے کا مطالبہ کر رکھا تھا۔ قرارداد میں کہا گیا کہ یہ ایوان سمجھتا ہے کہ حکومتی امور میں عدلیہ کی مداخلت سیاسی عدم استحکام کا سبب بنی‘ خاص طور پر آئین کی شق 63A کی تشریح کی آڑ میں آئین کو دوبارہ لکھنے کی پیش دستی کے مضمرات نے پارلیمنٹ اور عدلیہ سمیت پورے نظام کو بحران میں الجھا دیا؛ چنانچہ پہلے سے موجودکشیدگی کی فضا نے اس قانون سازی کو متنازع بنا دیا جو خود عدلیہ کی قوت کو ریگولیٹ کر کے اس کی ساکھ کو زیادہ بہتر بنا سکتی ہے۔
پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے بل میں بینچ کے ذریعے قانون سازی روکنے اور چیف جسٹس کے اختیارات تقسیم کرنے کے حوالے سے مناسب ترامیم تجویز کی گئیں جن کی ضرورت اور اہمیت کی طرف اشارہ‘ دو صوبوں میں الیکشن کے لیے تشکیل دیے گئے بینچ کے چار فاضل ججزنے اپنے تفصیلی نوٹس میں کیا تھا کہ سوموٹو نوٹس لینے کا طریقہ کار، بینچ کی تشکیل اور میرٹ پہ مقدمات کی سماعت جیسے انتہائی بنیادی معاملات کو فردِ واحد کی مرضی پہ نہیں چھوڑا جا سکتا؛ تاہم حکومت اور عدلیہ کے تنازع کا بنیادی محرک دو صوبوں میں قبل از وقت انتخابات کرانے کا سابق وزیراعظم عمران خان کا مطالبہ اب بھی محلِ نظر ہے۔ عمران خان کو اپوزیشن نے گزشتہ سال اپریل میں عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے بے دخل کیا تو انہوں نے پہلے جلسوں اور ریلیوں کے ذریعے وفاقی حکومت کو دو صوبوں میں قبل از وقت انتخاب کرانے پہ مجبور کرنے کی کوشش کی‘ بعدازاں جنوری2023ء میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ الیکشن میں تاخیر پر پی ٹی آئی نے عدلیہ سے رجوع کیا اور عدالت کے فیصلے کے بعد انتخابی عمل شروع کرانے سے وہ 2017ء کی طرح عدلیہ اورحکومت کے مدمقابل لانے کی تگ و دو میں سرگرداں نظر آئی۔ حکومت نے قومی اور دو صوبائی اسمبلیوں کی موجودگی میں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں قبل از وقت انتخابات کرانے کے عمل کو آئین کی مجموعی سکیم کے منافی قرار دے کر اکتوبر 2023ء میں قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کرانے کا مؤقف اپنا کر خان صاحب کے اس اقدام کو زبردستی انتخابات کرانے کی کوشش سے تعبیر کرتے ہوئے مسترد کر دیا۔ حکمران اتحاد پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں کہ عمران خان اپنے مقدمات میں قانونی تادیب سے بچنے کی خاطر جلد انتخابات کے ذریعے دوبارہ برسراقتدار آنے کی امید لگائے بیٹھے ہیں مگر اس کوشش میں وہ کامیاب نہیں ہو سکتے۔ الیکشن کمیشن نے نظرثانی کی درخواست دائر کر کے عدالت سے استدعا کی ہے کہ الیکشن کی تاریخ دینا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے لہٰذا 14 مئی کو الیکشن کرانے کا حکم واپس لیا جائے۔