اسرائیل‘ حماس جنگ کے دوران امریکہ اور برطانیہ جیسی عالمی طاقتوں کی طرف سے مظلوم فلسطینی شہریوں کے تحفظ کے بجائے اسرائیلی ریاست کی غیرمعمولی عسکری پشت پناہی مڈل ایسٹ میں بڑی جنگ برپاکرنے کے اسباب مہیا کرنے کی شعوری کوشش اس بات کی غماز ہے کہ اہلِ مغرب یوکرین جنگ کے شعلوں کو بجھانے کی خاطر روس اور چین کو مشرقِ وسطیٰ کے میدانِ جنگ میں الجھانا چاہتے ہیں؛ چنانچہ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کی جنگ مشرقِ وسطیٰ سے باہر اُمڈ سکتی ہے، فلسطینی انکلیو میں خواتین، بچوں اور بوڑھوں کو دوسروں کے جرائم کی سزا دینا غلط ہے۔ گزشتہ بدھ کو کریملن میں مختلف عقائد کے مذہبی پیشواؤں سے خطاب میں صدر پوتن نے مغرب پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کچھ بے نام قوتیں کشیدگی کو مزید ہوا دینے اور زیادہ سے زیادہ ممالک کو ممکنہ طور پر تنازع میں دھکیلنے کی کوشش کر رہی ہیں، ان کا مقصد مشرقِ وسطیٰ کی سرحدوں سے باہر بھی افراتفری اور باہمی نفرت کی لہر پیدا کرنا ہے، اِسی مقصد کے حصول کی خاطر دیگر چیزوں کے ساتھ وہ کروڑوں لوگوں کے قومی اور مذہبی جذبات سے کھیلنے کی جسارت کر رہے ہیں۔ صدر پوتن نے کہا کہ ماسکو فلسطین‘ اسرائیل مسئلے کے دو ریاستی حل کی وکالت کرتا رہے گا، جو ان کے بقول‘ طویل المدتی تصفیے تک پہنچنے کا واحد راستہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اجتماعی ذمہ داری کے بدنام اصول کے مطابق نہیں چلائی جا سکتی جب بوڑھوں، خواتین اور بچوں سمیت لاکھوں لوگ پناہ، خوراک، پانی، بجلی اور طبی امداد سے محروم کر دیے جائیں۔
بدھ کو رات گئے جب اسرائیلی فوج نے جنگ کے اگلے مراحل میں غزہ پر زمینی حملے شروع کرنے کا عندیہ دیا تو یرغمالیوں کی بقا اسرائیل کے زمینی حملوں کی راہ میں حائل ہو گئی۔ بعض مغربی ماہرین گزشتہ ہفتے جنوبی اسرائیل پر حماس کے حملے کو عسکریت پسندوں کی غیرمعمولی جنگی چال اور اسرائیلی انٹیلی جنس اور دفاعی نظام کی کمزوری سے تعبیر کرتے ہیں۔ بلاشبہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین کشمکش کی طویل تاریخ ہے لیکن اسرائیل کی قتل و غارت گری کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ جب اسرائیل کے زیر کنٹرول عیسائی ملیشیا نے 1982ء میں بیروت کے مضافات میں صابرہ اور شتیلا کے کیمپوں میں نہتے فلسطینی پناہ گزینوں کا قتل عام کیا‘ اس وقت پوری انسانیت کانپ اٹھی تھی۔ سو سالہ پرانے تنازع میں یہ سب سے وحشیانہ عمل تھا۔ البتہ حماس کا تازہ حملہ ایک ایسا پھندہ ہے جس میں اسرائیل بری طرح پھنس گیا ہے۔ حماس کے پاس شعوری حکمت عملی ہے، دیگر کارروائیوں کی طرح جنوبی اسرائیل پر حماس کے حملے کو اسرائیل کے جذباتی یا اس سے بھی زیادہ اشتعال انگیز ردعمل کو بھڑکانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ حماس اسرائیلیوں کو غزہ میں طویل تصادم میں الجھانے کی منصوبہ بندی کر چکی ہے، جس کا مطلوبہ اثر وہی زمینی حملہ ہے جو اسرائیل کی طرف سے حماس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی تیاریوں میں نظر آ رہا ہے۔ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ اس تنازع سے متاثر ہونے والی دیگر اقوام کے لیے اپنی خارجہ پالیسی تیار کرنا دشوار ہو رہا ہے، جو کچھ ہم ان ابتدائی دنوں میں جان سکتے ہیں وہ ابتدائی انتباہی علامات ہیں جو بڑے کھلاڑیوں کی طرف سے مخصوص کارروائیوں کی نشاندہی کر سکتی ہیں یا تنازع کے فریقین اور بیرونی سٹیک ہولڈرز کی سوچ کو نمایاں کرتی ہیں۔ یہاں ایسے مسائل درپیش ہیں جو غور طلب ہیں کیونکہ یہاں ایک عالمی تنازع پل رہا ہے جس سے نمٹنے کی خاطر تمام ممالک کو خارجہ پالیسی کے فیصلے کرنا ہوں گے۔ چونکہ اس بساط کے تمام بڑے کھلاڑی اپنی اگلی چالوں کو تشکیل دینے کی تگ و دو میں سرگرداں ہیں اس لیے عام لوگ امن کے نئے عمل کے لیے اُن سے بین الاقوامی سطح کے مطالبات کی توقع کرتے ہیں۔
بائیڈن انتظامیہ اس مرحلے میں کوئی مثبت کردار ادا کرنے کے قابل نہیں اور نئے انتخابات کے لیے جب ان کی جماعت میدان میں اترے گی تو شاید وہ ٹیم کے کپتان کے طور پر نہیں ہوں گے۔ امریکی حکام پہلے ہی اپنے اسرائیلی اتحادیوں کو غزہ کے مستقبل بارے سوچنا شروع کرنے کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔ امریکی عراق جنگ کے دوران سیکھے گئے تلخ اسباق سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں لیکن غزہ کے مستقبل کی نقشہ سازی کے لیے واشنگٹن کے پاس کوئی قابلِ عمل فارمولا موجود نہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک بین الاقوامی امور کی حقیقت کے طور پر اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن منصوبے کی متعدد عمومی شکلیں موجود تھیں جن پر اتفاق اور صرف عمل درآمد کی ضرورت تھی؛ تاہم اب نئے حقائق نے ان صورتوں کو معدوم کر دیا ہے اور اگر یہ 6 اکتوبر تک موجود تھیں بھی‘ تو اب ایسا کچھ نہیں بچا۔ غزہ کے لیے ایک قابلِ فہم منصوبہ جو عسکریت پسندوں کی پناہ گاہ بھی نہ ہو اور جہاں ایک مستحکم اور اچھی حکومت ہو‘ اس وقت افق پر نظر نہیں آتا۔ گزشتہ جنگوں سے حاصل ہونے والا ایک سبق یہ بھی ہے کہ تنازعات کے بعد منصوبہ بندی کا فقدان مزید تنازعات کا محرک بنتا ہے۔ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے دیکھیں تو موجودہ بحران کے سامنے آتے ہی اسرائیل اور حماس کی جنگ مشرقِ وسطیٰ میں پھیلنے کا خدشہ اُس وقت بڑھ گیا جب امریکہ نے اعلان کیا کہ وہ خطے میں مزید فوجی اثاثے بھیج رہا ہے؛ چنانچہ مصر میں امن سربراہی اجلاس ختم ہونے کے ایک دن بعد ہی اسرائیل غزہ کی پٹی پر زمینی حملوں کے لیے تیار دکھائی دینے لگا۔
امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے کہا ہے کہ واشنگٹن مشرقِ وسطیٰ میں ڈیٹرنس میں اضافہ کرکے اسرائیل کا دفاع یقینی بنائے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ٹرمینل ہائی ایلٹی ٹیوڈ ایریا ڈیفنس (THAAD) سسٹم اور اضافی پیٹریاٹ میزائل سسٹم بٹالین مشرقِ وسطیٰ میں بھیج کر مزید فوجیوں کو سٹینڈ بائی پر رکھا گیا ہے۔ امریکہ پہلے ہی دو طیارہ بردار بحری بیڑے، معاون جہاز اور تقریباً 2000 میرینز خطے میں بھیج چکا ہے۔ پنٹاگون کی طرف سے مڈل ایسٹ میں فضائی دفاعی نظام کو فعال کرنے کا اقدام اس وقت سامنے آیا جب اسرائیل کی لبنان کے ساتھ شمالی سرحد پر کشیدگی بڑھ رہی تھی، یعنی جب اسرائیلی فوج نے حزب اللہ کے ساتھ نیا محاذ کھولا اور دوسری طرف‘ جب غزہ کی پٹی میں تشدد کو کم کرنے کے لیے ہنگامی طور پر منعقد ہونے والی ''مصر امن سمٹ‘‘بغیر کسی مشترکہ اعلامیے کے ختم ہو گئی۔ اسرائیل اور حماس کے مابین لڑائی کو روکنے کے لیے جاپان کے وزیر خارجہ سمیت اعلیٰ حکام کی جانب سے سفارتی کوششوں کے باوجود امن سمٹ میں کسی مشترکہ اعلامیہ پر سمجھوتے میں ناکامی موجودہ تنازع پر بڑھتی ہوئی عالمی تقسیم کو اجاگر کر گئی۔ چین، روس اور اس کے اتحادی مشرقِ وسطیٰ کو جنگ کی لپیٹ میں جانے سے روکنے کے لیے کوشاں ہیں جبکہ اسرائیل کے یورپی اتحادی اور امریکہ اس جنگ کو ایندھن فراہم کر رہے ہیں۔ اس موقع پر عرب دنیا مغربی ممالک کی واضح خاموشی پہ حیران ہے۔
نیویارک ٹائمز نے نامعلوم یورپی سفارتکاروں کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ یورپی رہنما یہ جانتے ہوئے کہ وہ اسرائیل کو حماس کے خلاف حقِ دفاع دینے سے انکار کے سبب سمٹ کے اعلامیے پر دستخط نہیں کر سکیں گے‘ اجلاس میں شریک ہوئے۔ اگرچہ اس اجلاس میں مشرقِ وسطیٰ، یورپ اور ایشیا کے علاوہ کینیڈا اور برازیل کے رہنماؤں، شاہی خاندانوں اور سینئر حکام نے شرکت کی مگر اسرائیل اور حماس کے نمائندے اس اجلاس میں موجود نہیں تھے، اس لیے اس سربراہی اجلاس کے نتیجہ خیز ہونے کا امکان بھی نہیں تھا۔ بالآخر مصری صدارت نے عرب حاضرین کی منظوری سے بیان تیار کیا، جس میں کہا گیا کہ جنگ نے ''عالمی برادری کی اقدار میں خرابی‘‘کو اجاگر کیا۔ اس بیان میں فلسطینیوں کی حالتِ زار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ عالمی رہنماؤں نے طویل عرصے سے تنازعات کو سنبھالنے اور اسے مستقل طور پر ختم نہ کرنے کی کوشش کی اور دانستہ ایسے عارضی حل تجویز کیے جو مصیبت زدہ فلسطینیوں کی ادنیٰ ترین خواہشات پر بھی پورا نہیں اترتے۔ انہوں نے بھی اس دیرینہ تنازع کے قابو سے باہر ہونے کے خدشات کو روکنے کی خاطر دو ریاستی تصفیے پر زور دیا۔