اگلے روز اپنا جنم دن تھا اور یہ بھاری احساس ہوا کہ پورے سَتّر کے ہو گئے ہیں۔ انجیل میں بشر کی جو عمر لکھی گئی ہے وہ یہی سَتّر سال ہے اور ہم اُس عمر کو پہنچ چکے۔ شکر کا مقام البتہ یہ ہے کہ احساسِ ضعیفی نہیں اور نہ یہ فکر لاحق ہے کہ آگے کیا ہو گا۔ یہی دُعا ہے کہ صحت اگر اَلہڑ جوانی والی نہ بھی ہو تو کم از کم مناسب ہو۔ اِس سے بڑا سچ کوئی نہیں جو کہ اس پنجابی محاورے میں پنہاں ہے کہ جان ہے تو جہان ہے۔ خرابیِٔ جان ہو تو نہ دنیا کی نعمتوں‘ نہ خوبصورتی کا احساس رہتا ہے۔ جان ہو تو کسی نہ کسی درجے کی مستی یا یوں کہیے شرارت رہتی ہے۔ احساسِ شرارت زندگی کا راز ہے ورنہ اُس کے بغیر کس مزے کی رہ جاتی ہے ؟
دو چیزیں البتہ مشکل ہو گئی ہیں ۔ سیاست سے چڑ ہو گئی ہے اور سیاسی تبصرے اَب لکھے نہیں جاتے۔ دُنیا کی سرمستیاں ایک طرف ہوں تو کون کمبخت اِن زرداریوں اور شریفوں کے بارے میں لکھتا رہے۔ کوئی سریلے لوگ ہوں یا مہ وشوں کی سنگت ‘ تو اُس پہ سیر حاصل تبصرہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں جو مسخرے میدانِ سیاست میں پائے جاتے ہیں اِن پہ کہاں جی چاہتا ہے کہ کوئی اپنا دَم ضائع کرے۔
دوسری چیز جو اَب آسانی سے نہیں ہو پاتی‘ وہ نصیحت ہے کہ ملک میں کیا ہونا چاہیے، کون سی اصلاحات ضروری ہیں، فلاں محکمے کا یا شعبہ ہائے زندگی کا کیا کیا جائے، ایسی مشق اَب نہیں ہوتی۔ اِس سے دل اُٹھ گیا۔ اَب تو اُستاد ذوق والی بات ہے کہ جب یہاں سے اُٹھ جائیں گے تو پھر اپنی بلا سے کہ بادِ صبا چلے۔ جن کی عمریں کم ہیں اور جنہوں نے عمر کی باقی منزلیں طے کرنی ہیں‘ وہ جانیں اور بادِ صبا جانے۔ ہمارے ہاں کئی گھسے پِٹے موضوع ہیں کہ پولیس اصلاحات کیسے ہوں، تھانہ کلچر کیسے ختم کیا جائے، نظامِ عدل کیسے بہتر ہو وغیرہ وغیرہ۔ خدا کی پناہ، ایسے موضوعات سُننے کی اَب ہمت نہیں رہی۔ اَب فکر ہے تو جیسا کئی بار پہلے عرض کر چکے شاموں کے بارے میں ہے۔ شام اَچھی صحبت میں گزر جائے، کچھ موسیقی ہو، کچھ راگ رنگ ہو۔ ہنسی مذاق کا سامان ہو؛ البتہ ایسی باتیں کسی معیار کی ہوں۔ بیہودہ گفتگو اَب سُنی نہیں جاتی۔ عشق وغیرہ کا بھی ذِکر ہو تو سلیقے سے۔ کلہاڑی کے وار کرنا اَب اچھا نہیں لگتا۔
اِس حد تک اپنے آپ کو قصور وار ہی ٹھہرائیں گے کہ وعظ و نصیحت سُننے کا شوق کبھی نہیں رہا۔ کچھ عرصہ پہلے تک ایسی باتیں کرنے والوں کو زُعم تھا کہ ہم پہ کوئی اثر ہو گا۔ ایک دو بار کوشش ہوئی لیکن ایسی باتیں کرنے والوں کیلئے تجربہ کچھ اَچھا نہ رہا۔ اس لیے جان ہی چھوٹ گئی۔ اَب ہمارے دروازے کا راستہ ہی نہیں کرتے۔ یہ پاکستانی قوم کی منفرد خصوصیت ہے کہ حال کی اِتنی فکر نہیں جتنا کہ مستقبل کی۔ وہ بھی مستقبل قریب نہیں بلکہ مستقبل بعید کی، یعنی جب زندگی کا شور شرابا ماند پڑ جائے۔ اِسی فکر میں اِن کی زندگیاں گزر جاتی ہیں۔ ہمیں عارضہ مستقبل کا اور خصوصاً مستقبل دور کا کبھی نہیں رہا۔ حال کی فکر زیادہ رہی ہے۔ کسی چیز نے ٹھیک ہونا ہے تو اَب ہو، نہیں تو پھر وہی بادِ صبا والی بات، ہماری غیر موجودگی میں چلے تو ہماری صحت پہ کیا اثر۔ ایک بات یار دوستوں کی کبھی سمجھ نہیں آئی۔ جب کہتے ہیں کہ فلاں کا جنازہ بہت اچھا تھا، بڑے لوگ آئے تھے۔ جو نیچے زمین میں جا چکا ہے اُ س کی صحت پہ کیا اَثر کہ جنازہ بڑا تھا یا چھوٹا۔
کچھ تمنائیں تو اَب بھی باقی ہیں اور وہ بھی ایسی جن کا ذِکر یہاں آسانی سے نہ کیا جا سکے۔ لیکن فضول کی تمنائیں اَب نہیں رہیں۔ جمہوریت ہو گی مضبوط یا کمزور یا نظام کون سا ہو گا، صدارتی یا پارلیمانی، ایسی باتیں سُن کے جی چاہتا ہے کہ ہاتھ میں ڈنڈا یا پستول اُٹھا لیں ۔ جائے بھاڑ میں اَب یہ اَمر کہ نظامِ تعلیم کیسا ہو گا۔ پیدا جہالت اور تنگ نظری ہی کرنی ہے تو ایسی بے تُکی بحث کا کیا فائدہ؟ بس جو کچھ ہے اور جیسا ویسا چل رہا ہے‘ وہی کافی ہے۔
میں تو اپنے صحافی دوستوں سے کہتا ہوں کہ سال میں کم از کم ایک بار جنرل مشرف کا شکر بجا لایا کریں کہ اُنہوں نے پاکستانی صحافت کو غربت سے آزاد ہونے کے مواقع فراہم کیے۔ میری بات پہ اکثر مجاہدِ صحافت چِڑ جاتے ہیں۔ اُنہوں نے اور کہانیاں بنائی ہوئی ہیں کہ پتہ نہیں کون سا لانگ مارچ ہم نے کیا‘ جس کی وجہ سے میدانِ صحافت کے مواقع وسیع ہوئے۔ ہر فرد اور ہر گروہ حتیٰ کہ ہر قوم کو اپنے فائدے کی کہانیاں گھڑنے کی آزادی ہے۔ اگر کاروانِ صحافت دل بہلانے کیلئے ایسی کہانی گھڑتا ہے تو اُس پہ بڑا اعتراض کیا کرنا۔ لیکن اِس حقیقت سے انکار نہیں کہ پاکستان میں سیاست کا اُفق محدود ہوا کرتا تھا۔ ہم جیسوں کیلئے مناسب خرچے پانی کا بندوبست تب ہوا جب جنرل مشرف نے الیکٹرانک چینلوں کو آزادی دی۔ نہیں تو صحافت اور برانڈڈ کپڑے دو الگ جہاں ہوا کرتے تھے۔
افلاطون کے ایک ڈائیلاگ میں سقراط ایک متمول آمدنی والے شخص سے پوچھتا ہے کہ پرائیویٹ آمدنی کا کیا فائدہ ہے۔ جواب میں وہ کہتا ہے کہ پرائیویٹ آمدنی ہو تو آدمی زندگی میں اپنی مرضی کر سکتا ہے۔ یعنی جو پیشہ اپنانا چاہے کر سکتا ہے اور اگر ذرائع آمدنی مناسب ہوں تو گھر بیٹھ کے بھی جو چاہے کر سکتا ہے۔ یعنی دنیا کی سیر کرنے کی تمنا پیدا ہو تو پوری کر سکتا ہے۔ ہمارے نواب لوگ اور زمیندار اور کچھ نہ کر سکتے ہوں لیکن جن کو شادیوں کا شوق ہوتا وہ یہ شوق پورا کر لیتے۔ جن کو حسن آوارگی کی تڑپ رہتی ‘ وہ یہ آرزو بھی پوری کر لیتے۔ اِس لحاظ سے اپنے آپ کو خوش قسمت ہی سمجھ سکتے ہیں کہ عین طبع کے مطابق کام میسر آیا جس کی بدولت شوقِ آوارگی بھی پوری ہوتی رہی۔
یہ تو جوانی میں جان گئے تھے کہ سکہ بند سرکاری ملازمت اپنے بس کی بات نہیں۔ کاروبار کیلئے تو ذہن بالکل نہ تھا۔ مفروضے کے طور پہ کوئی لگی لگائی فیکٹری ہمیں تحفے میں دے جاتا تو مہینے کے اندر اندر اُسے کنگال کر دیتے۔ جوانی کی دہلیز پہ تھے تو مسئلہ یہی تھا کہ طبع کے مطابق کون سی وظیفہ خواری کر سکتے ہیں۔ دنیا بھر کی صحافت ہم جیسوں کیلئے ہی بنی ہے۔ طبیعت میں آوارگی ہو تو انسان ایکٹر بن جائے، لیکن اُس کیلئے ایک خاص ہُنر کی ضرورت ہے۔ ہر نکمّا آدمی ایکٹر نہیں بن سکتا‘ نہ گوّیا۔ رہ جاتی ہے صحافت تو اُس کی طرف بہت پہلے ہی مائل ہو چکے تھے۔ فوج چھوڑی، فارن سروس چھوڑی اور طبیعت کو قرار آیا تو اِسی وادیِٔ پُرخار میں۔ گو جب مرحوم مظہر علی خان کے بائیں بازو کے ہفت روزہ ویو پوائنٹ میں کالم لکھنے شروع کیے تو اِتنی محنت کرتے‘ جو پھر زندگی بھر نہ کی۔ اور ایک کالم کا صلہ اُس زمانے میں پچھتر روپے کی شکل میں ملتا تھا۔ لیکن اُن پچھتر روپوں کو خرچنے کا مزہ آتا تھا۔ اور کوئی راستہ بھی نہ تھا۔ کالم نویسی کے علاوہ کچھ کرنے کا سلیقہ نہ تھا۔
البتہ سیاست کا شوق تھا۔ فارن سروس سے بھی سیاسی بنیادوں پہ استعفیٰ دیا تھا؛ البتہ بعد میں شرمندگی رہی کہ جس تحریک کا حصہ ہمارا استعفیٰ بنا‘ اُس کے نتیجے میں جنرل ضیاء الحق نے قبضۂ اقتدارکیا۔ پھر بھی سیاست میں دلچسپی برقرار رہی۔ پہلی وابستگی پیپلز پارٹی سے تھی اِس یقین کی بنیاد پہ کہ ضیاء الحق کے دور کے بعد حقیقی جمہوریت اِس ملک میں پیپلز پارٹی کی بدولت آئے گی۔ بعد میں نون لیگ سے پتہ نہیں کیا کیا اُمیدیں جوڑے رکھیں۔ زندگی کی کہانی بس ایسی ہی اُمیدوں سے عبارت ہوتی ہے۔
ذہنی آزادی پائی ہے تو اَب۔ وہ انگریزی کا کیا لفظ ہے، illusion (ایلوژن)۔ اَب تمام ایلوژنز سے آزاد ہوئے۔ اَب فکرِ شب ہی رہتی ہے لیکن ہائے افسوس یہ بھی رونا ہے کہ کتنی شامیں ویران رہتی ہیں۔