"AYA" (space) message & send to 7575

پریشانی کے اسباب

کوئی سوچ سکتا تھا کہ یہ بھی دن آئیں گے؟ عقل کے ٹھیکیدار مارے مارے پھر رہے ہوں گے۔ ایک اذیت وہ جس سے شہباز گل اور اعظم سواتی گزرے لیکن یہ اذیت کم ہے کہ آنکھیں غصے سے بھری ہوں اور آپ کو غصہ پینا پڑے۔ شہباز گل اور اعظم سواتی نہتے تھے۔ عمران خان کا پرابلم یہ ہے کہ عوام ساتھ کھڑے ہیں‘ یہی پریشانی کا باعث ہے۔
کچھ سمجھنے میں بھی دشواری ہوئی‘ جن کو سمجھنا چاہیے تھا سمجھ نہ سکے کہ حالات بدل چکے ہیں۔ یہ وہ زمانہ نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو پر 302 کا مقدمہ درج کرکے انہیں اندر کر دیا جائے۔ موافق جج صاحبان تھے اُنہوں نے وہ فیصلہ دیا جو تب کے حکمران چاہتے تھے۔ وہ زمانہ ہوتا تو رونا کیا تھا‘ عمران خان کا بھی وہی حشر ہوتا جو بھٹو کا ہوا تھا لیکن وہی بات غالبؔ والی کہ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔ یہاں دَم نہیں نکل رہا لیکن پریشانی عیاں ہے۔ ان کو سمجھ نہیں آ رہی کہ کریں کیا۔ فضول کے بیانات سے ماحول آلودہ ہے‘ جس کا دل کرتا ہے بے تکا سا فائر کر دیتا ہے لیکن بنیادی مسئلے کا کوئی حل نہیں کہ عوام کی بھاری اکثریت عمران خان کے ساتھ ہے۔ ایک کال پر بڑے شہروں میں لوگ باہر نکل آتے ہیں۔ لبرٹی چوک لاہور کہاں عوامی اجتماع کا مرکز تھا؟ لیکن بن چکا ہے۔ جب بھی پی ٹی آئی کی طرف سے اعلان ہوتا ہے کیا منظر وہاں سج جاتا ہے۔ اور پچھلے دنوں تو لاہور میں عجیب کیفیت طاری ہوئی جب مجمع گورنر ہاؤس کے سامنے اکٹھا ہوا اور اگلوں کو یہ ڈر کھانے لگا کہ کہیں مجمع ایئر پورٹ کی طرف نہ چل پڑے۔
بات عمران خان کی ذات سے آگے نکل چکی ہے۔ سوال یہاں یہ نہیں کہ عمران خان اچھا ہے یا برا‘ اُس کی خوبیاں اور خامیاں کیا ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جن کو کبھی کچھ کہا نہیں جا سکتا تھا پہلی بار اُن کو بہت کچھ سننا پڑرہا ہے۔ عمران خان جو کہہ رہا ہے‘ پہلے کس میں ہمت تھی کہ اِس بے باک طریقے سے کہہ سکے۔ بھٹو کا حشر تاریخ کا حصہ ہے۔ نواز شریف کی جھاگ جی ٹی روڈ کا فاصلہ طے نہ کر سکی۔ داتا دربار پہنچے توجھاگ اور ہمت دونوں بیٹھ چکے تھے۔ عمران خان جو کررہا ہے کوئی نہ کر سکا۔ پہلے ون پیج کو خوب استعمال کیا اور اس انداز سے کیا کہ اگلوں کو سمجھ نہ آئی کہ اُن کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ اور اب کھلم کھلا برسرِ پیکار ہے اور وہ کچھ کہہ رہا ہے کہ سامنے مخاطب ذہنوں نے کبھی سوچا نہ تھا کہ اُنہیں ایسی باتیں سننا پڑیں گی۔
البتہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ سب کھیل ہے۔ پاکستان میں جوکچھ ہورہا ہے اُس کا مفہوم نہایت سنجیدہ ہے۔ ایک نظریاتی جدوجہد اٹھ کھڑی ہوئی ہے جس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اس ملک پر حاکمیت کس کی چلنی ہے۔ آئینی اداروں کی یا پس پردہ عناصر کی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان کا بنیادی مسئلہ یہی ہے اور تمام تر کاوشوں کے باوجود یہ مسئلہ حل نہیں ہو پا رہاکیونکہ کرپشن کی ماری سیاسی پارٹیوں میں وہ دم خم نہیں کہ اس سوال کو اٹھا سکیں۔ اس لیے آئینی اداروں کے ہوتے ہوئے بھی مرضی اور منشا کسی اور کی چلتی تھی۔ عمران خان نے اس غیر تحریر شدہ اصول کو چیلنج کیا ہے اور اگلوں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ انہیں کیا کرنا ہے۔ ایسی کنفیوژن کبھی پہلے نہ دیکھی تھی۔
ہم جیسوں کو عمران خان کی ذات سے کوئی سروکار نہیں۔ دورانِ اقتدار ہم جیسوں کو اُن کی سیاست اچھی نہیں لگتی تھی۔ ان کی روزمرہ کی تقریروں سے ہم اکتا گئے تھے لیکن سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عمران خان ہٹائے گئے تو پاکستانی سیاست کا نقشہ یکسر بدل گیا۔ اقتدار میں رہتے تو مزید غیرمقبول ہو جاتے۔ یہ قدرت کا کرنا ہے کہ عقلوں پر پردے پڑ گئے اور جنہیں سمجھنا چاہیے تھا‘ سمجھ نہ سکے کہ حکومت ہٹانے کے بعد قومی منظر نامہ کیا شکل اختیار کر جائے گا۔ البتہ منظر نامے کے تبدیل ہونے کی بڑی وجہ ایک ہی تھی کہ عمران خان احتیاط کے تمام تقاضوں کو ایک طرف کرتے ہوئے میدان میں نکل آیا اور اُن کو للکارنے لگا جو اس چیز کے عادی نہ تھے۔ اسی دلیری کی وجہ سے عوام عمران خان کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ بزدل ہوتا یا بکری بن جاتا یا کہیں لندن بھاگ جاتا تو کس نے ساتھ کھڑا ہونا تھا۔ دونوں چیزیں کمال کی تھیں‘ ایک دلیری اور دوسری عوامی جذبات کی شدت۔
ہم جیسے ایک اور وجہ سے خوش ہیں۔ پاکستان کے سیاسی حالات میں کوئی توازن نہیں رہا تھا۔ چیزیں ایک طرف جھک گئی تھیں۔ عمران خان کی جدوجہد‘ اس کے جلسے اور بیانات‘ اس غیرمتوازن صورتحال کو درست کرنے کی ایک کوشش ہے۔ یہ جو وفاقی حکومت میں بیٹھے ہیں یا جنہیں بٹھایا گیا ہے‘ ان کی کیا حیثیت ہے؟ جس بڑی نظریاتی جدوجہد نے زور پکڑ لیا ہے اُس سے لائے گئے حکمرانوں کا کوئی تعلق نہیں۔ پرانے گرامو فون ریکارڈوں پر کیا لکھا ہوتا تھا؟ ہز ماسٹرز وائس۔ یہ اوروں کی آوازیں نکالتے ہیں۔ جدوجہد ان میں اور عمران خان میں نہیں‘ جدوجہد عمران خان اور طاقتور ہاتھوں کے درمیان ہے۔
اگلے پریشر میں آ چکے ہیں اور یہ قدرتی امر ہے۔ جب کچھ سمجھ نہ آ ئے تو انسان پریشر میں آ جاتا ہے لیکن قومی مفاد کا تقاضا ہے کہ یہ پریشر سے نکلیں اور ملکی مفاد کا سوچیں۔ پاکستان کی بہتری اسی میں ہے کہ بے جا کی مداخلت ختم ہو۔ یا تو اس مداخلت سے کوئی فائدہ پہنچا ہو‘ پاکستان سنگاپور یا جنوبی کوریا بن گیا ہو‘ پھر تو بات اور ہے لیکن ہم نے دیکھ لیا کہ اس غیر ضروری چودھراہٹ نے ملک کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ بطورِ قوم ہم کہاں پہنچ چکے ہیں؟ برے سیاسی حالات بری معاشی صورتحال‘ کہیں بھی ڈھنگ کا کام نہیں ہو رہا لیکن بے جا کی چودھراہٹیں چلانے کا عزم زندہ و تابندہ ہے۔ بہرحال اب سوال اٹھائے جا رہے ہیں‘ ایسے سوال جو کبھی پہلے نہ اٹھتے تھے۔ اور پریشانی کا عالم دیکھیے‘ جن کا کام پریس کانفرنسوں سے خطاب کرنا نہیں وہ بھی پریس کانفرنسوں پر اتر آئے ہیں۔ اگر کوئی پوچھے کہ میڈیا سے مخاطب ہوکر کیا حاصل کیا تو جواب نہیں ملے گا کیونکہ اس سوال کا جواب ہے نہیں۔
ہم جیسے سیاست سے لاتعلق ہوتے جا رہے تھے کیونکہ ہم سمجھتے تھے کہ یہاں کچھ نہیں ہونا‘ کسی چیز نے نہیں بدلنا‘ بس پرانی ڈگر پر قوم چلتی رہے گی۔ لیکن آفرین اُس جَھک پر جو اپریل کے مہینے میں ماری گئی۔ ہرچیز کو اُس نے بدل کر رکھ دیا۔ عمران خان اقتدار میں رہتا تو وہی گھسی پٹی باتیں ہمیں سننے کو ملنی تھیں۔ زبردستی اقتدار سے نکالا گیا تو ایک جنگجو عمران خان سامنے آیا اور اُس نے ہرچیز کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔ عوام بھی شاید اسی انتظار میں تھے کہ کوئی تو ہو جس میں ہمت ہو کہ سٹیٹس کو کو چیلنج کرے۔ خان کی دلیری دیکھتے ہوئے عوام کی ہمت بھی بندھ گئی۔ اور ایسی بندھی کہ اب عوام کو دبانا آسان نہیں۔
ہوش کے ناخن لینے کا وقت آن پہنچا ہے۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ اقتدار کی پرانی روایات برقرار رہ سکتی ہیں۔ اس کالم میں پہلے بھی عرض کیا جا چکا ہے کہ یہ میانمار یا مصر نہیں۔ شہسواری کا زمانہ جا چکا‘ پرانے جھرلو اب چلیں گے نہیں‘ سب جانتے ہیں کہ اس بڑھتے ہوئے بحران کا ایک ہی حل ہے‘ انتخابات۔ مصیبت یہ ہے کہ دلوں میں خوف بیٹھ چکا ہے کہ الیکشن میں خان سٹیم رولر پھیر دے گا۔ اب سنبھالا نہیں جا رہا‘ جب پارلیمانی طاقت اس کے ہاتھ میں آ گئی پھر کیا ہوگا؟ اس ڈر سے ٹانگیں کانپ رہی ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں