ملک فروری 2024ء میں ہونے والے ممکنہ انتخابات کے باعث سیاسی سرگرمیوں کی طرف بڑھ رہا ہے۔ الیکشن کمیشن نے جب جنوری کے آخری ہفتے میں عام انتخابات منعقد کرانے کا عندیہ دیا تھا تو پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے کیمپوں میں کامل خاموشی چھا گئی تھی حالانکہ جس شدت کے ساتھ دونوں جماعتیں الیکشن کا مطالبہ کر رہی تھیں‘ انہیں تو انتخابات کے اعلان کا پُرجوش خیرمقدم کرنا چاہیے تھا لیکن بظاہر جلد انتخابات کے بیانیے سے رائے عامہ پہ اثر ڈالنے کی جگالی کرنے والی یہ دونوں جماعتیں دراصل انتخابی اکھاڑے میں اترنے سے خائف ہیں۔ پی ٹی آئی تو اپنے چیئرمین کے بغیر الیکشن لڑنے کے قابل نہیں مگر پیپلز پارٹی بھی پچھلے پندرہ برسوں میں مقتدرہ کی مدد سے اقتدار کے مزے لوٹنے کے باعث عوام سے ربط و تعلق توڑ بیٹھی۔ اس لیے بغیر کسی دستِ مشکل کشا کے وہ انتخابات کا بھاری پتھر اٹھانے سے ہچکچاتی ہے۔ زرداری صاحب پہلے نواز لیگ سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے جنوبی پنجاب میں کچھ گنجائش لینے کی سعی کرتے رہے لیکن شریفوں نے نہایت نرمی کے ساتھ ہاتھ چھڑا لیا‘ جس کے بعد آصف علی زرداری مصائب میں گھری پی ٹی آئی کی طرف متوجہ ہوئے‘ تاہم تحریک انصاف کیلئے بھی پیپلز پارٹی سے انتخابی الائنس کا فیصلہ مشکل بلکہ خسارے کا ایسا سودا ہو گا جو خان کے روایتی بیانیے کو ملیا میٹ کر سکتا ہے حتیٰ کہ زرداری صاحب سندھ میں اپنی ڈوبتی کشتی کو بچانے کیلئے مولانا فضل الرحمن کے ساتھ اتحاد کرنے پر مجبور نظر آئے‘ تاہم بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ فی الحال پی پی پی کیلئے تمام راہیں مسدود ہیں۔
امر واقعہ یہ ہے کہ وطن واپسی کے فاتحانہ مراحل طے کرنے والے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی جماعت کے سوا کوئی ملک گیر پارٹی آسانی کیساتھ انتخابی اکھاڑے میں اترنے کو تیار نظر نہیں آتی۔ اگرچہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے سولہ ماہ کی حکومت کے دوران سخت اقتصادی فیصلوں نے مسلم لیگ (ن)کی ساکھ کو نقصان پہنچایا لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اس کا سپورٹ بیس ختم ہو گیا‘ البتہ اب وہ پاور ہاؤس باقی نہیں رہا جو پانچ سال پہلے تک تھا تاہم آج بھی اگر اسے اعتدال سے حکومت کرنے کی مہلت ملی تو وہ اپنی طاقت کی بنیادیں دوبارہ استوار کر سکتی ہے۔ اس کے سیاسی مخالفین تتر بتر ہیں‘ پیپلز پارٹی مایوس اور پی ٹی آئی عملاً تین حصوں میں بٹ چکی ہے۔ پنجاب میں جہانگیر ترین کی استحکامِ پاکستان پارٹی اور خیبر پختونخوا میں سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی پی ٹی آئی پارلیمنٹرین نے تحریک انصاف کو کافی دھچکا پہنچایا لیکن اس نفسیاتی شکست و ریخت کی بڑی وجہ عمران خان خود ہیں جنہوں نے ہمیشہ سے پارٹی کو صرف ایک کلٹ بنائے رکھا‘ اس لیے پچھلے 20‘ 25برسوں میں دوسری اور تیسری صف کی ایسی قیادت ابھر نہ سکی جو موجودہ بحران میں پارٹی کے انسانی سرمایہ کو سنبھالنے کے قابل ہوتی۔ چنانچہ خان صاحب کے منظر سے ہٹتے ہی کارکن بکھرنے لگے اور خان کے حق میں ان کی پُرجوش مساعی کو مربوط کرکے کارآمد بنانے والا کوئی لیڈر موجود نہیں۔ اس کے برعکس جب میاں نواز شریف منظر سے ہٹے تو مسلم لیگ (ن) کی دوسری اور تیسری صف کی قیادت نے لیڈرشپ کے خلا کو پُر کرنے کے علاوہ پارٹی کی تنظیمی قوت کو مربوط رکھا۔ پی ٹی آئی کے وہ نمایاں رہنما جو عمران خان کی عدم موجودگی میں جماعت کو منظم رکھ سکتے تھے‘ کارکنوں کا اعتماد نہ ملنے کی وجہ سے دھڑے بندیوں میں پناہ تلاش کرنے لگے۔ علی ہذالقیاس پی ٹی آئی کے حامیوں اور سوشل میڈیا ٹرولزکے سوا معاشرے کے تمام باشعور طبقات پچھلی پی ٹی آئی حکومت کو ملک میں معاشی تباہی پھیلانے کے ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ اس وقت اہلِ دانش کی اکثریت کی طرح مقتدرہ بھی مملکت کو مشکلات سے نکالنے کی خاطر میاں نواز شریف کی مہارت‘ بین الاقوامی تعلقات اور ان کی سیاسی ساکھ پہ تکیہ کیے بیٹھی ہے۔ پاکستانی سیاست کی پیچیدہ حرکیات کو سمجھنے والے جانتے ہیں کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کے پنجۂ استبداد سے نکلنے کے بعد مقتدرہ آزاد عدلیہ اور قومی سیاستدانوں کو اپنا اصل کردار واپس دینے کی خاطر وسیع تر مفاہمت کا امکان پیدا کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اُس میاں نواز شریف سے سمجھوتہ کر لیا جائے گا جنہیں چند سال قبل اس نیت سے ملک بدرکیا گیا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ اب وہ ملکی سیاست میں واپس لوٹ کر نہیں آئیں گے‘ تاہم اب بھی میاں نواز شریف کیلئے چیلنجز موجود ہیں‘ انہیں ٹوٹ پھوٹ کی شکار قوم کو متحد کرکے مملکت کی بنیادیں مضبوط بنانے کے علاوہ تباہ حال معیشت کو دوبارہ پٹڑی پہ لانا ہو گا۔ خاص طور پہ دس سال قبل چین کے ساتھ شروع کیے گئے اس سی پیک منصوبے کی بحالی زیادہ اہم ہو گی جس کی راہ میں بڑی طاقتوں کے اقتصادی مفادات حائل ہیں۔
لاریب‘ پچھلے 35برسوں سے میاں نواز شریف اور ان کی پارٹی قومی سیاست کی مرکزی قوتِ محرکہ رہی ہے جس نے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد پیپلز پارٹی اور مقتدرہ کے درمیاں پیدا ہونے والی کشمکش کو متوازن بنانے کے علاوہ ہمیشہ اقتصادی عوامل کو اپنی اولین ترجیح بنایا۔ 1990ء میں پہلی بار جب انہیں وزراتِ عظمیٰ تک پہنچنے کا موقع ملا تو انہوں نے موٹر وے جیسے جدید مواصلاتی نیٹ ورک کی تعمیر کے ذریعے قومی معیشت کو مضبوط ڈھانچہ فراہم کرکے پیداواری عمل کو ابھارنے کی کوشش کی لیکن صدر غلام اسحاق نے 58/2B کا اختیار استعمال کرکے صرف ڈھائی برس میں ان کی حکومت کو چلتا کر دیا۔ 1997ء میں جب وہ دوسری بار وزیراعظم بنے تو انہوں نے موٹروے پراجیکٹ کا پہلا مرحلہ مکمل کرنے کے بعد مئی 1998ء میں ملک کو دنیا کی ساتویں اور مسلمانوں کی پہلی ایٹمی طاقت بنانے کا اعزاز بخشا۔ بدقسمی سے اکتوبر 1999ء میں عالمی طاقتوں کے ایما پر پرویز مشرف کے ذریعے انہیں اقتدار سے ہٹا دیا گیا۔ طویل جلاوطنی کے بعد ایک بار پھر وطن واپس آئے تو 2013ء میں تیسری بار عنانِ اقتدار سنبھالتے ہی انہوں نے سی پیک جیسے عظیم اقتصادی منصوبے کی شروعات کرکے عالمی اسٹیبلشمنٹ کو بھڑکا دیا۔ ان کی تیسری مدت کے دوران ہندوستان کیساتھ تعلقات اور دہشت گردی سے نمٹنے کے طریقہ کار بارے اختلافات کو غلط رنگ دینے اور عمران خان کو متبادل سیاسی قوت کے طور پہ متعارف کرانے کی خاطر ٹی ٹی پی کے خلاف ڈرون حملوں کی عوامی سطح پہ مخالفت اور سیاستدانوں کے خلاف کرپشن کے بیانیے کو پروان چڑھانے جیسے نعروں کی گونج میں دارالحکومت میں پُرتشدد دھرنوں اور مرکزی دھارے کے میڈیا میں ان کے خلاف کردار کشی کی ایسی مہمات چلائی گئیں جس نے سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کے علاوہ منتخب حکومت کو لمحہ بھر کیلئے بھی چین سے کام کرنے کا موقع نہ دیا اور پھر التباسات کی اسی دھند میں جلد ہی انہیں اقتدار سے محروم کرکے دوسری بار جلاوطنی پہ مجبور کر دیا گیا۔ 2018ء کے انتخابات کے دوران میاں نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز صاحبہ کو جیل میں قید رکھنے کے علاوہ حسبِ روایت لیگی لیڈر شپ کو توڑنے کی خاطر فعال کارکنوں اور قیادت پہ سنگین مقدمات بنا کر انہیں پا بہ جولاں کر دیا گیا۔ اب بھی صورتحال وہی ہے جیسی 2018ء کے انتخابات سے پہلے عمران خان کو اقتدار تک پہنچانے کیلئے پیدا کی گئی تھی۔ تکنیکی طور پر عمران خان اقتدار میں واپس نہیں آسکتے۔ ان کے خلاف چلنے والے مقدمات میں الیکشن سے پہلے ان کی رہائی کا امکان کم نظر آتا ہے۔ یہ اس پارٹی کیلئے اچھا شگون نہیں ہوگا جو طویل عرصے سے صرف ایک شخص کے گرد گھوم رہی ہے چنانچہ وقت کیساتھ پی ٹی آئی کیلئے چیلنجز مزید گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے بہت سے رہنما وفاداریاں تبدیل کر چکے ہیں یا پھر سیاست کو مکمل طور پر چھوڑنے پہ آمادہ ہیں۔ باقی رہ گیا وہ کلٹ جو عمران خان کے بغیر کسی کی قیادت قبول کرنے کو تیار نہیں‘ تو وہ لیڈر کی عدم موجودگی میں مایوسی اور بے راہ روی کا شکار ہے۔