"AAC" (space) message & send to 7575

مشرقِ وسطیٰ کا مستقبل کیا ہو گا؟

حماس کی طرف سے جنوبی اسرائیل کے علاقوں میں کارروائی کے بعد مڈل ایسٹ پہ طویل جنگ کے سائے لہرانے لگے ہیں۔ اسرائیلی حکام ابھی تک لگ بھگ 2000اسرائیلیوں کی ہلاکت اور تقریباً 203کو حماس کی طرف سے یرغمال بنانے کی تصدیق کر چکے ہیں۔ حماس کی کارروائی کے ردِعمل میں اسرائیلی فضائیہ نے غزہ کی پٹی میں ہسپتالوں سمیت شہری آبادیوں پہ فاسفورس بم گرا کے 3900 سے زائد فلسطینیوں کو شہید کر دیا ہے جس میں سینکڑوں بچے بھی شامل ہیں۔ بمباری سے سینکڑوں عمارتیں منہدم اور ہزاروں شہری زخمی ہوئے ہیں۔ اسرائیل کی طرف سے تین لاکھ 60ہزار ریزرو فوجیوں کو بلانے کے بعد جاری جنگ کا خاتمہ بعید نظر آتا ہے۔ اس ضمن میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ بشمول گولہ بارود‘ انٹرسیپٹرز اور دیگر دفاعی ٹیکنالوجی امریکہ اسرائیل کو چھ ارب ڈالر کی فوجی امداد بھیج رہا ہے۔ امریکہ نے اسرائیل کی مدد کیلئے دو طیارہ بردار بحری بیڑے بھی بحیرۂ روم میں پہنچا دیے ہیں‘ جس کے بعد مشرقِ وسطیٰ کے ماہرین ایک ایسے علاقائی تصادم کو دیکھ رہے ہیں جو طویل جنگ کا محرک بننے کے علاوہ ریاستی سطح پر موجودہ تعلقات خراب کرے گا اور عرب‘ اسرائیل مفاہمت کی پیش رفت کو روک دے گا۔ اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ یہ تنازع مڈل ایسٹ سے آگے بڑھ کر عالمی جنگ میں بدل جائے۔ اسرائیلی حکومت ماضی کی طرح حماس سے انتقام کو جواز بنا کر غزہ کی فلسطینی آبادی کو ہمیشہ کیلئے مصر کی طرف دھکیلنا چاہتی ہے‘ تاہم نیتن یاہو کے ''طاقتور انتقام‘‘ کا نعرہ غزہ میں اسرائیلی یرغمالیوں کے باعث پسپا ہوا ہے بلکہ غزہ میں شہریوں کے بے پناہ نقصان کے بعد تو حماس کی جانب سے یرغمالیوں کی رہائی کا امکان بالکل ختم ہو گیا ہے۔ حماس شاید ایسی طویل جنگ لڑنا چاہتی ہے جو بالآخر اسرائیل سے یہودیوں کے انخلا کا سبب بنے کیونکہ حالیہ کارروائی کے بعد انہیں اسرائیل کی طرف سے ایسے ہی ردِعمل کی توقع تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ نہ صرف اسرائیلی ردِعمل کیلئے تیار تھے بلکہ ان کے پاس طویل مزاحمتی جنگ کی منصوبہ بندی بھی موجود ہو گی۔
اقوامِ عالم نے اس جنگ میں عام فلسطینی شہریوں کی جانوں کو پہنچنے والے ہولناک نقصان پہ غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے امریکہ کو ایک قدم پیچھے ہٹنے کا مشورہ دیا ہے۔ ماہرین کہہ رہے ہیں کہ عالمی طاقتیں تنازع کو بڑھانے اور جدید تاریخ کے طویل ترین قبضے کو قبول کرنے کی ذمہ داری لیں۔ 2014ء میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی طرف سے سیاسی عمل شروع کرنے کی کوشش ترک کرنے کے بعد سے کوئی امن اقدام دکھائی نہیں دیتا اور اب ان حالات میں واشنگٹن کیلئے امن عمل کو آگے بڑھانا ممکن نہیں رہا۔ اسرائیل اپنے وجود کی اخلاقی بنیادیں کھو بیٹھا ہے کیونکہ دنیا اس حقیقت کو مزید نظر انداز نہیں کر سکتی کہ جب تک فلسطین پر اسرائیل کا قبضہ رہے گا مظلوم فلسطینیوں کا خون بہتا رہے گا۔ غزہ کے فلسطینی کم و بیش 20برسوں سے اسرائیلی محاصرے میں بغیر کسی سیاسی لائف لائن کے ایک قسم کی جیل میں قید ہیں۔ موجودہ خوفناک تصادم بھی سیاسی اُفق کی کمی کا براہِ راست نتیجہ ہے جو اس غلط تاثر پر قائم تھا کہ مقبوضہ فلسطینیوں سے معاہدہ کیے بغیر خطے میں امن قائم ہو سکتا ہے؛ چنانچہ سب نے ابراہیمی معاہدے پر توجہ مرکوز رکھی مگر یہ رومانس اب ٹوٹ گیا ہے۔ بلاشبہ اکتوبر 1973ء کی جنگ مصر اور اسرائیل کے مابین صلح کا باعث بنی‘ انتفادہ کے بعد پہلی خلیجی جنگ‘ میڈرڈ امن کانفرنس کا جواز تھی لیکن اس بار صورتحال کافی مختلف ہے۔ بین الاقوامی برادری کو ایک بنیاد پرست اسرائیلی حکومت کا سامنا ہے جو کسی سمجھوتے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ غیر مؤثر فلسطینی قیادت جسے موجودہ واقعات نے مزید کمزور کر دیا ہے اور متنازع امریکی انتظامیہ‘ جسے اگلے سال صدارتی انتخابات کا سامنا ہے یعنی جوبائیڈن کی قسمت کے ستارے سیاسی پہل کاری سے موافقت نہیں رکھتے۔ امن عمل کے لیے فریقین کی رضا مندی کے علاوہ امریکی انتظامیہ کی سرپرستی بھی درکار تھی جو ایک قسم کی عدم دلچسپی کا شکار ہے۔ پھر بھی دنیا جتنی دیر تک اس مسئلے سے لاتعلق رہے گی‘ اتنا ہی جانی نقصان بڑھتا جائے گا۔ اگرچہ سب جانتے ہیں کہ اس تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں لیکن سب کا مسئلے کی جڑ کو نظر انداز کرنے پر اصرار تباہی کو برقرار رکھنے کے مترادف ہے۔ اسرائیل کے خلاف مزید کسی کارروائی کیلئے حماس کی حکمت عملی بارے تخمینے لگانا قبل از وقت ہو گا لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ غزہ کی ٹوٹی ہوئی دیواروں اور بجلی والی باڑ کے اندر رہنے والے 22 لاکھ فلسطینیوں کا مستقبل کیا ہو گا؟
غزہ میں فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی اور 2007ء سے وہاں پر حماس کی حکمرانی کے بعد سے غیرملکی‘ قابض فوج کی طرف سے فلسطینیوں کی روزمرہ زندگی کے ہر پہلو‘ علاج سے لے کر بیرونِ ملک تعلیم تک‘ انہیں بیرونی دنیا سے کاٹ دیا گیا ہے۔ یورپی ممالک نے غزہ کے عوام کو مصر کی طرف نکالنے کی تجویز دی تاکہ اسرائیل غزہ پر مکمل قبضہ کر سکے‘ اسی نوع کی فریب آمیز ہمدردی پہلے بھی فلسطینیوں کیلئے اپنی سرزمین سے مستقل محرومی کا سبب بنی۔ مصر کبھی بھی اس طرح کا سمجھوتہ کرنے کا خطرہ مول نہیں لے گا‘ تو کیا اسرائیل اس علاقے پر دوبارہ قبضہ کر لے گا یا وہ خود کو حماس کے خلاف کارروائی تک محدود رکھے گا تاکہ فلسطینی اتھارٹی یا کسی اور نئی قیادت کو غزہ کے فلسطینیوں پہ تصرف کا موقع مل سکے؟ پہلے ہی غیرمقبول فلسطینی اتھارٹی کو مغربی کنارے میں اسرائیلی آباد کاروں کی سرکشی اور مالیاتی دیوالیہ پن کا سامنا ہے جبکہ وہاں حماس کا بھی بہت عمل دخل ہے جو مغربی کنارے میں فلسطینیوں اور اسرائیلی فوج کے درمیان کھڑی ہے۔ حماس کا مؤقف ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کوئی مزاحمتی تحریک نہیں بلکہ غیرملکی قبضہ گیروں کو سہولت دینے والی گورننگ باڈی ہے۔ غزہ میں اسرائیل کی زمینی کارروائی کے نتیجہ میں غزہ کی پٹی سے لوگوں کو مصر میں دھکیلنے کے خدشے کے پیش نظر قاہرہ اپنی قومی سلامتی کے تحفظ کیلئے آگے بڑھ رہا ہے۔ مصری صدر عبدالفتاح السیسی سمیت اعلیٰ سطحی عہدیداروں نے واضح کیا کہ مصر غزہ سے ملحقہ سرحدوں کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد پہنچانے اور زخمیوں کو فوری طبی امداد کیلئے سینائی ہسپتالوں تک رسائی دینے کو تیار ہے‘ لیکن وہ اپنی سرزمین میں فلسطینیوں کی بڑے پیمانے پر آمد کو قبول نہیں کرے گا۔ اسرائیلی فوج کے ممکنہ زمینی آپریشن سے پہلے غزہ کے باشندوں کیلئے محفوظ راہداری بنانے کیلئے امریکی اور یورپی دباؤ کو برداشت کرنے کیلئے مصری حکومت نے تین سیاسی بیانیے پیش کیے ہیں جو عوامی جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ پہلا‘ مصر کی سرحدیں صرف قومی خود مختاری کے تابع ہیں‘ کوئی مصر پر مرضی مسلط نہیں کر سکتا کہ وہ صحرائے سینایا کسی اور جگہ پر فلسطینی پناہ گزینوں کو قبول کرے۔ دوسرا‘ صحرائے سینا مصری سرزمین کا اٹوٹ انگ ہے جس پر اسرائیل نے 1967ء کی جنگ کے بعد کئی سالوں تک قبضہ رکھا۔ اس کا موجودہ استحکام‘ جو مصری خون کی قیمت پر آیا‘ کسی بھی بیرونی مداخلت سے خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ تیسرا‘ غزہ کے باشندوں کو اپنے وطن کو نہیں چھوڑنا چاہیے جیسے مغربی کنارے کے باشندے اور یروشلم والے اپنی سرزمین نہیں چھوڑتے کیونکہ اس طرح کی نقل مکانی فلسطینیوں کی خود ارادیت اور ایک آزاد ریاست کی جدوجہد کو مکمل طور پر تحلیل کرنے کا باعث بنے گی۔ اس مؤقف کا مصری سول سوسائٹی اور اپوزیشن جماعتوں نے یکساں خیر مقدم کیا؛ چنانچہ امریکہ اور یورپی حکومتوں سے کہا گیا کہ وہ مصر پر ایسی پالیسیوں کو قبول کرنے کیلئے دباؤ نہ ڈالیں جو اس کی قومی خودمختاری‘ سلامتی اور سیاسی استحکام کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ اسی لیے مصر کی وزارتِ خارجہ اور انٹیلی جنس سروسز‘ جنکے فلسطینی اور اسرائیلی فریقوں کے ساتھ اچھے روابط ہیں‘ دونوں نے اسرائیلی فوج کی ممکنہ زمینی کارروائی کو روکنے‘ یرغمال بنائے گئے اسرائیلی شہریوں اور دیگر غیرملکیوں کو رہا کرانے کیلئے جنگ بندی پر بات چیت میں سہولت کاری کی پیشکش کر رکھی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں