سوکھا ہوا پتّا میرا ٹوٹا ہوا پَرتھا
میں ایک پرندہ تھا مرا شہر شجر تھا
مہتاب تھا اس باغ میں گل تھا کہ گُہر تھا
نرگس کے لیے چشمہ اندوہِ نظر تھا
پھر ترکِ تعلق کی سزا دی بھی تو کس شام
ٹھہرا ہوا جس روز وہ ظالم میرے گھر تھا
کیوں آج میرا قد تیری پلکوں سے بھی کم ہے
کل تک میرا سایہ تیری قامت کی خبر تھا
جاتے ہوئے ہمدم تھی گدائی بھی‘ اَنا بھی
لوٹا تو مرے پاس نہ کاسہ تھا نہ سر تھا
مندرجہ بالا غزل میں سعید احمد اخترؔ طویل جدوجہد اور معروف سماجی عمل کے ذریعے معاشرتی مقام حاصل کرلینے کے بعد بھی اپنی زخم خوردہ انا اور سماجی تفریق کے درمیان وہ توازن پیدا کرنے میں بے بس نظر آئے جس کی آرزو نے اسے اپنی فطری اقدار کو ترک کرکے صنفی و سماجی مساوات، حقوق نسواں اور اعصابی تحریکوں کا شیدا بنایا تھا۔
وہ تشنگی ہوں جس کو بجھانے کے واسطے
کافی نہیں خضر کی عمرِ دراز بھی
اپنی شاہکار نظم ''موت کے سائے‘‘ میں وہ اپنے طبقے کے اُن افراد سے شکوہ کناں ہیں جو اپنی محنت و لگن سے غربت و افلاس کی وادیِ پُرخار سے نکل کر جہانِ آسودہ تک آ پہنچے لیکن ان کی ممتاز ترین صفت بزدلی و کم ہمتی رہی اور ان کا دل و دماغ ان سماجی ناہمواریوں کو مٹانے کی خواہش سے عاری نکلا جس کی تمنائیں سعید احمد اختر نے اپنے دل میں پال رکھی تھیں: کہتے ہیں کہ
مفلسی پہ کوئی الزام نہ شاہی سے گلہ
ایک بے بس ہے تو دوسری بے حس و نیاز
درد کے چہرے پہ مسکان کہاں سے آئے
آگ سے پھول کی امید حماقت ہو گی
میری تصویر میں وہ بیچ کا طبقہ ہے جسے
رزق و دانش بھی ملے عصر کی آگاہی بھی
ایسا طبقہ کہ جو بے گھر نہیں‘ محتاج نہیں
زر سے کسرا نہیں‘ افلاس سے تاراج نہیں
صاف ستھرا ہے مہذب ہے نظر رکھتا ہے
متاثر بھی ہے اور خود بھی اثر رکھتا ہے
انہی لوگوں سے بندھی ہے میرے گھر کی تقدیر
یہی اس تن کا لہو ہیں‘ یہی اس آنکھ کا نور
یہی عالم بھی، منصف بھی ہیں فنکار بھی ہیں
یہی ہر دور میں تہذیب کے معمار بھی ہیں
ان سے روشن ہیں مرے دہر کے زنداں خانے
لیکن افسوس کہاں شہر‘ کہاں دیوانے
آج ان لوگوں کے دل میں کوئی طوفان نہیں
ہجر کی آگ نہیں وصل کے ارمان نہیں
جیسے بیٹھے ہوں کہیں جان سے بیزار مریض
ان میں شوخی نہیں، مستی نہیں، ہیجان نہیں
کھوکھلے قہقہوں، بے روح تقاریر کا شور
ذہن آوارہ، قدم سست، نظر بے مرکز
جشن شادی میں ملمع کی مسرت اوڑھے
اور جنازوں میں بناوٹ کی اداسی پہنے
ان کی رفتار کو منزل سے کوئی کام نہیں
دل سرِ دار نہیں حسن‘ لب بام نہیں
اور ان موت کے سائوں کے جہاں میں اخترؔ
سوچتا رہتا ہے اک شاعر آوارہ نظر
سعید احمد اختر مذہبی جمود اور سماجی جبریت کے خلاف اپنی جدوجہد کی ناکامیوں کا تذکرہ کچھ یوں کرتے ہیں کہ
لاکھ ہم لوگوں نے دیواروں سے سر ٹکرائے
چیخ باہر نہ مگر گنبدِ بے در سے گئی
سعید اخترؔ کی زندگی عمیق پیچیدگیوں کا مرقع تھی۔ جیسے تذکرہ ہوا کہ 1932ء میں وہ شمالی بلوچستان کے علاقے قلعہ عبداللہ میں پیدا ہوئے، 1968ء میں وہ سول سروس سے وابستہ ہوئے اور کے پی کے مختلف اضلاع میں ڈپٹی کمشنر اور ایڈیشنل کمشنر کے مناصب پر فائز رہے۔ 1990ء میں ایڈیشنل کمشنر افغان مہاجرین کے عہدے سے ریٹائرمنٹ لی تو پھر اپنا مستقل ٹھکانہ انہوں نے ڈیرہ اسماعیل خان کو بنا لیا۔سعید احمد اختر کو ورثے میں ملنے والے طبقاتی تضادات اور طویل افلاس کی سرگرانی نے مذہبی و سماجی اقدار سے برگشتہ کرکے انہیں الٹرا جدیدیت کی طرف مائل کیا لیکن وہ ہمیشہ نادیدہ خوف اور سماجی دباؤ کی زنجیروں میں جکڑے رہے۔ اپنے موروثی یقین اور عقائد کی جبریت سے نجات کی خاطر وہ اپنی شاعری میں خالق حقیقی کے سامنے دست طلب دراز کرتے بھی نظر آتے ہیں۔
اے دوعالم کے آقا! میں بے ساماں بے سایہ
تیرے در پہ لاکھ ثنائیں‘ ایک گزارش لایا
تیرا دین ازل سے ہے ہر نیکی کا سرچشمہ
تیرا دین قیامت تک ہر دانش کا سرمایا
یہ ہے اس شخص کا فکری مواد جو خیالات کو اپنے دماغ سے نکال کر اپنے جذبات کو حروف اور الفاظ میں تبدیل کرنے کی خاطر شاعری کا سہارا لے کر اظہارِ خیال کی من مانی روایات بنانے کی کوشش میں ہمیشہ تذبذب کا شکار رہا۔ وہ اپنے تاریک وجدان، بے ترتیب خیالات، تلخ لمحات اور شدید احساسات کے ساتھ برجستہ نظموں میں جہاں ایک طرف زندگی کی پیچیدہ گتھیوں کو سلجھانے میں سرگرداں رہا، وہیں دوسری طرف وہ بجائے خود درپیش جمود اور سماجی عوامل کی سنگینی سے جاں بلب نظر آیا۔ ان کی شاعری میں مقصدیت تو تھی لیکن یہ اولوالعزمی اور ولولہ انگیزی سے عاری تھی۔ ہرچند کہ شاعری اپنے اسلوب یا ساخت کی بدولت سامعین کی سمجھنے کی بصیرت کو محدود کرتی ہے؛ تاہم نثری تحریروں کے برعکس شاعری زیادہ بے باکی کے ساتھ نئے خیالات کی ترویج کا وسیلہ بنتی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ شاعری اپنے پیغام کو سرگوشیوں یا دلدوز چیخوں کے بجائے ساکن علامتوں یا اشاروں کے ساتھ بھی مؤثر بنا سکتی ہے، حتیٰ کہ یہ اعلیٰ اخلاقیات سے عاری مضامین یا ڈرامائی بدزبانی (ہجو) سے بھی اپنے مقاصد کی تفہیم کر لیتی ہے۔ ہمارے ممدوح نے مزاج کی فطری گھٹن کے باعث فیضؔ اور فرازؔ کی طرح شاعری میں جوش و خروش پیدا کیا نہ جوشؔ کی طرح پُرتعیش داستانیں اور خوبصورت سفر کی منظوم کہانیاں رقم کیں۔ انہوں نے ن م راشد اور مجید امجد کی طرح پیچیدہ کرداروں کی زبانی مافوق الفطرت مکالمات کی تخلیق سے بھی گریز برتا۔ بلاشبہ ان کی شاعری فوری طور پر ماحول پیدا کرنے یا جذبات کو ابھارنے والی نہیں؛ تاہم وہ اپنی شاعری کے ذریعے جس سماجی جمود کو توڑنے کی کوشش مصروف رہے‘ وہ ان کی نفسیاتی ضرورت تھی۔ اس سے بظاہر یہی ثابت ہوتا ہے کہ انہیں اپنے خیالات کے سوا معاشرے اور انسانی حقوق سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔(ختم)