حماس‘ اسرائیل جنگ پہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا دوسرا اجلاس بھی بے نتیجہ رہا۔ امریکی وزیر خارجہ کی شٹل ڈپلومیسی سے قطع نظر تاریخ میں پہلی بار عالمی طاقتیں اسرائیلی جارحیت کی توثیق سے ہچکچا رہی ہیں۔ جمعہ کے اجلاس میں روس نے اسرائیل‘ حماس تنازع پر سلامتی کونسل میں قرارداد پیش کی جس میں شہریوں کے خلاف تشدد کی تمام کارروائیوں کی مذمت‘ انسانی بنیادوں پر جنگ بندی‘ یرغمالوں کی رہائی‘ غزہ تک انسانی امداد کی رسائی اور شہریوں کے محفوظ انخلا جیسے مطالبات شامل ہیں۔ اگر امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس‘ چین یا روس کی طرف سے کوئی ویٹو نہیں ہوتا تو سلامتی کونسل کی قرارداد کیلئے کم از کم نو ووٹ درکار ہوں گے تاہم ماضی میں امریکہ اسرائیل کو سلامتی کونسل کی کارروائیوں سے بچانے کی خاطر ویٹوکا حق استعمال کرتا رہا۔ حماس نے سات اکتوبر کے روز نئی اسرائیلی بستیوں پہ تاریخ کی سب سے بڑی کارروائی کی جس میں 1300سے زائد صہیونی ہلاک ہوئے اور متعدد یرغمال بنا لیے گئے۔ ردِعمل میں اسرائیل کے غزہ پہ بدترین حملوں میں اب تک 3000سے زیادہ شہری شہید ہو چکے ہیں۔ جنیوا کنونشن اور قانونِ فطرت کی منشا تو یہی ہے کہ اگر مروجہ آئینی نظام اور عالمی قوانین کسی بھی قوم کو باعزت طور پہ جینے کا حق دینے میں ناکام ہو جائیں تو مظلوم قوم کو اپنی بقا کی خاطر ہتھیار اٹھانے کا حق حاصل ہوتا ہے لیکن افسوس کہ عالمی نظامِ انصاف کی 76برسوں سے فلسطینیوں کو پُرامن طریقوں سے اپنی سرزمین پہ جینے کا حق دلانے میں ناکامی کے باوجود مہذب دنیا ان کی فطری مزاحمت کو اخلاقی حمایت تک نہ دے سکی۔ ایسے میں مظلوم فلسطینیوں کے پاس عزت کی موت تلاش کرنے کے سوا کون سا چارہ باقی بچتا ہے؟
امر واقعہ یہ ہے کہ اسرائیل کو فلسطینیوں کی طرف سے ہمیشہ محدود حملوں کا سامنا رہا‘ تاہم اسرائیل حماس کے مقابلے میں اس قدر طاقتور ہے کہ وہ اسے باآسانی مینج کرکے غزہ میں متوازن سکیورٹی آرڈر قائم کر سکتا تھا لیکن خوفزدہ صہیونی بدترین تشدد کے سوا کوئی متبادل لائحہ عمل اپنانے کی ہمت کھو بیٹھے۔ لاریب‘ ریاستی تشدد سے انسانی زندگیوں کو تلف کرنا تو ممکن ہو گا لیکن پائیدار امن کا حصول ممکن نہیں ہوگا۔ اسرائیل کو عرب پڑوسیوں سے براہِ راست کوئی خطرے نہیں۔ لبنان خود افراتفری میں مبتلا ہے۔ مصر فوجی لحاظ سے مضبوط سہی لیکن اب وہ اپنی داخلی سیاسی کشمکش اور معاشی بحرانوں میں پھنسا ہوا ہے۔ اُردن کے پاس محدود فوجی استعداد کے علاوہ اپنے اندرونی اقتصادی اور سیاسی چیلنجز کافی گہرے ہیں۔ شام کی اسد حکومت کو دس برسوں پہ محیط خانہ جنگی اور عالمی قوتوں کی مداخلت نے بے دست و پا کر دیا ہے۔ غیرمستحکم عراق میں بھی اتنی سکت باقی نہیں بچی کہ وہ کوئی بامعنی مزاحمت کر سکے۔ خلیجی ریاستیں اسرائیل کیلئے فوجی خطرہ نہیں رہیں۔ ایران بھی اسرائیل کو دھمکیاں دینے کے علاوہ فلسطینی جنگجوؤں کو رقم اور محدود ہتھیاروں کی سپلائی کے سوا کچھ نہیں کر سکتا۔ عرب ریاستوں کیساتھ ایران کے سفارتی تعلقات کی بحالی امریکہ اور اسرائیل کیلئے خطرات سے خالی نہیں کیونکہ اسرائیل اور امریکہ مڈل ایسٹ میں عرب ریاستوں کو کنٹرول میں رکھنے کی خاطر تمام تر کشیدگی کے باوجود ہمیشہ ایران کو عربوں کیلئے خطرہ باور کرواتے رہے ہیں لیکن اب ایران اور سعودی عرب کے مابین تعلقات کی بحالی اور خلیجی ممالک کی چین کیساتھ اقتصادی وابستگیاں دراصل ایران کی سلامتی کیلئے خطرہ اور مڈل ایسٹ پہ نئی جنگیں مسلط کرنے کا سبب بن سکتی ہیں۔ چنانچہ اسی تناظر میں چین سمیت عالمی برادری حماس‘ اسرائیل جنگ کو بے قابو ہوتا دیکھتی ہے۔فلسطین تنازع کے ٹریک ریکارڈ پہ نظر ڈالیں تو فلسطینیوں کیلئے اہلِ مغرب کی سب سے مہلک چال کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے تحت دو ریاستی فارمولا تھا جس کا اصل مقصد فلسطینی مسلمانوں کو اسرائیل کے بجائے مسلمان حکمرانوں کے ذریعے کنٹرول کرنا تھا۔ حکمرانوں پہ حکمرانی کے اسی فارمولہ کو دوسری جنگ عظیم کے بعد مڈل ایسٹ‘ ایشیا اور افریقی ممالک میں کامیابی سے آزمایا گیا لیکن سیاسی طور پر بالغ النظر فلسطینیوں نے پی ایل او کے تحت قائم فلسطینی اتھارٹی کی حاکمیت تسلیم کرنے کے بجائے اسرائیل کے خلاف براہِ راست مزاحمت کا میدان گرم کرکے دو ریاستی سکیم کو غیرموثر بنا دیا چنانچہ فی الوقت اسرائیل کیلئے سب سے سنگین خطرہ اندرونی مزاحمت ہے جسے عراق‘ شام‘ لیبیا‘ مصر اور سوڈان کی شورشیں خام مواد فراہم کرتیں ہیں۔ قومی سلامتی کے ماہر نوم چومسکی تسلیم کرتے ہیں کہ امریکہ نے عراق میں صدام حسین کی مضبوط حکومت ختم کرکے خطے کے مسلمانوں کیلئے اسرائیل کے خلاف براہِ راست مزاحمت کا راستہ ہموار بنا دیا۔ دوسرا فلسطینیوں کو حقیقی ریاست‘ قومی سلامتی‘ مساوی اقتصادیات اور سیاسی مواقع فراہم کرنے میں اسرائیل کی ناکامی بھی مزاحمتی گروہوں کی حمایت بڑھانے کا وسیلہ بنی۔ انہی داخلی خطرات سے نمٹنے کی خاطر اسرائیل نے فلسطینیوں کو اپنے زیر کنٹرول چار علاقوں میں منقسم کیا جن میں سے ہر ایک میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان کشیدگی کی وجوہات مختلف ہیں۔ پہلا علاقہ‘ یروشلم غیرریاستی تنازع کا موجب ہے جس میں مسلمانوں‘ یہودیوں اور عیسائیوں کے مقدس مقامات ہیں۔ اگرچہ مشرقی یروشلم میں فلسطینیوں پر رہائش و تجارت کی پابندیاں ہیں لیکن یہاں مستقل وجۂ تنازع مسجدِ اقصی ہے۔ دوسرا علاقہ اسرائیل خود ہے جس میں فلسطینیوں کے حقوق‘ شہریت اور نقل و حرکت کی سخت نگرانی اور داخلی دفاع سے متعلق کچھ متنازع ضوابط کشمکش کا ذریعہ ہیں۔ تیسرا مغربی کنارہ ہے‘ جس میں فلسطینی اتھارٹی کا علامتی وجود جہاں فلسطینی سکیورٹی فورسز اور نقل و حمل پر اسرائیلی سکیورٹی فورسز کا کنٹرول‘ اسرائیل تک رسائی میں رکاوٹیں اور اسرائیلی ''آباد کاروں‘‘ کی مسلسل بڑھتی ہوئی تعداد داخلی تشدد کو ہوا دیتی ہے۔ چوتھا علاقہ غزہ ہے جہاں حماس کا کنٹرول وقفے وقفے سے اسرائیل کے خلاف عالمی سطح کی مزاحمت کو جنم دیتا ہے۔ غزہ میں تقریباً 23لاکھ فلسطینی آباد ہیں۔ یہاں کوئی ایک بھی یہودی نہیں‘ کوئی بڑی صنعت یا برآمدات نہیں۔ پینے کے پانی اور بجلی کی ترسیل کا انحصار اسرائیل پر ہے۔ اسے ایک دیوار کے ذریعے باقی اسرائیل سے الگ کیا گیا ہے۔ یہاں کوئی قابلِ ذکر ایئر پورٹ یا بحیرۂ روم تک رسائی کا نظام موجود نہیں۔ لوگوں کے روزگار کا انحصار اسرائیل میں ملازمتوں پر ہے جہاں اسرائیل کے سکیورٹی ضوابط نے روزگار کے مواقع کو تیزی سے محدود کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ حماس نے حالیہ کارروائی ان نئی اسرائیلی بستیوں پہ کی جہاں اقوامِ متحدہ کے منع کرنے کے باوجود اسرائیل نے آبادی کاری کی۔ اسلئے حماس کیخلاف اسرائیل کو کارروائی کا حق حاصل نہیں‘ تاہم حماس کی انہی حملوں کے خوف سے یورپ سے آئے آباد کاروں کی بڑی تعداد نقل مکانی پہ مائل ہے اور یہی اس پورے قضیہ کا مرکزِ ثقل ہے۔ آبادکاروں کی پسپائی روکنے کیلئے پہلے امریکہ سمیت یورپی ممالک کی تل ابیب سے ایئر سروس بند کی گئی پھر غزہ پہ فضائی حملوں کے ذریعے ماحول پہ خوف سایہ فگن کیا گیا۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ فلسطینیوں کے برعکس اسرائیل دراصل یورپی ممالک سے لا کر بسائے گئے لوگوں کا آبائی وطن نہیں‘ اسلئے اسرائیلی سرزمین سے ان کی اس قدر جذباتی وابستگی پیدا نہیں ہو سکی کہ وہ دھرتی کیلئے مر مٹنے کو تیار ہو جائیں چنانچہ حماس سمیت عربوں کے مسلح گروہوں کا خوف ان کی مستقل آبادکاری کی راہ میں حائل رہے گا۔ آبادی کاری رک گئی تو اسرائیل کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ اگر اسرائیل‘ حماس جنگ نے طول پکڑا تو عدم تحفظ کا احساس آبادکاروں کا انخلا بڑھائے گا جو بالآخر اسرائیل کے وجود کو معدوم کر سکتا ہے‘ اسلئے جارحانہ حملوں اور امریکی فوجی پیش قدمی کا خوف پیدا کرکے جلد از جلد اس قضیہ کا حل تلاش کرنے کی مشق جاری ہے کیونکہ مڈل ایسٹ میں خود امریکہ کی جانب سے مضبوط حکومتوں کو توڑ کر پیدا کی گئی شورشوں کو جنگی مشین کے ذریعے کنٹرول کرنا ممکن نہیں بلکہ ہر بیرونی حملہ تشددکے عوامل کو مزید بھڑکانے کا سبب بنتا رہے گا۔