کئی عالمی ابلاغی ادارے ایسے وقت میں پاکستان میں جمہوریت کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا رونا رو رہے ہیں جبکہ پوری مہذب دنیا مابعد جمہوریت‘ مابعد تہذیب اور مابعد سچائی عہد کے استقبال کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں قومی ریاستوں کا تصور اور جغرافیائی حدود بے معنی نظر آتی ہیں۔ جمہوریت چونکہ موجودہ شکل میں پیچیدہ انسانی معاشروں کی تشکیل کے لیے ناکافی ہے‘ اس لیے تہذیبوں کے تصادم کا فلسفہ متروک ہونے والا اور وہ تمام تر تمدنی تفریق از خود مٹنے والی ہے جس نے ہمیں ثقافتی شناخت کے تنگ دائروں میں محدود رکھا‘ لہٰذا عنقریب قدیم رسم و رواج پہ استوار علاقائی ثقافتوں کے جزیرے تحلیل ہو کر فروغ پاتے ایک عالمی تمدن کے سمندر میں اُتر جائیں گے۔ بالخصوص مصنوعی ذہانت کا فروغ بہت جلد تہذیب کی دیواریں گرا دے گا۔ علی ہذالقیاس پاکستان جو جمہوری عمل کے نتیجہ میں وجود میں آیا اور اس کی تعمیر و ترقی کو ہمیشہ جمہوری اصولوں سے منسوب رکھنے کی کوشش کی گئی لیکن عملاً یہاں ایک مذہبی فلسفۂ سیاست کی ترویج کے ذریعے جمہوریت کو دھوکہ دہی کے مفاہیم سے مزین کرکے شک کے دائروں میں مقید رکھ کر آمریتوں کو قبولیت بخشی گئی۔ پچھلی سات دہائیوں میں مغربی استعمار نے بالخصوص اور عالمی میڈیا نے بالعموم یہاں جمہوریت کو مخالفانہ سیاست کے احیا کے ذریعے سیاسی عدم استحکام اور معاشرے کو منقسم رکھنے جیسے الزامات سے نوازا لیکن آج جب مغربی دنیا مابعد سچائی عہد کے لیے ناکافی سمجھ کر انبوہی سیاست اور جمہوریت پہ مبنی ادارہ جاتی نظام کی خامیوں سے نمٹنے کی خاطر ہاتھ پاؤں مار رہی ہے تو مغربی اہلِ دانش ہمیں سچی جمہوریت کی طرف پلٹنے کی ترغیب دینے کے علاوہ ہماری ناکام جمہوریت کی کوکھ سے بھی کامیابیاں نمودار ہونے کی نوید سنا رہے ہیں۔ اہلِ دانش کہتے ہیں کہ اگر کوئی یہ سمجھے کہ جمہوریت کیا کر اور کیا نہیں کر سکتی تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جمہوریت اپنی بدترین شکل میں بھی دو اہم مقاصد حاصل کر سکتی ہے۔ پہلا عوام کی سیاسی شرکت کے ذریعے اکثریت کو بااختیار بنانا‘ دوسرا سیاسی مساوات کا نظام مہیا کرنا‘ تاہم وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ جمہوریت سیاسی استحکام کو یقینی نہیں بنا سکتی کیونکہ کوئی منتخب حکومت نااہل یا کرپٹ بھی ہو سکتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ نوآبادیاتی دور کے خاتمے پہ مغربی ممالک نے حکمرانوں پہ حکمرانی کے لیے بنائے گئے نیو نوآبادیاتی نظام کو عوام کے حقِ حاکمیت سے منسوب رکھنے کی خاطر جمہوریت کو بے عیب نظام کے طور پر پیش کرکے اسے اپنی کالونیوں میں مقبول بنانے کی کوشش میں اسے ایک ہاتھ سے دور دھکیلا اور ناآموختہ عمل سمجھ کے دوسرے ہاتھ سے سینے سے لگاتے رہے‘ تاہم اس تضاد کے باوجود جمہوریت کو نوآبادیات سمیت پوری دنیا میں معاشی ترقی اور گڈ گورننس کی ضمانت کے طور پر بیچا گیا۔ البتہ پاکستان‘ جو اسلامی معاشرے کے قیام کی خاطر بنایا گیا‘ اپنے بنیادی مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا اور اسی خلا کو پُرکرنے کی خاطر وہ جمہوریت سے آمریت اور آمریت سے جمہوریت کی طرف محوری گردشوں میں جھُولتا رہا۔ اسی اُلٹ پھیر نے عوام کی اکثریت کو رفتہ رفتہ مذہبی و جمہوری جماعتوں اور آمرتیوں سے مایوس کر دیا۔ اہلِ مغرب کہتے ہیں کہ یہ سچ ہے کہ پاکستان میں سیاسی مساوات کے مسائل ہیں لیکن اس کے باوجود یہاں جمہوریت مکمل طور پر ناکام نہیں ہوئی کیونکہ ایک تو اس نے لوگوں کو مضبوط آواز فراہم کی‘ اس لیے تمام آمروں کو اپنی حکمرانی کے جواز کے لیے جعلی انتخابات کروانا پڑے۔ دوسرے سیاسی عمل کے نتیجے میں ایسی عوامی لیڈر شپ پیدا ہوئی جس نے بہرطور مملکت کو آئینی نظام کے تحت چلانے کا اصول منوا لیا۔ عام خیال یہی ہے کہ پاکستان کو سول ملٹری طاقت کے عدم توازن کی وجہ سے وقتاً فوقتاً سیاسی عدم استحکام کا سامنا کرنا پڑا لیکن جمہوریت انصاف اور قانون کی حکمرانی کا نظام تشکیل دے کر ریاست اور سرکاری اداروں کے لیے ضابطۂ اخلاق کی وضاحت اور آئین کے ذریعے ان کے دائرۂ اختیار کا تعین کرکے ایک قسم کا ادارہ جاتی توازن پیدا کرتی رہی جو آخر کار سیاسی استحکام کا وسیلہ بن سکتا ہے لیکن اگر وسیع تناظر میں دیکھیں تو جمہوریت خود ابھی سراغ رسانی کے افسانہ کی مانند‘ جس میں حقیقت ایک مجرم کی حیثیت رکھتی ہے‘ کٹہرے میں ہے بلکہ اہلِ مغرب خود بھی اسی تصور کے اسیر نکلے جس سے وہ لوگوں کو نجات دلانا چاہتے تھے۔
دوسری جنگِ عظیم کے خاتمہ پہ امریکہ دنیا کی ساٹھ فیصد دولت کا مالک ہونے کے علاوہ عالمی برادری پہ ناقابلِ تسخیر فوجی برتری حاصل کرنے والی طاقت بن کر اُبھرا۔ نوم چومسکی نے 1948ء کی پالیسی سٹڈی کی انتہائی خفیہ دستاویز کے حوالہ سے لکھا ہے ''جارج کینن نے کہا کہ ہم دنیا کی کل آبادی کا 6.3فیصد ہیں مگر ہمارے پاس دنیا کی ساٹھ فیصد دولت ہے‘ ایسے میں ہم حسد اور ناراضی کا نشانہ بن سکتے ہیں چنانچہ آنے والے دور میں ہمارا اصل کام عالمی تعلقات کا ایسا نمونہ وضع کرنا ہے جو قومی سلامتی کو نقصان پہنچائے بغیر اسی تفاوت کو قائم رکھنے کا وسیلہ بنے۔ ایسا کرنے کی خاطر ہمیں جذباتیت اور دن کے خوابوں سے دستبردار ہو کر اپنی پوری توجہ فوری قومی مقصد پہ مرکوز کرنا پڑے گی۔ ہمیں خود فریبی کی ضرورت نہیں۔ ہم آج دنیا کی بھلائی جیسی پرہیز گاری کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ہمیں مبہم اور مشرقِ بعید کے لیے غیرحقیقی مقاصد جیسے انسانی حقوق‘ لوگوں کے معیارِ زندگی کو بلند کرنا اور جمہوریت سازی کی باتیں چھوڑنا ہوں گی۔ وہ دن دور نہیں جب ہمیں براہِ راست طاقت کے تصورات سے نمٹنا پڑے گا‘‘۔ چومسکی کہتے ہیں کہ'' امریکی سیاسی الہیات میں جمہوریت حکمرانی کے ایسے نظام کو کہتے ہیں کہ جس میں کاروباری برادری میں شامل اشرافیہ کے عناصر معاشرے پہ اپنے غلبہ کی بدولت ریاست کو کنٹرول کرتے ہیں اور آبادی خاموشی سے اس کا مشاہدہ کرتی ہے تو سمجھ میں آیا کہ جمہوریت اشرافیہ کے فیصلوں اور عوامی توثیق کا نظام ہے۔ خود امریکہ میں عوامی مفاد کی پالیسیوں کی تشکیل میں عوام کی شمولیت کو سنگین خطرہ سمجھا جاتا ہے چنانچہ یہ جمہوریت کی طرف قدم نہیں بلکہ ہمیں جمہوریت کا بحران درپیش ہے جس پہ قابو پانا ضروری ہے۔ یہاں تمام مسائل عوامی رابطہ مہمات سے لے کر ڈیتھ سکواڈ جیسے اقدامات کے تحت حل کیے جاتے ہیں‘‘۔
اگر ہم پلٹ کے دیکھیں تو واقعات چومسکی کی تصدیق کرتے ہیں۔ پچھلے 75 سالوں میں نیو لبرل ازم نے انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے حصول کے نعروں کو کمزور ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے آلہ کے طور پہ استعمال کیا۔ جمہوریت اور مساوات کے دل آویز اصولوں کو گونج میں انسانوں کو یہ باور کرایا گیا کہ جہاں بھی وہ فوجی یا سیاسی مداخلت کر رہے ہیں وہ مقامی آبادی کی بھلائی کے لیے ہے لیکن عملاً عالمی مالیاتی نظام کے ذریعے‘ قرضوں کے ذریعے انہیں کنٹرول کرنے اور جمہوری تشدد کے ذریعے وہاں کی دولت اور وسائل پہ قبضہ کیا گیا یعنی عملاً یہ انسانیت پرستانہ نظریات نیو لبرل ازم کے عروج پہ سیاسی تشدد اور دھمکیوں کا محرک بنتے دکھائی دیے۔ نوم چومسکی کہتے ہیں کہ ''امریکی خارجہ پالیسی کی بنیادی فکر لوٹ مار اور استحصال کی آزادی کی ضمانت حاصل کرنا ہے‘‘۔ امریکہ نے دنیا بھر میں اُن استبدادی حکومتوں کو برداشت کیا جو عالمی طاقتوں کے غلبہ کو قبول کرنے پہ آمادہ تھیں۔ اسی سکیم کے تحت مغربی غلبے والی منڈیاں تیار کی گئیں تاہم حقیقت کو زیادہ دیر تک ہیڈ لاک میں نہیں رکھا جا سکتا‘ اس لیے وقت نے ازخود ان بھیانک حقائق کو طشت از بام کر دیا کیونکہ تاریخ کا اہم ترین قانون یہی ہے کہ جو چیز ابھرتی ہے وہ گرتی ضرور ہے۔ چنانچہ اس وقت ہمیں جمہوریت سے زیادہ داخلی خود مختاری اور اس قومی آزادی کی ضرورت ہے جسے عالمی طاقتوں نے یرغمال رکھا ہوا تھا۔