2014ء کے لانگ مارچ کے باعث سیاسی ماحول میں پیدا ہونے والی تلاطم خیز لہروں میں پی ٹی آئی کے چیئرمین کی توشہ خانہ کیس میں تین سال سزا کے بعد ایک گونا ٹھہراؤ پیدا ہوتا دکھائی دے رہا ہے اور بتدریج وہ لایعنی اضطراب گہرے سکوت کی طرف بڑھنے لگا ہے جس نے سیاست کے علاوہ عوام کی سماجی زندگی کو بھی تہ و بالا کر رکھا تھا‘ گویا اب اجتماعی حیات کا کارواں ایک واضح نصب العین کے ساتھ راہِ منزل کی طرف گامزن ہونے والا ہے۔ اگرچہ یہ کام اتنا آسان نہیں لیکن حالات کا جبر اسے ممکن بنا بھی سکتا ہے۔ گزشتہ 35 برسوں میں پُرامن اصلاحات کے لیے کوئی جامع منصوبہ بندی کیے بغیر سیاسی لیڈر شپ کی کردار کشی کی خاطر مالیاتی اور سیاسی بدعنوانیوں کے الزامات کے تحت جس قدر مہیب مہمات چلائی گئیں‘ اسی سے ہماری مملکت شدید نوعیت کے سیاسی انتشار اور معاشی بحرانوں کا شکار ہو گئی اور اس خود ملامتی کے بطن سے اس کے سوا کوئی خیر برآمد نہیں ہوئی کہ باہمی الزام تراشی کے رجحان نے سیاستدانوں کے علاوہ بیوروکریسی کو بھی عوامی احتساب کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا‘ لاریب بسا اوقات تقدیر ظاہری طور پہ غیر مربوط واقعات کی مدد سے کرداروں کو آگے بڑھا کر ان کی مرضی کے بغیر انہیں اَن دیکھی تباہی میں پھنسا دیتی ہے۔ یہاں سیاسی نظم و ضبط ہونا چاہیے خواہ وہ ابتری کے قریب ہی کیوں نہ ہو۔ جیسا نشاۃ ثانیہ کے وقت فلورنس یا روم میں تھا۔ زندہ انسانوں کو یہ احساس ملنا ضروری ہے کہ انہیں قدم قدم پہ موت اور ٹیکسوں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ تاریخ کی رفتار اور معانی بھی اس کے سوا کچھ نہیں کہ متشدد اور من مانی کارروائیوں کا دائرہ تنگ اور صلح و امن کے خط میں توسیع ہوتی رہے۔ سیاست معاشرے کو ریاست کی شکل میں منظم کرنے کا نام ہے لیکن انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کے باعث جدید فنِ حکمرانی کو پیچیدہ مسائل کا سامنا ہے۔ بعض وظائف مثلاً مالیات‘ نقل و حمل اور سوشل میڈیا جیسے اظہارِ رائے کے وسائل اتنے قوی ہیں کہ آئینی پابندیوں کے بغیر وہ معاشرے کو برباد کر سکتے ہیں۔ حالیہ چند برسوں میں سوشل میڈیا نے جس طرح تضادات کو بڑھا کر تشدد کو گوار بنایا‘ یہ خطرناک رجحان ہے۔ سچ پوچھئے تو غنیمت یہی ہے کہ سوشل میڈیا ایک ریاستی اتھارٹی کے کنٹرول میں ہونا چاہیے کیونکہ انہی سیاسی تنازعات اور نفسیاتی مسائل کو لے کر عالمی ادارے ہمارے ریاستی اداروں کو دباؤ میں رکھنے کی خاطر طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت پاکستان کو غیر یقینی مستقبل کی طرف دھکیلنے کی کوشش میں سرگرداں ہیں۔ انہی مقاصد کے حصول کی خاطر عالمی ذرائع ابلاغ میں بالخصوص اور سوشل میڈیا پر بالعموم یہاں غیر جمہوری حکومتوں کے المیے کو اجاگر کرنے کی مہمات جاری ہیں۔ ہاں جمہوریت کا سبق پڑھانے والے یہ وہی لوگ ہیں جو کل تک ہمیں سمجھاتے رہے کہ نمائندہ جمہوریت کو ریاستوں کے لیے متبادل کے مقابلے میں طویل مدتی سیاسی استحکام کے حامل نظام کے طور پہ پیش نہیں کیا جا سکتا کیونکہ بہت سے ماہرین جمہوری نظاموں کی ٹوٹ پھوٹ‘ غیر متوقع پن اور پینڈولم کی مانند جھولنے کو غیرمستحکم قرار دیتے ہوئے متضاد قوتوں پہ مبنی متنوع پارلیمنٹ کی نسبت ایک مستحکم اتھارٹیرین گورنمنٹ کو‘ کسی بھی ملک کو اس کی مکمل صلاحیت کے مطابق ڈھالنے کا اہل سمجھتے تھے۔ مگر افسوس کہ ہمارا مسئلہ اب جمہوریت اور آمریت کے مابین روایتی کشمکش کے سوال سے آگے بڑھ کر قومی خود مختاری کے تحفظ کا ایشو بن چکا ہے۔
سیاسی ماہرین اس حقیقت سے واقف ہیں کہ جمہوری و بنیادی حقوق اور سیاسی مساوات جیسی مبہم اصطلاحیں قومی سلامتی اور ہماری آزادی کا متبادل نہیں بن سکتیں کیونکہ آزادی کوئی سیاسی چیز نہیں بلکہ ایک قسم کی ذہنی کیفیت ہے جس کے احساس کو صرف انسانی ارتقا کے ذریعے پایا جا سکتا ہے۔ بلاشبہ اس کرۂ ارض پہ ایسی بہت سی قومیں موجود ہیں جنہوں نے جمہوریت کے بغیر سیاسی‘ سماجی اور معاشی ترقی کی منازل طے کرنے کے علاوہ ایک قسم کے اتھارٹیرین نظام کے تحت قومی سلامتی کا کامیاب دفاع کیا جن میں چین‘ ایران‘ سعودی عرب‘ کیوبا‘ شمالی کوریا اور کئی دیگر اقوام شامل ہیں۔ یقینا ہر کوئی اس عقیدے کا اشتراک نہیں کرتا لیکن حقیقت یہی ہے کہ طاقت ہر نظام میں یکساں طور پہ پیش آتی ہے۔ جیمزسٹیفن نے کہا تھا کہ ''سیاسی طاقت فقط شکل بدلتی ہے‘ اپنی فطرت نہیں بدلتی‘‘۔ گویا نوعِ انسانی سے وابستہ ہر قسم کا سیاسی‘ اقتصادی اور سماجی نظام انسانی رویوں کا عکاس ہوتا ہے۔ اسی لیے اس نظم و ضبط کا بیشتر حصہ‘ جو انسانیت پہ حاوی ہے‘ قانون و سیاست کا مرہونِ منت نہیں بلکہ اس کا سرچشمہ زندگی کے اجتماعی اصول اور انسانی فطرت ہے۔ جنوبی ایشیا سے امریکی پسپائی کے بعد ہماری اجتماعی حیات ایک ایسے مرحلے میں داخل ہونے والی ہے جہاں ہمیں تقسیمِ اختیارات کے آئینی نظام کی طرف جانے کی خاطر بنیادی نوعیت کی کچھ تبدیلیوں کا سامنا کرنا پڑے گا جیسے ہمارے عدالتی نظام میں اصلاحات کا رجحان قومی سیاست کی پیچیدگیوں کو کم کر سکتا ہے بالکل ویسے ہی سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی آئندہ ماہ متوقع وطن واپسی ہمارے نظام ہائے سیاست کے تضادات بڑھا سکتی ہے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے پانامہ کیس پر بننے والے پانچ رکنی لارجر بینچ نے 28جولائی 2017ء کو میاں نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا تھا جس کے بعد انہیں وزارتِ عظمیٰ سے ہٹا دیا گیا۔ اگلے سال چھ جولائی 2018ء کو احتساب عدالت نے میاں نواز شریف کو دس‘ ان کی صاحبزادی مریم نواز کو سات اور ان کے داماد کو ایک سال قید بامشقت کی سزا سنائی جس کے بعد وہ سیاست کے لیے تاحیات نااہل قرار پائے اور انہیں انتخابی اکھاڑے سے باہر کر دیا گیا۔ بعد میں طبی بنیادوں پر ضمانت دے کر انہیں اس نیت کے ساتھ بیرونِ ملک بھیجا گیا کہ قومی سیاست میں ان کا کردار اب ختم ہو چکا لیکن پچھلے پانچ برسوں کے دوران سیاسی بقا کے تقاضوں کے تحت مسلم لیگ (ن) کی لیڈر شپ کو چند سیاسی فیصلوں نے دوراہے پہ لا کھڑا کیا۔ آج جب انہوں کھویا ہوا سیاسی مقام واپس لینے کے لیے ''ووٹ کو عزت دو‘‘ کے جس بیانیے کی ضرورت تھی‘ وہ اُس بیانیے سے اپریل 2022ء میں اُس وقت دستبردار ہو گئی جب پی ٹی آئی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو کامیاب بنانے کی خاطر اس نے انہی حلقوں کے ساتھ اتحاد کر لیا جن کے خلاف اس نے یہ بیانیہ بنایا تھا۔ یہ امر نواز شریف کے مزاحمتی بیانیہ کی موت اور مہنگائی کے اس وبال کو اپنے گلے میں ڈالنے کا سبب بنا جسے خان صاحب کی سیاسی ناکامیوں نے جنم دیا تھا‘ تاہم میاں نواز شریف اس سیاسی خلا کو 2017ء میں ان کی کامیابی سے چلتی حکومت کا تختہ الٹنے والے افراد کے احتساب کے بیانیہ سے پُر کرنا چاہتے ہیں لیکن یہی بیانیہ ایک نئی سیاسی کشمکش کا نقطۂ آغاز بھی بن سکتا ہے۔ تاہم اب سوال یہ ہے کہ سیاستدانوں نے ملکی بقا اور وسیع تر قومی مفاد میں ہمیشہ اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کی قربانیاں دیں‘ کیا اب مقتدر حلقے ملک کے مالیاتی نظم و ضبط‘ سیاسی استحکام اور وسیع تر قومی مفاد کی خاطر اُن افراد کے احتساب پر راضی ہو پائیں گے جس کی مانگ نواز شریف نے کی ہے؟ فیض آباد دھرنا کیس کی نظرثانی درخواست اور نواز شریف کے تازہ بیانیے کا مستقبل اسی سوال کے جواب کے ساتھ منسلک ہے‘ بصورت دیگر مملکت میں معاشی‘ سماجی اور سیاسی استحکام خواب بن کر رہ جائے گا۔
جنوری میں ہونے والے متوقع عام انتخابات کے پُرامن انعقاد کا انحصار بھی نواز لیگ کے طرزِ عمل سے منسلک رہے گا، اگر بقائے باہمی کے کسی فارمولے پہ اتفاقِ رائے پیدا نہ ہوا تو الیکشن مہمات تلخیاں مزید بڑھا دیں گی۔