ہمارا پرابلم ہمارے حالات ہیں اور یہ امریکہ یا کسی اور ملک نے پیدا نہیں کیے۔ ان حالات کے بنانے والے ہم خود ہیں۔ حقیقی آزادی کا نعرہ جو سیاسی میدان میں لگ رہا ہے اس سے زیادہ فضول کوئی نعرہ ہو نہیں سکتا۔ حقیقی آزادی کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اکڑتے پھریں اور اپنا مکا لہرائیں۔ تیسری دنیا میں ایسی بڑھکوں والی آزادی کے دعویدار بہت رہے ہیں اور سارے کے سارے پرلے درجے کے ناکام رہے ہیں۔ پہلے کوئی یہ تو بتائے کہ حقیقی آزادی کے معنی کیا ہیں۔ نجی زندگی میں وہ انسان آزاد ہے جس کے اخراجات آمدنی کے بیچ میں ہوں۔ جو آدمی پڑوس کی دکان سے ادھار کے سودے پر گزارہ کرے کیا ہم اُسے آزاد کہیں گے؟ ملکوں کا بھی یہی حال ہے‘ وسائل کم ہوں اور اخراجات زیادہ‘ پھر بڑھکیں یا نعریں کام نہیں آتے۔
انڈونیشیا کے صدر کا نام جوکوویدودو ہے۔ پہلے بھی پانچ سال صدر رہے ہیں اور یہ اُن کی دوسری ٹرم ہے جوکہ 2024ء میں ختم ہوگی۔ میں یہ پڑھ کر حیران ہو گیا کہ ان آٹھ سالوں میں صدر ویدودو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ایک مرتبہ بھی شریک نہیں ہوئے۔ اپنے وزیرِخارجہ کو بھیجتے رہے ہیں اور وہ اس بنا پر کہ میں نے وہاں جاکر کیا کرنا ہے؟ مجھے حاصل کیا ہوگا؟ ہمارے لیڈر دیکھ لیں‘ سمجھتے ہیں کہ دنیا اُن کی بے معنی باتوں کو سننے کیلئے بے تاب ہے۔ عمران خان ہوں یا نواز شریف‘ بھاگے چلے جاتے ہیں وہاں۔ اور جب بے معنی سی تقریر وہاں ادا ہوتی ہے تو زور زور سے کہا جاتا ہے کہ اس دفعہ کشمیر کا کیس بہت عمدہ طریقے سے عالمی برادری کے سامنے پیش کیا گیا۔ گھر کے حالات سے صحیح طور پر نمٹا نہیں جاتا اور وعظ و نصیحت دنیا کو کرنے نکلتے ہیں۔
صدر ویدودو کے بارے میں یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنے دورِ اقتدار میں اُنہوں نے دو ہی ترجیحات پر زیادہ زور دیا: انویسٹمنٹ اور ٹور ازم۔ یعنی باہر کے ممالک زیادہ سے زیادہ انڈونیشیا میں انویسٹ کریں اور دنیا کے زیادہ سے زیادہ سیاح انڈونیشیا کی سیر کو آئیں۔ انڈونیشیا نے ابھی جی 20سمٹ کی میزبانی کی ہے جس میں دیگر لیڈران کے علاوہ صدر جوبائیڈن اور چینی لیڈر شی جن پنگ نے بھی شرکت کی۔ ایک لمبے وقفے کے بعد امریکی اور چینی لیڈران ایک دوسرے سے ملے اور اُن کے مصافحے کی تصاویر ہم میڈیا میں دیکھ چکے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ترقی کے لحاظ سے انڈونیشیا صفِ اول کے ممالک میں آن پہنچا ہے لیکن اتنا تو پتا چلتا ہے کہ انڈونیشیا ایک چلتا پھرتا ملک ہے جسے دوسرے ممالک سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ اب اچھا نہیں لگتا اپنے آپ کو کوسنا لیکن اپنی حقیقت ہم جانتے ہیں۔ اپنے حالات کا ہم نے ستیاناس کردیا ہے۔
ہمارا امیج یہ بن چکا ہے کہ یہ ٹھیک چلنے والا ملک نہیں اور اس کا پہلا اور آخری کام ہاتھ پھیلانا ہے۔ ہمیں کسی اتاترک یا صلاح الدین ایوبی کی ضرورت نہیں۔ بس کوئی نارمل لیڈر مل جائے جس کی ترجیح بس اتنی ہو کہ وہ نارمل کام کرے۔ بڑھکوں سے زیادہ اس بات پر زور دے کہ پاکستان میں انویسٹمنٹ آئے اور ٹورازم کو فروغ ملے۔ مانا کہ ہمارے معاشی حالات خراب ہیں لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں ہونا چاہیے کہ بس کشکول اٹھا کے کبھی یہاں بھاگیں کبھی اُس کے در پر جائیں۔ اگلے بھی ہمارا رویہ دیکھ کر تنگ آچکے ہیں۔
یہ جو ہمارے حالیہ مسیحا اسحق ڈار ہیں‘ ان کو دیکھ لیجئے۔ آپ مشکل صورتحال میں وزارتِ خزانہ کا قلم دان سنبھالنے آ رہے تھے۔ تھوڑا آہستہ سے آتے اور اپنا کام شروع کرتے۔ لیکن پہنچے نہیں تھے اور بڑھکیں پہلے شروع ہو گئیں کہ میں جانتا ہوں آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات کیسے طے کرنے چاہئیں۔ ہم یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے‘ فلاں سمت سے پیسے آئیں گے۔ ایک سال میں حالات ٹھیک ہو جائیں گے اور پھر سیاسی حالات بھی درست ہو جائیں گے۔ باتیں اس انداز کی‘ کام دھیلے کا نہیں اور اب خیال آتا ہے کہ تلاشِ گمشدہ کا اشتہار دینا پڑے گا کہ اسحق ڈار صاحب گم کہاں ہیں۔
اور یہ صرف ان کے بارے میں نہیں ہے‘ یہ ہمارا قومی مرض لگتا ہے کہ سب گفتار کے غازی اور کام جو ہے ٹھنڈا ٹھنڈا۔ عمران خان کے بارے میں یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ ملک کے سب سے پاپولر لیڈر تو ہو گئے ہیں اور مجھے یہ بھی یقین ہے کہ کوئی بھی اُن کی راہ روکے‘ ایک بار پھر اقتدار میں اُنہوں نے آنا ہے لیکن جب ایسا ہوا تو کیا جن بھاری چیلنجوں کا پاکستان کو سامنا ہے اُن کو وہ مل پائیں گے؟ اُن کے اردگرد آدمی وہی ہیں‘ وہی ٹیم ہے‘ کیا ضمانت ہے کہ ایک بار پھر اقتدار میں آئے تو کارکردگی مختلف یا بہتر ہوگی؟ کرپشن کا ورد ہم بہت سن چکے۔ جوکچھ اُنہوں نے لیڈروں کی چوری چکاری کے بارے میں کہا اچھا کہا اور درست کہا۔ قوم کی تربیت ہو گئی ہے‘ قوم جان گئی ہے کہ ماضی کے لیڈران کے کرتب کیا رہے ہیں۔ اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ نون لیگ کی سیاسی پوزیشن بری طرح متاثر ہوئی ہے اور پنجاب میں اُس کی وہ ساکھ نہیں رہی جو کچھ عرصہ پہلے سمجھی جاتی تھی۔ لیکن کتنا عرصہ یہ کرپشن کی داستان چلائی جا سکتی ہے؟ کچھ آگے بھی تو کہنا چاہیے۔ کچھ اپنی تیاری ہونی چاہیے کہ پھر موقع ملا تو ہماری ٹیم کون سی ہوگی اور ہم نے کیا کرنا ہے۔
یہ ہم سب کو پتا ہے کہ اقتدار میں عمران خان آئے تھے تو اُن کی اور اُن کی پارٹی کی بالکل تیاری نہ تھی۔ جمتے جمتے اُن کو عرصہ لگ گیا اور اس کا نقصان معاشی محاذ پر ہوا۔ روپے کی قدر ضرورت سے زیادہ گر گئی اور اس انداز سے گری کہ پھر سنبھالی نہ گئی۔ پی ٹی آئی کی یہ تیاری بھی نہ تھی کہ ہمارا وزیرخزانہ کون ہوگا۔ جن کو پہلے لگایا گیا وہ اس شعبے میں خاصے ناسمجھ ثابت ہوئے۔ اس سے انکار ممکن نہیں کہ اقتدار سے نکالے جانے کے بعد عمران خان نے بہت ہمت اور جانفشانی سے کام لیا ہے۔ اسی وجہ سے عوام کا بہت بڑا حصہ اُن کے ساتھ ہے۔ اُن کی ایک کال پر لوگ باہر آ جاتے ہیں۔ یہ بہت بڑا کارنامہ ہے لیکن آگے کا مرحلہ اس سے زیادہ کٹھن ہے۔ مزاحمت کی تحریک اجاگر کرنا اور پھر اُسے زندہ رکھنا آسان کام نہیں لیکن حکمرانی بھی آسان مشغلہ نہیں۔ اس کے لیے سوچ اور ہمت چاہیے۔ ہمت وہ کام آتی ہے جو سوچ کے تابع ہو۔ سوچ پیدا کرنا اتنا آسان نہیں۔
عمران خان نے اپنا سکہ منوا لیا کہ وہ ملک کے سب سے مقبول لیڈر ہیں‘ عوام اُن کے ساتھ ہیں۔ لیکن اب ایک قدم آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ الیکشن سے یہ کہاں بھاگیں گے‘ اگلے سال کسی نہ کسی وقت انہیں کرانے پڑیں گے اور الیکشن جب بھی ہوئے عمران خان کی جیت یقینی ہے۔ لیکن اُس کے بعد کیا؟ یہ سوال ذہنوں میں کھٹکتا ہے۔ بنگلہ دیش بننے کے بعد شیخ مجیب الرحمن کو پہلے انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل ہوئی تھی لیکن اقتدار کی ذمہ داریوں کیلئے وہ تیار نہ تھے اور بنگلہ دیش اندرونی خلفشار کا شکار ہو گیا۔ آج بنگلہ دیش نے اپنے حالات سنبھال لیے ہیں لیکن میں پرانی بات کررہا ہوں۔ مصر میں جمال عبدالناصر نہایت ہی مقبول لیڈر تھے اور آج بھی اُنہیں لوگ یاد کرتے ہیں لیکن اُن سے بہت غلطیاں بھی ہوئیں۔ یہاں بھی یہی فکر رہتی ہے کہ پاپولر لیڈر تو مل گیا لیکن حکمرانی کے تقاضوں پر پورا اترتا ہے یا نہیں۔ مقبولیت کی جنگ تو جیت لی لیکن حکمرانی کی تیاری بھی نظر آنی چاہیے۔