بہارآئی بھی تو اُس نے ہمارا کیا بگاڑ لیا۔ اتنی بوریت طاری ہے کہ دل میں خیال اُٹھتا ہے کہ اب تو کسی خانقاہ پہ بیٹھ جائیں اور وہیں اپنے دن گزاریں۔سیاست تو یہاں کب کی مر چکی ‘ اورجس جماعت کے ساتھ ہم لگے تھے وہ نومئی کے جھمیلے سے ہی نکل نہیں پا رہی۔ صحافت مری تو نہیں لیکن مفلوج ضرور ہو گئی ہے۔ جنرل ضیا الحق کی آمریت کا دورتھا لیکن آج کی نسبت پاکستانی صحافت میں تب تھوڑا سا دم خم تھا۔ بہت ساری چیزیں تب بھی ممنوع تھیں لیکن امید زندہ تھی کہ تاریک اور لمبی رات کے بعد صبح ضرور آئے گی۔ اب تو لگتا ہے کہ شاید رات کا موسم ہی رہے‘ لکھنا مشکل‘ بولنا مشکل ‘ بس یوں ہی صحافت نام کی چیز چل رہی ہے۔
انتخابات کے انعقاد سے ہم جیسے بیوقوف سمجھ بیٹھے تھے کہ کچھ نہ کچھ گنجائش تو پیدا ہوگی ۔ گنجائش تو پیدا ہوئی لیکن اس نوعیت کی کہ حالات دیکھتے ہیں تو ہنسی نہیں رکتی۔ الیکشن کمیشن پہ تو ہنسی آتی ہی ہے لیکن اپنے آپ پہ بھی آتی ہے کہ کان کے کن بہروں سے امیدیں لگائے بیٹھے تھے۔ الیکشن کمیشن کا درشن ہم نے بھی کیا لیکن سچ مانیے نچلے درجے کا کوئی مزاحیہ ڈرامہ لگتا تھا۔ بس ایک آرزو رہ گئی کہ چیف الیکشن کمشنر کے سامنے بھی جی حضوری کر لیتے لیکن وہ موقع نہ ملا‘ گو سننے میں آیا ہے کہ چیف صاحب ایسے ہیں جو کچھ مرضی کہتے رہیں‘ آگے سے چپ رہتے ہیں۔ اسلام آباد کی ایک دعوتِ افطار تھی جہاں ہمارے پرانے مہربان سعید مہدی صاحب بھی موجود تھے۔ اپنے زمانے میں اُنہوں نے بڑی افسری دیکھی ہے اور ہمارے قائدِ انقلاب جناب نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری بھی رہ چکے ہیں۔چیف الیکشن کمشنر کی دیگر خصوصیات میں یہ بھی ہے کہ وہ سعید مہدی صاحب کے داماد ہیں۔ افطار پر گرم جوشی سے ہم ایک دوسرے سے ملے‘ مجھے دیکھ کر سعید مہدی صاحب ہنس پڑے اورمیری ہنسی بھی نہ رُک سکی۔ مزید کسی تبصرے کی ضرورت نہ تھی۔ کئی اور پرانے دوست بھی ملتے ہیں توایک دوسرے کو دیکھتے ہی ہم ہنس پڑتے ہیں۔آج کل کے حالات کے بارے میں ہنسی کے علاوہ اورکیا کیا جاسکتا ہے۔
لاہور میں ہمارے ایک دوست منیب صاحب ہیں‘ لاہور پریس کلب کے پرانے ممبر ۔کبھی کبھی کوئی نہ کوئی ویڈیو کلپ بھیج دیتے ہیں کہ ہندوستان ترقی کی دوڑ میں یوں آگے نکل چکا ہے‘ وہاں اتنے ائیرپورٹ بن رہے ہیں‘ ایئرلائنیں اُن کی اتنے جہاز خرید رہی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اُن سے اب کیا کہا جائے؟ کچھ اپنی تاریخ ہم پڑھ لیں تو پاکستان کے آج کل کے حالات اتنے عجیب نہ لگیں۔ہندوستان کی شروعات اور تھیں ہماری کچھ اور۔ایک تو وہاں تحریکِ آزادی واقعی چلی تھی۔ کانگریس کی تحریک انگریزوں کے خلاف تھی اورمسلمانانِ ہند کا عالم یہ تھا کہ انگریزوں سے تو اُنہیں کوئی خاص پرابلم نہ تھا اُنہیں فکر بس اتنی تھی کہ جمہوریت کے اصول یہاں کارفرما ہو گئے تواکثریت ہندوؤں کی ہوگی اور ہندوؤں کی اکثریت کے نیچے ہم کیسے رہ سکیں گے۔ہم میں اور اُن میں یہ بنیادی فرق تھا۔ ہم ایک انجانے خوف میں مبتلا رہے کہ ہندوستان آزاد ہو گیا اورآزاد ہندوستان میں جمہوری نظام قائم ہوا تو مسلمان اقلیت میں رہ جائیں گے اورہندوؤں کی اکثریت ہوگی۔ دوسری بات یہ کہ جہاں ہمیں کچھ کرنا چاہیے تھا یعنی میدانِ عمل میں قدم رکھنا چاہئے تھا لیکن پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد یہاں کے اکابرین پارسائی کے نعرے ہی لگاتے رہے۔ایسی باتوں کو رہنے دیں ‘ زیادہ زوران پر دیں توہنسی رونے میں تبدیل ہونے لگتی ہے‘ اورمسلسل رونے کا فائدہ بھی کیا۔
البتہ ہمارا رونا ذاتی نوعیت کا ہے۔ یہاں سیاست اور صحافت اگردونوں مفلوج ہوکے رہ گئے ہیں تو ہم جیسے نکمے جو اور کسی کام کے لیے فِٹ نہیں‘ کریں کیا؟ اورکوئی ہنرہمارے پَلے بندھا ہی نہیں ‘ تھوڑا سا چسکا سیاست کے بارے میں تھا اورساری عمر صحافت کی لَت بھی لگی رہی۔ اب جب پاکستان کے حالات ایسے ہوچکے ہیں کہ افادیت سیاست کی نہ صحافت کی توہم جیسے بیکار امیدکس سے رکھیں؟بہاروں نے ہمارا کیا بیگاڑ لینا ہے۔ لاہور آتے ہیں توپہلا دھڑکا یہ لگا رہتا ہے کہ جن سے فیض لینے آتے ہیں ہمارے ساتھ دھوکہ تو نہ کر یں گے۔ دوسرا دھڑکا مجلس کے حوالے سے ہوتا ہے کہ ڈھنگ کی ہو سکے گی یا نہیں۔ ہماری مملکت کو عارضے تو بہت لاحق ہیں ‘ گننے بیٹھیں توفہرست طویل ہو جائے‘ لیکن ایسا معاشرہ توناقص ہی کہلائے گا جہاں مسائل اتنے پیچیدہ ہو جائیں۔
ایک بات کبھی سمجھ نہیں آئی کہ مردِحق ضیا الحق صاحب کو گئے زمانہ بیت چکا ہے۔ تب پاکستان کی آبادی دس کروڑ تھی آج چوبیس‘ پچیس کے لگ بھگ ہے۔ اس عرصے میں کتنے حکمران آئے کتنے گئے‘ کسی میں تو اتنی ہمت ہوتی کہ ضیا صاحب کے قانونی کرشمات ختم کیے جاتے۔ پارسائی کے نام پر جو اُنہوں نے اقدامات اٹھائے وہ اُس وقت کی پیداوار تھے۔ وہ وقت گیا وہ زمانہ گیا۔ اس دھرتی پر کچھ نیا ہوتا کچھ نئی ہوائیں چلتیں۔ فرسودہ خیالات تمام کے تمام ختم نہ بھی ہوتے لیکن اُن کا دائرہ تو محدود کیا جاتا۔ شخصی آزادیوں کو پنپنے کا موقع ملتا۔ اس سے کچھ اورفائدہ ہوتا نہ ہوتا قومی سوچ پر لگے تالے ذرا کھل جاتے۔ آزادیٔ اظہار سے پہلے آزادیٔ سوچ کا ہونا ضروری ہے۔ یہاں وہ نہیں ہے اور یہی ہمارا سب سے بڑا پرابلم ہے۔ ضیا صاحب کو برُا بھلا کہنا نہیں بنتا ‘ اپنے دور میں جو کچھ اُنہوں نے کرنا تھا وہ کیا۔ ذمہ داری توبعد میں آنے والوں کی بنتی ہے کہ وہ اُس دور کے ورثے کو ختم نہیں کرسکے۔
آمریتیں بہت سے ملکوں میں رہی ہیں۔ سپین میں جنرل فرینکو نے دہائیوں تک حکمرانی کی۔ وہاں بھی آزادیٔ سوچ پر قدغن تھی‘ کھل کر آپ بول نہیں سکتے تھے۔ پرتگال میں سلازار کی آمریت تیس چالیس سال تک رہی۔ یونان میں کچھ عرصہ بڑی سخت قسم کی ڈکٹیٹرشپ رہی ۔ لیکن ان سب ملکوں میں پھر جمہوریت کا آفتاب طلوع ہوا اور ان سب ملکوں میں بڑی سمجھدار قیادتیں آئیں جنہوں نے جمہوریت کے تنے کو مضبوط کرنے میں اپنا کردار اداکیا۔ یہاں کہانی ہی مختلف ہے۔ جمہوری اصولوں پر پاکستان معرض وجود میں آیا۔ یہاں تو فوراً آئین بن جانا چاہیے تھا اور جمہوری اقدار کو مضبوط ہونا چاہئے تھا۔ لیکن یہاں جمہوریت سے کھیل ہی کھیلا گیا۔ جوآیا نقصان کرکے گیا ۔ انگریزوں کا تعلیمی نظام ہندوستا ن میں تھا اور یہاں بھی ۔ ایک قسم کا نصاب ایک قسم کی کتابیں۔ اُن کی قیادتوں نے تعلیم اورریسرچ پر زور دیا‘ یہاں تعلیم پارسائی کی نذر ہو گئی۔ لہٰذا ہندوستان اگر آگے نکل گیا اور ہم مخصوص حالات میں گرفتار ہیں تواُس میں کوئی حیرانی نہیں ہونی چاہئے۔ دونوں ممالک نے جدا جدا راستے اختیار کیے تھے۔ منزل ایک جیسی پھر کیسے ہوسکتی تھی؟
ایک اور فرق ‘ہندوستان میں نریندرمودی بڑے سیٹھوں سے قربت رکھتے ہیں‘ ذاتی اعتبار سے سیٹھ نہیں۔ وہ تو بڑے فخر سے اب بھی کہتے ہیں کہ میں چائے بیچتا تھا۔ پاکستان میں دونوں اقسام کے سیٹھ لوگ یعنی زرداری اور شریف زادے خود نریندرمودی بنے ہوئے ہیں‘ یعنی حکمرانی کرتے ہیں۔ ہندوستان کے ٹاٹا ‘ امبانی اوراڈانی صحیح معنوں میں سرمایہ دار ہیں‘ یعنی کچھ بناتے ہیں۔ ہمارے سیاسی سیٹھوں نے شوگر ملیں اوراس قسم کے کام کیے ہیں۔ زمین آسمان کا فرق ہے اُن کے سرمایہ داروں اورہمارے کمیشن کھانے والوں میں۔ حیرانی پھر کس بات کی؟ ہندوستان دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکا ہے ۔افسوس سے کہنا پڑتا ہے ہمیں نہ سیاست کی سمجھ نہ معیشت کی۔