کسی گاؤں میں پٹواری کی تعیناتی لمبے عرصہ تک رہے تو خلقِ خدا تنگ پڑ جاتی ہے۔ کسی تھانے میں کئی سال تھانیدار رہے تو لوگ بڑبڑا اٹھتے ہیں۔ آخر ایک ہی چہرہ اور ایک ہی قسم کی باتیں انسان کتنی دیر برداشت کر سکتا ہے؟ پٹواریوں اور تھانیداروں کے خلاف کم از کم آپ بول سکتے ہیں‘ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے کارنامے کس نوعیت کے ہیں۔ لیکن جہاں مکمل زبان بندی ہو جائے اور پیچھے اعظم سواتی‘ شہباز گل اور دیگر کئی لوگوں کے ساتھ جو ہوا اُس قسم کا حشر کرنے کی صلاحیت ہو تو انسان کی بے بسی ایک عجیب نوعیت اختیار کر جاتی ہے۔
پٹواری کے خلاف آپ بات کریں تو چلیں بوقتِ ضرورت آپ کا کام نہیں ہوگا‘ تھانیدار کی شکایت کریں تو آپ تھانے جانا بند کردیں گے لیکن یہاں تو قصہ ہی اور ہے۔ فوراً سے پہلے الزام لگ جاتا ہے۔ ماحول ایسا ہے کہ گفتگو کرنی بھی ہو تو اشارے کنائیوں میں کرتے ہیں۔ کبھی ادارے‘ کبھی مقتدرہ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ باقی ممالک میں ایسا نہیں ہوتا۔ قانوناً اور روایتاً ادارے سیاسی معاملات سے دور رہتے ہیں تو تنقید سے بھی بچے رہتے ہیں۔ یہاں نہ صرف مداخلت کرنی ہے بلکہ اس کو حق سمجھنا ہے۔ ہر بات میں اپنی رائے منوانی ہے‘ ڈوریاں کھینچنی ہیں اور مجال ہے کہ کوئی انگلی اٹھائے یا بات کرے۔ یعنی سب کچھ کرنا ہے لیکن تنقید برداشت نہیں۔
بہرحال معاشروں کے ارتقا کا طریقہ اپنا ہوتا ہے۔ یہاں جو مقدس بھینسیں تھیں اُن کا نام کبھی لیا نہیں جاتا تھا لیکن یہ ماحول مشرف کے دور میں تبدیل ہوگیا۔ایک بات اُس جرنیل میں تھی کہ وہ ہرچیز پر بپھر نہیں جاتا تھا۔ جس خندہ پیشانی سے اُس نے تنقید برداشت کی وہ نہ اُس کے پیشرو اور نہ ہمارے جمہوریت کے علمبردار کرسکتے تھے۔ بہرحال کچھ ماحول تو بدلااور جنہیں ہم ادارے کہتے ہیں اُن کی ساکھ تب بحال ہوئی جب سوات اور جنوبی اورشمالی وزیرستان میں امن قائم ہوا اور کراچی میں ایم کیو ایم کی اجارہ داری ٹوٹی۔لیکن پچھلے چھ سال میں جو صورتحال رہی یہ ہماری قومی تاریخ کا انوکھا باب ہے۔اور یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ جنہیں وقت پر چلا جانا چاہئے تھا اُن کو ضرورت سے زیادہ رکھا گیا۔
ہردوا کی ایک ایکسپائری ڈیٹ ہوتی ہے۔ انسانوں کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ ان کی بھی ایکسپائری ڈیٹ ہوتی ہے‘ جب اُن میں پہلی والی پھرتی اور تندرستی نہیں رہتی‘لیکن ہماری مملکت خداداد میں عجیب روایت بن چکی ہے کہ بندے کی افادیت جا چکی ہے لیکن آ پ نے کرسی پہ بٹھایا ہوا ہے اور وہ بھی کرسی نہیں چھوڑنا چاہتا۔نئی سوچ ذہن میں رہی نہیں۔ نئے انداز سے کام کرنے کی صلاحیت جا چکی لیکن آپ لٹکائی جا رہے ہیں اور وہ بھی لٹکائی کے مزے لے رہے ہیں۔ اشفاق پرویز کیانی صاحب کو دیکھ لیں‘پہلے تین سال اچھے لگتے تھے لیکن جب تین سالہ توسیع ملی تو بھاری لگنے لگے۔کئی داستانیں رقم ہونا شروع ہو گئیں۔یہی معاملہ باجوہ صاحب کا ہے۔ نمبر ایک پر نام ان کا نہ تھا لیکن جیسے بھی ہوا‘ ان کی قسمت نے یاوری کی اور بڑے عہدے کے لیے چن لیے گئے۔ تین سال ایسے بڑے عہدے پر کافی سمجھا جانا چاہئے۔ ہندوستان میں یہ رواج ہے‘ تین سالہ ٹرم پوری ہوئی اور تبدیلیٔ کمان ہو گئی۔یہاں ہمارے نکھٹو حکمران اپنے مفاد کا ایک تصور قائم کرلیتے ہیںجس کے تحت وہ اسے بڑی عقلمندی سمجھتے ہیں کہ جو اعلیٰ کمان پہ بیٹھا ہوا ہے اُسے توسیع دے دی جائے۔باجوہ صاحب کو بھی توسیع مل گئی حالانکہ سوچتے ہوں گے کہ تین سال پر ہی اکتفا کرتے تو بہتر تھا۔جو کہانیاں سامنے آ رہی ہیں یہ زیادہ تر اسی وجہ سے ہیں۔اس میں ہمارے طرم خان کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔
کرکٹ ٹیم کی کپتانی سے لے کر اب تک ان کے بارے میں مشہور ہے کہ کسی کا لحاظ نہیں کرتے۔ اچھی بات ہے‘ نہیں کرنا چاہئے لیکن جب باجوہ صاحب کے تین سال پورے ہوئے تو انہی عمران خان نے نہ صرف توسیع دے دی بلکہ قومی اسمبلی سے باقاعدہ قانون سازی کرائی گئی کہ تین سالہ توسیع مل سکتی ہے اور اگر عمر اجازت دے تو توسیع کو بڑھایا بھی جاسکتا ہے۔جس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے تو محض روایت تھی کہ چلیں فلاں کو توسیع مل رہی ہے لیکن اب تو باقاعدہ قانون میںدرج ہو گیا ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے۔کسی اور ملک میں ایسا قانون موجود نہیں لیکن ہمارے کام انوکھے اور نرالے ہوتے ہیں۔ آئندہ انتخابات میں عمران خان کو کامیابی نصیب ہوئی تو پہلا کام اس توسیع والے قانون کو ختم کرنے کا ہونا چاہئے۔
فیلڈ مارشل ایوب خان کی توسیع کے نتائج قوم بھگت نہیں چکی؟ جنرل ضیاء الحق کی توسیع کی کرامات ہم دیکھ نہیں چکے؟ جنرل پرویز مشرف کی طویل کمان کا شاخسانہ ہم آزما چکے۔ گزرے ہوئے تباہ کن لمحات سے ہم کب سبق سیکھیں گے؟ ویسے ہی یہاں کی سیاست اور جمہوریت لولی لنگڑی ہے‘ بیساکھیوں کے بغیر چل نہیں سکتی۔ اوپر سے طاقت کا توازن اتنابگاڑ دیا گیا ہے کہ جمہوریت اور سیاست کو سنبھلتے سنبھلتے سو سال لگ جائیں گے۔ایک اور بات بھی ذہن نشیں رہے کہ اگر کوئی نپولین یا اس کا ہم پلہ ہو تو ہم کہیں لیکن صورتِ حال ایسی بھی نہیں۔ ٹھیک ہے نصیب ان کے اچھے کہ اوپر آ گئے لیکن ایک میعاد تک رکھیں اور پھر جانے دیں۔
پرانی جرمن اور برطانوی افواج میں آپ کو بڑے بڑے دانشور قسم کے جرنیل ملتے ہیںجنہوں نے جنگوں میں کمان کی اور پھر بڑی عمدہ کتابیں بھی لکھیں۔ایسی کوئی روایت یہاں نہیں رہی۔ میں تو فرسٹ ہینڈ تجربے کی بنیاد پر یہ بات کہہ رہا ہوں کیونکہ کاکول اکیڈمی میں دو سال میں بھی رہا اور وہاں دانشوری کا کیا معیار تھا اُسے قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔یہاں تک بات رہے تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن پاکستان کی ہیئت ایسی بن چکی ہے کہ حکمرانی بھی طاقتوروں کے ہاتھ لگ گئی ہے۔ اور اس سے ملک کی تباہی ہوئی ہے۔ حکمرانی کے تقاضے اور ہوتے ہیںاور حکمرانی کے لیے سمجھ کسی اور قسم کی درکار ہوتی ہے۔
یہی ہمار امخمصہ ہے‘ جن سیاسی گروہوں نے ضیا آمریت کی کوکھ سے جنم لیا اُنہوں نے سکیورٹی اور عسکری معاملات تو اداروں کے سپرد کئے اور اپنے آپ کو کاروباراور دولت کمانے کیلئے وقف کردیا۔پھر ہم کہتے ہیں ملک کو کیا ہو گیا ؟ کہاں پھنس گیا ہے؟ ترقی یہاں کیوں نہیں ہوتی؟ جن کا کام حکمرانی نہیں وہ ملک کی سمت درست کرنے بیٹھ جائیں اور جنہیں بہتر حکمرانی کرنی چاہئے وہ پیسے بنانے میں مصروف ہو جائیں تو قوم نے خاک ترقی کرنی ہے؟
راتوں رات ایسے مخمصوں نے حل نہیں ہونا۔ ہمارا سفر لمبا ہے اور منزل بہت دور۔لیکن کچھ شروعات تو کریں اور پہلا اصول یہ وضع ہونا چاہئے کہ ہر ایک کو اپنے کام سے کام رکھنا چاہئے۔ خوامخواہ کی مداخلت‘ ہرشعبے میں بلا وجہ تھانیداری‘ اسے ختم ہونا چاہئے۔اور یہ جوباجوہ صاحب1971ء کی تاریخ درست کرنے بیٹھ گئے یہ بے وقت کی راگنی کا مشورہ کہاں سے آیا؟