ایک تو سریا دوسرا ناخواندگی‘ یہی یہاں کا خمیر لگتا ہے۔ یا تو باہر سے ایچی سن کالج کا پرنسپل لگاتے نا‘ یہیں کا کوئی چھماندرو اس پوسٹ کیلئے چنا جاتا اور پھر اُس سے اپنی مرضی کراتے۔ پرابلم البتہ ایچ سن کالج اور اس جیسے دیگر کالجوں کا یہ بنتا ہے کہ یہ انگریزوں کے بنائے ہوئے ہیں اور سچ پوچھئے کہ ہم دیسیوں سے ایسے ادارے صحیح طور پر چلتے نہیں۔ ہم دیسی آتے ہیں تو اپنی خصوصیات ساتھ لے کر آتے ہیں۔ سفارشیں چلنے لگتی ہیں‘ میرٹ سے ہٹ کر کام ہوتے ہیں اوراقربا پروری تو یوں سمجھئے ہمارے ڈین این اے کا ایک نہ ختم ہونے والا جزو ہے۔ انگریز اور انگریز نما لوگوں کا کلچر ہم سے تھوڑا مختلف ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ وہ غلطی نہیں کرتے لیکن جو سفارش اور اقربا پروری کے زمرے میں ہم ستیاناس کر دیتے ہیں اُن میں اتنا نہیں ہوتا۔ اب یہاں آسٹریلیاکے ایک استاد کو ایچی سن کالج کے پرنسپل کیلئے چنا گیا اور ہمارے سید بابر علی‘ جو کہ کئی انڈسٹریز کے مالک رہے ہیں اور لمز یونیورسٹی کے بانیوں میں سے ہیں‘ کہتے ہیں کہ مائیکل تھامسن کا دورانیہ بطور پرنسپل مثالی رہا ہے اور کالج کا معیار بلند کرنے میں انہوں نے انتھک محنت کی۔
ان چیزوں کو یہاں کون پوچھتا ہے؟ یہاں داخلوںکا موسم آئے تو سفارشیں چلنے لگتی ہیں۔ ایچی سن کالج کا چانسلر گورنر پنجاب ہوتا ہے اور جب گورنر صاحب خود بھی سفارشی لگائے گئے ہوں اور اُن میں میرٹ نام کی دور سے چیز نظر نہ آئے تو اُنہوں نے بھی داخلے اور ایسے دیگر کاموں کیلئے سفارشیں ہی سننی ہیں۔ یہ نہیں کہ ایچی سن کے دیسی پرنسپل اچھے نہیں رہے ہیں۔ شمیم خان‘ جو بہت عرصہ اس پوسٹ پر فائز رہے‘ مثالی کردار کے مالک تھے۔ وہ کوئی سفارش نہیں سنتے تھے اور کسی کے دباؤ میں نہیں آتے تھے۔ اُس کی وجہ البتہ یہ تھی کہ وہ اپنی ذات میں بڑ ے قابل اور دبنگ قسم کے انسان تھے۔ اُن کا تعلق خان عبدالولی خان کے خاندان سے تھا اور شاید یہ ایک بڑی وجہ تھی کہ اُن پر کوئی رعب نہیں جھاڑ سکتا تھا۔ مائیکل تھامسن پر البتہ موجودہ گورنر پنجاب نے رعب جھاڑنے کی کوشش کی اور پرنسپل نے اپنا استعفیٰ داغ دیا‘ یہ کہتے ہوئے کہ سکولوں اور کالجوں کے معاملات میں سفارشیں اور اقربا پروری نہیں چلنی چاہئے۔ ہمیں کوئی ایسی بات بتائے تو ہم کبھی ماننے کیلئے تیار ہوں گے؟
مسئلہ وفاقی وزیر احد چیمہ کے بچوں کا تھا۔ باپ کی مصروفیات کی وجہ سے دو بیٹے اسلام آباد منتقل ہو گئے یا وہاں اُنہیں جانا پڑا۔ چیمہ صاحب اور اُن کی بیگم نے بچوں کی لمبی چھٹی کی درخواست دے دی۔ ساتھ اُنہوں نے کہا کہ دورانِ چھٹی بچوں کی فیس بھی معاف ہونی چاہئے۔ یعنی بچے جہاں بھی ہوں‘ ایچی سن کالج میں اُن کی سیٹیں محفوظ رہیں۔ یہ قواعد کے خلاف تھا تو پرنسپل نہ مانے۔ چیمہ صاحب کی بیگم گورنرکے پاس چلی گئیں اور آخر میں بورڈ آف گورنرز کی منظوری کے بغیر گورنرصاحب نے حکم صادر کیا کہ بچوں کی فیس معاف ہونی چاہئے۔ ان سے کوئی پوچھے کہ آپ نے ہر چیز کو خالہ جان کا ویہڑا بنانا ہے؟ ایچی سن کالج سے اتنا لگاؤ یا پیار ہے تو فیسیں دو‘ نہیں دینی تو پھر ضد کاہے کی؟ لیکن وہ پاکستانی افسر تو نہ کہلائے جو اپنی اکڑ دکھائے بغیر رہ سکے۔ بلیغ الرحمن سے آرڈر کروا لیے اور ایک سیکنڈل کھڑا کر دیا‘ لیکن انہیں کیا پروا۔ ندامت یا شرمندگی کے بجائے کہانیاں گھڑ رہے ہیں کہ زیادتی پرنسپل کی تھی اور وہ ویسے بھی جانے والا تھا‘ ہم نے جو کچھ کیا قواعد کے مطابق کیا۔
چیمہ وہی ہیں جو شہباز شریف کے بڑے چہیتا ہوا کرتے تھے۔ ایل ڈی اے کے کرتا دھرتا رہے اور شہباز شریف کے بطور وزیراعلیٰ جانے کے بعد اُن پر الزامات بھی لگے۔ ان کو تو جانے دیجئے کیونکہ یہاں تو کہا جاتا ہے کہ ہرجانے والی حکومت پر ایسے الزام لگ جاتے ہیں‘ لیکن یہ تو کوئی بتائے کہ چہیتا ہونے کے علاوہ اُن کی اور کیا کوالیفکیشن تھی؟ ہاں جیل ضرور گئے اور مقدمات بھی قائم ہوئے لیکن (ن) لیگ کی وفاداری کے عوض انہیں بڑے عہدے بھی ملے۔ چیمہ اور فواد حسن فواد شریف خاندان کے قریب ہونے کی وجہ سے ہی پچھلی نگران حکومت میں وفاقی وزرا کے عہدوں پر فائز ہوئے۔ اس پر کوئی اعتراض نہیں بنتا‘ آپ کی وفاداری کسی سیاسی جماعت سے ہے تو ایسے کاموں میں نفع نقصان تو ہوتا رہتا ہے۔ لیکن ایک معمولی سی بات پر یہ آپ نے کیا تماشا کھڑا کر دیا ہے؟ آپ کی شرمندگی تو بنتی ہی ہے لیکن آپ کی وجہ سے آپ کے بڑوں کیلئے بھی سامانِ شرمندگی پیدا ہوا ہے۔ لیکن یہاں تو حساب ہی اور ہے‘ ندامت نام کی چیز تو کہیں قریب سے بھی نہیں گزرتی۔ یہ جو ہمارے بڑے ہیں جن کے ہاتھ میں آج اس قوم کی حکمرانی ہے انہیں کسی چیز پر کبھی ندامت ہوئی ہے؟ کیا کیا الزامات ان پر نہیں لگے‘ کیا کیا ثبوت سامنے نہیں آئے؟ ان کی ہنرمندیوں پر کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ پرویز مشرف کے زمانے میں کسی اور نے نہیں جنابِ اسحاق ڈار نے منی لانڈرنگ کے الزامات کے حوالے سے ایک لمبا چوڑا اعترافی بیان لکھ کر دیا تھا۔ کسی اور ملک میں ایسی چیز ہوتی تو منہ چھپانے کو جگہ نہ ملتی۔ لیکن یہاں کسی کو کوئی فرق پڑا؟ حکومت ساری کی ساری نہیں تو کم از کم آدھی شریفوں کی ہے اور خدا کا کرنا یہ کہ اس حکومت میں جنابِ اسحاق ڈار وزیر خارجہ بنا دیے گئے ہیں۔ امورِ خزانہ میں تو کرشمات دکھائے اب کرشمات امورِ خارجہ میں بھی دکھائیں گے۔
آج کل کہا جاتا ہے کہ پاناما پیپرز میں کچھ نہیں تھا اور ہمارے خلاف اقتدار سے ہٹانے کیلئے ساز ش کی گئی۔ سازش ہوئی ہو گی اور بہت سے اُس میں ملوث ہوں گے لیکن ایک چیز کا جواب تو آج تک نہیں ملا کہ حضور لندن جائیدادوں کی آپ سے ٹریل پوچھی جا رہی تھی اور آپ آئیں بائیں شائیں کرتے رہے لیکن بتا نہ سکے کہ اُن جائیدادوں کیلئے پیسے کہاں سے آئے تھے۔ کہیں آسمان سے گرے تھے یا سمندروں نے اُن پیسوں کو انگلستان کے ساحل پر پہنچا دیا تھا؟ آج تک یہ معمہ حل نہیں ہو سکا لیکن پارسائی کا لبادہ ایسے اوڑھا جاتا ہے کہ ان کی دیدہ دلیری پر داد دیے بغیر انسان رہ نہیں سکتا۔ سامنے کی چیزیں ہیں‘ وہ جو کہتے ہیں دن دہاڑے کی وارداتیں ہیں‘ لیکن مجال ہے کہ ماتھے پہ کبھی پسینہ آیا ہو یا ندامت کا تھوڑا سا احساس قریب سے گزرا ہو۔ چیمہ کا پھر اتنا بڑا کون سا قصور؟ وہ بھی تو اُسی کھیت کی مولی ہیں۔
کچھ مہربان کہتے ہیں کہ تم تو ایسے ہی لکھتے رہتے ہو‘ تمہیں تو شریف خاندان سے کوئی بغض ہے۔ حضور! ہمارا کوئی جائیداد کا تنازع ہے کہ ہم بغض کے شکار ہوں گے؟ یہی لوگ یہاں کے حکمران ہیں‘ انہی کے بارے میں لکھا جائے گا۔ ہم کیا بل گیٹس یا ایلون مسک کے بارے میں لکھیں؟ عمران خان حکومت میں تھے تو ہم اُن کی تعریفوں پر تو نہیں لگے ہوئے تھے۔ اُس زمانے کے کالم دیکھ لیں‘ تنقید سے بھرے ہوں گے۔ کس حکمران یا طالع آزما کے بارے میں نہیں لکھا؟ صحافت نام ہی اس چیز کا ہے کہ جہاں سریا گردنوں میں ہو اُسے تھوڑا پگھلانے کی کوشش کی جانی چاہئے۔ صحافت یہ نہ کرے تو اُسے کوئی اور نام دے دیں‘ صحافت نہ کہیں۔ یہ جو انہوں نے ایچی سن کالج والی کارروائی ڈالی ہے‘ یہ موضوعِ سخن بنتا ہے کہ نہیں؟ اس سے ان کی کوئی نیک نامی ہوئی ہے؟ جتنا بھی سریا آپ کی گردن میں ہو اتنی عقل تو ہونی چاہئے کہ کون سی بات چلے گی اور کون سی نہیں۔ اتنی عقل بھی نہ ہو تو آپ کو دانشوری کا تمغہ پھرکسی نے دینا نہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب کو بھی دیکھ لیں‘ لگتا ہے کہ فوٹو کھنچوانے کے علاوہ کوئی کام نہیں۔ جہاں جاتی ہیں ساتھ کیمرے گھوم رہے ہوتے ہیں۔ یہی مشغلہ لگتا ہے۔