کیا بور انسا ن امریکیوں نے بطورِ صدر چناہے۔ جو بائیڈن کو دیکھ کے نیند آجائے‘ سلیپنگ پِلزکی ضرورت ہی نہ رہے۔ اورجو بھی اس سے توقع کی جائے‘ نئے خیالات کی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔ امریکیوں کیلئے بھاری ہوں نہ ہوں اگلے چار سال باقی دنیا کیلئے بوریت سے بھرے ہوں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ 74سال کا ہے لیکن کچھ اس میں شیطانی‘ کچھ تماشا تھا۔ اسی لیے اس کے وائٹ ہاؤس میں ہوتے ہوئے شغل ہی رہا۔ اُن کے ٹویٹ ہی ختم نہیں ہوتے تھے۔ صبح جاگتے ہی کوئی نہ کوئی ٹویٹ مار دیتے۔ پروا والی بات تو مزاج میں تھی ہی نہیں۔ اس لئے جس پہ بھی نشتر چلانا ہو چلا دیتے تھے بغیر کسی لحاظ کے۔ پہلا امریکی صدر تھا جس نے میڈیا کو بھی نہیں بخشا۔ سیاستدان عمومی طورپہ میڈیا سے ڈرتے ہیں‘ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کا سٹائل ہی ایسا تھا کہ بیشتر میڈیا سے ہمیشہ الجھتے رہے۔ فیورٹ ٹی وی چینل اُن کا فاکس نیوز تھا۔ اُس کے علاوہ سی این این ہو یا نیویارک ٹائمز‘ اُن کے بارے میں کہتے کہ یہ بوگس خبریں دیتے ہیں۔
کئی جگہوں پہ وہ جو گھومنے والا دروازہ لگا ہوتاہے‘ دروازہ ہلائیں تو پورا گھوم جاتا ہے۔ انگریزی میں اسے revolving دروازہ کہتے ہیں۔ ٹرمپ کا وائٹ ہاؤس پورے چارسال revolving door بنا رہا۔ عہدیدارعہدوں پر تعینات ہوتے اورآنکھ جھپکنے میں اُن کی چھٹی ہوجاتی۔ بیشک آپ امتحان لے لیں کوئی نہ بتا سکے کہ بڑے عہدوں پہ کتنے لوگ آئے اورکتنے گئے۔ یہ بھی ان کے سٹائل کا حصہ تھا۔
بس ایک چیز کی ڈونلڈ ٹرمپ کو پروا تھی اوروہ تھا اُن کا سیاسی حلقہ جو زیادہ تر دیہاتی ریاستوں میں رہنے والے تھوڑے کم پڑھے لکھے سفید فاموں پہ مشتمل تھا۔ یہ ایک ایسا حلقہ تھا جس میں خیال پایا جاتا کہ معاشی طورپہ اُن سے زیادتیاں کی گئیں۔ ایک زمانے میں ریاست ہائے متحدہ مینو فیکچرنگ میں دنیا میں سب سے آگے تھی‘ لیکن حالیہ دہائیوں میں مینو فیکچرنگ کے لحاظ سے امریکا پیچھے جاتارہا اوربہت سی فیکٹریاں بند ہوکے دوسرے ملکوں میں منتقل ہوتی گئیں۔ اس عمل سے خاص شعبوں میں بیروزگاری بڑھی۔ یہ وہ حلقہ تھا جس کو ڈونلڈ ٹرمپ اپیل کرتے تھے۔ وائٹ ہاؤس میں رہتے ہوئے شاید ہی کسی امریکی صدر نے اتنے جلسہ عام سے خطاب کیا ہوجتنا کہ ٹرمپ کا معمول بن گیاتھا۔ تقریباً ہر ہفتے کسی نہ کسی ریاست جاکے اپنے پرجو ش حامیوں سے مخاطب ہوتے اوروہی زبان استعمال کرتے جو اس مخصوص حلقے کے دل کو لگتی۔الیکشن ہار تو گئے ہیں ٹرمپ لیکن یہ بھی دیکھا جاسکتاہے کہ اُن کی حمایت اب بھی بہت ہے۔
ٹرمپ نے مار کھائی تو زیادہ تر اس COVID-19کی وجہ سے۔ جیسے ہم سب جانتے ہیں کہ دنیا بھر میں اس بیماری سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک امریکاہے۔ اوریہ خیال امریکامیں گھرکرگیا کہ ٹرمپ نے اس بیماری کے حوالے سے صحیح قیادت نہیں کی۔ ٹرمپ کے دورِصدارت میں امریکی معیشت بہتر ہوئی اور بیروزگاری میں کمی آئی لیکن اُن کے خلاف جو بات گئی وہ اس بیماری کے حوالے سے تھی۔بہرحال سب سے اہم بات ٹرمپ کے حوالے سے ایسی ہے جس کا اعتراف بیشتر امریکی نہیں کرتے۔ وہ امریکا کو کسی نئی جنگ میں نہیں لے گئے۔ عراق پہ حملہ کرکے جارج بش نے اپنے ملک کو بہت نقصان پہنچایا۔ صدام حسین کا عراق بھی اُس حملے سے تباہ ہوا اوراُس جنگ کی وجہ سے دہشت گردی میں اضافہ ہوا اورامریکی مفادات کو نقصان پہنچا۔ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو امریکا کی دشمنی ایران سے چل رہی ہے اوردوسری طرف افغانستان اورعراق پہ حملوں کا سب سے زیادہ فائدہ ایران کو پہنچا۔ ایران کی عداوت طالبان سے تھی۔ امریکیوں نے کابل میں طالبان کا تختہ اُلٹا۔ دوسری عداوت ایران کی صدام حسین سے تھی اوراُسے بھی امریکیوں نے صفحہ ہستی سے مٹادیا۔ ان دونوں جنگوں کا فائدہ ایران کو پہنچااور اگر ایران علاقائی طاقت بن گیا تو اُس میں ایک اہم وجہ ان امریکی حماقتوں کی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایسا کوئی بلنڈر نہیں کیا۔ پہلے دن سے ہی وہ باہر کی دنیا میں امریکی فوجی مداخلتوں کے خلاف تھا۔ افغانستان سے بھی جو امریکی انخلا ہورہاہے وہ بھی ٹرمپ کی وجہ سے ہے۔ جنگ بندی افغانستان میں نہیں ہوئی۔طالبان حملے اشرف غنی کی حکومت کے خلاف جاری ہیں لیکن اس کے باوجود ٹرمپ نے فیصلہ کرلیاتھا کہ امریکا کو افغانستان سے نکلنا چاہیے۔ کوئی اور امریکی صدر ایسا نہ کرتا۔یا کم ازکم اتنی جلد ی میں نہ کرتا۔ شام میں بھی محدود پیمانے پہ امریکا نے مداخلت کی تھی لیکن ٹرمپ نے جو تھوڑے بہت امریکی فوجی دستے شام میں تھے اُن کو باہر نکال لیا۔ اُس وقت ٹرمپ پہ امریکا میں تنقید بھی ہوئی کہ ایسا نہیں کرنا چاہیے لیکن تمام تنقید سے بے نیاز ٹرمپ اپنے فیصلے پہ قائم رہا اور اس میں امریکا کا فائدہ ہوا۔
بڑا کہاجاتاہے کہ ٹرمپ کو آداب ِ صدارت سے آگاہی نہیں تھی۔ یہ بھی کہاجاتاہے کہ امریکا کے صدر کے عہدے کی بے توقیری ٹرمپ نے کی۔ اس حوالے سے ٹرمپ کا موازنہ پچھلے صدور سے کیاجاتاہے۔ جارج بش ہوں یا باراک اوباما‘ جتنے بھی سمجھدار ہوں اُنہوں نے امریکا کو فضول کی جنگوں میں دھکیل کے خود امریکا کانقصان کیا اورمتعدد ممالک کی تباہی کا باعث بھی بنے۔ اگر جارج بش نے افغانستان اور عراق میں تباہی پھیلائی تو اوباما کی وجہ سے لیبیا تباہ ہوا اورشام کی خانہ جنگی میں شدت آئی۔ ٹرمپ نے اسرائیل کو خوش کرنے کیلئے کئی اقدامات کئے۔ ٹرمپ ایران کے خلاف تھا اور ایران سے نیوکلیئر معاہدہ ختم کیا۔ اُن کے ایسے اقدامات پہ تنقید کی جاسکتی ہے لیکن وہ کسی ملک کی تباہی کا سبب نہیں بنا۔ یہ بہت بڑی بات ہے لیکن امریکا میں جتنا اس کا اعتراف ہونا چاہیے ایسا نہیں ہے۔ امریکی ووٹر کے سامنے دو بڑے ایشوز تھے‘ معیشت اور COVID-19۔ باہر کے ملکوں میں امریکی فوجی مداخلت سے پیدا شدہ تباہ کاریوں سے عام امریکی ووٹر کو زیادہ غرض نہیں۔
ایک اورمسئلے پہ ٹرمپ کی پالیسی بڑی واضح تھی۔ بہت سارے پڑھے لکھے امریکیوں نے روس کو امریکا کا دشمن بنایاہواہے حالانکہ موجودہ وقت میں روس امریکا کیلئے کوئی خطرہ نہیں رہا۔ امریکا کو اصل خطرہ ہے تو چین سے جوکہ اُبھرتا ہوا سپر پاور بن رہاہے اور جس میں امریکا کے ساتھ مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت موجودہے۔ ہر گزرتے دن چین کی اس صلاحیت میں اضافہ ہورہاہے۔ لیکن جب ٹرمپ صدر بنے تو بیشتر امریکی چین کے بارے میں تقریباً غافل تھے اورٹارگٹ بنایا ہواتھا روس کو۔ ٹرمپ نے اپنے پور ے چار سال چین کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے گزارے۔ اگر چین کے حوالے سے امریکی سوچ میں تبدیلی آئے تو اس کا بڑا کریڈٹ ٹرمپ کو جانا چاہیے۔
جس طریقے سے ٹرمپ نے شمالی کوریا کے لیڈر کِم جونگ اُن کو ہینڈل کیا اورکوئی امریکی صدر نہیں کر سکتا تھا۔ دو بار شمالی کورین لیڈر سے ملے اور مذاکرات کیے۔بڑی حد تک مذاکرات بے سُود رہے اور اُن سے کچھ نہ نکلا لیکن ایک بات تو واضح ہے کہ شمالی کوریا کی طرف سے جنگجویانہ آوازوں اور حرکتوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔ ایٹم بم اور میزائل شمالی کوریا کے پاس اب بھی ہیں لیکن جو بخا ر امریکا کو شمالی کوریا کی وجہ سے چڑھا ہواتھا اُس میں کمی آئی ہے۔
کھانا پینا بھی ٹرمپ کا عجیب ہے۔ برگر شوق سے کھاتے ہیں اورمے نوشی کبھی نہیں کی۔ خواتین کے بارے میں اُن کے کئی جملے ایسے ہیں کہ کوئی اورسیاست دان کرتا تو مارا جاتالیکن ٹرمپ ہیں کہ اُن کی ایسی حرکتیں بھی نظر انداز کردی جاتی تھیں۔