شرط یہ ہے کہ آمدن مناسب ہو جس کا یہ مطلب نہیں کہ کروڑوں میں ہو‘ بس مہینے میں اتنے پیسے آ جائیں جس سے گھر کے اخراجات پورے ہوں اور تھوڑا پیسہ فضولیات کیلئے بچ جائے۔مہنگائی کے باوجود کئی لحاظ سے اب بھی یہ سستا ملک ہے۔ یعنی تھوڑے پیسوں میں جو یہاں ملازم مہیا ہوسکتے ہیں وہ باہر کی دنیا میں کہاں؟میری آمدنی مناسب ہے ، اس لحاظ سے امیر کبیر نہیں لیکن شہر اور دیہات‘ دونوں میں کام کرنے کیلئے لوگ موجود ہیں۔
دل چاہتا ہے کہ نئی گاڑی ہو ، شاید وہ بھاری بھرکم گاڑی افورڈ نہ کرسکوں لیکن ایک پرانی کھٹارا ہے جس میں آتے جاتے ہیں اور ساتھ میں ڈرائیور بھی ہوتا ہے کیونکہ ڈرائیوکرنا پسندیدہ مشغلوں میں نہیں۔عادت بن چکی ہے کہ گاڑی میں کچھ پڑھائی ہوتی ہے یا نیندآغوش میں لے لیتی ہے۔راتوں میں جو نیند گم رہتی ہے وہ اس انداز سے پوری ہوجاتی ہے۔ زندگی میں البتہ ایک پرابلم ہے کہ دل گاؤں میں ہے لیکن کام کی غرض سے لاہور جانا پڑتا ہے۔لاہور کوئی کالاپانی تو نہیں لیکن ہرہفتے کی یہ مسافت کبھی بھاری لگتی ہے لیکن کوئی چارہ نہیں ، یہ مجبوری ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر اخراجات اتنے ہیں پورے نہ ہوسکیں۔بس چلے تو گاؤں میں ہی رہوں۔ ہفتے میں دوبار کالم لکھنا ہوتا ہے جو بہ آسانی گاؤں میں بیٹھ کر ہوسکتا ہے۔ یہ انٹرنیٹ اور ماڈرن ذرائع ابلاغ کا کمال ہے‘ نہیں تو جوانی میں کسی بڑے شہر میں رہنا صحافت کیلئے ضروری تھاکیونکہ اُس کے بغیر صحافت چل ہی نہیں سکتی تھی۔ پرانے وقتوں میں کالم کبھی گاؤں سے لکھنا پڑتا تو وختا پڑ جاتا۔ لکھے ہوئے کاغذ کو چکوال پہنچانا ہوتا اور پھر وہاں سے کاغذ فیکس ہوکر کراچی جاتا۔ کراچی کا ذکر اس لیے کہ جن طویل سالوں میں انگریزی کا کالم لکھا اُس اخبار کا تعلق کراچی سے تھا۔ اُس زمانے میں یہ تصور محال تھا کہ گاؤں میں بیٹھ کر بھی صحافت ہوسکتی ہے لیکن مولا کے رنگوں میں ایک رنگ یہ بھی ہے کہ ہم نے یہ تبدیلی اپنی زندگی میں دیکھی۔کہاں وہ فیکس والا زمانہ اور کہاں انٹرنیٹ اور دیگر سہولیات کی کرامات۔
پھر آپ پوچھیں گے لاہور کیو ں جاتے ہو؟ دو وجوہات ہیں، ایک تو ٹیلی وژن کا پروگرا م اور دوسرا چھوٹا بیٹا ہے جس کی اب تک تعلیم مکمل نہیں ہوئی۔ آخری سال ہے گزرگیا تو کہنے کی پوزیشن میں ہوں گا کہ ڈارلنگ کام ڈھونڈ سکتے ہو تو کرو نہیں تو چکوال آ جاؤ اور جیسے ایک پوری کھیپ نوجوانوں کی چکوال میں ملتی ہے جو کلف والے کپڑے پہن کر گاڑیوں میں ادھر اُدھر گھومتے ہیں اُن میں شامل ہو جاؤ۔خدا نہ کرے ایسا ہو ، نکموں کی کوئی کمی نہیں اس ملک میں اور نکموں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ اس ملک کے دیگر مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ ہے۔
بہرحال اب ہم سینئر سٹیزن کا درجہ حاصل کرچکے ہیں ، اب تو وہ زندگی گزارنی چاہئے جس کی مرضی و منشا ہو۔بس یہی ٹی وی والا کام ہے جو گاؤں سے ہو سکے تو زندگی میں اور آسانیاں پیدا ہو جائیں۔البتہ اس آپشن میں بھی ایک مسئلہ ہے کہ جب ٹی وی پروگرام کرنے آتے ہیں تواچھے چہروں کو دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔گاؤں کے ہی ہو کے رہ گئے تو پری چہروں کے نظاروں سے محروم ہو جائیں گے۔لہٰذا سوچتے ہیں کہ جو ہے بس ٹھیک ہے۔مسافت تو کرنی پڑتی ہے لیکن کچھ تبدیلی آ جاتی ہے۔ آدھا ہفتہ گاؤں کا رنگ اور مزہ بدلنے کیلئے شہرکی روشنیاں۔حالانکہ شہر کی روشنیاں پاکستان میں ایک بے معنی اصطلاح ہوکر رہ گئی ہے۔ کون سی یہاں روشنیاں ہیں ؟ پرانے لاہور کی یادیں دل میں اٹھتی ہیں تو ماتم کرنے کو دل چاہتا ہے۔کہاں اُس مال روڈ کی رونقیں اور کہاں آج کا ہجوم اور بے مزہ ماحول۔ بہرحال اس پر بھی کیا رونا۔ پرانے شہر وں کی رونقیں ہم نے تباہ کر دی ہیں اور پھر ہم پاکستان کی حالت پر روتے ہیں۔ جس ملک کے شہروں کی زندگی بے مزہ اور بے رونق ہوکر رہ جائے ایسے ملک میں تو زندگی کی رمق نہیں رہتی۔شاعری مر جاتی ہے ، موسیقی کا وہ معیار نہیں رہتا ، لوگوں کی چال ڈھال بدل جاتی ہے۔ اس معاشرے کے زوال کی داستان لمبی ہے لیکن ایک بڑی وجہ اس کے شہروں کا بے مزہ ہونا ہے۔ بس ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنائے جاؤ اور شہر بے ڈھنگے طریقے سے پھیلاتے جاؤ۔یہ ہمارا ترقی کا تصور ہے۔ ایک تو ویسے تعلیم کی کمی ہے اوپر سے ڈویلپمنٹ کا یہ ماڈل۔ شاپنگ مالز بن جائیں اور یہ جوفضول کے کھانے باہر کی فرنچائزز سے ملتے ہیں ، ہمیں سکھایا جا رہا ہے کہ یہی ترقی ہے۔چھوڑیں اس قصے کو۔
بڑی بات البتہ یہ ہے کہ ساری تباہی کے باوجود اس معاشرے میں پھر بھی بڑی خوبیاں ہیں۔ آمدنی والی بات جو میں نے کی کہ تھوڑے سے معقول پیسے ہوں تو اس افراطِ زر کے دور میں بھی بڑا لمبا چل سکتے ہیں۔ جوانی میں اکثر دل کرتا تھا کہ بنکاک جائیں۔ سستے زمانے تھے اور روپے کی یہ بے توقیری نہیں تھی جو آج ہم دیکھتے ہیں۔ ایک روپیہ تھائی لینڈ کے ایک بھات کے برابر ہوا کرتا تھا۔ اس لحاظ سے بنکاک بہت سستا لگتا تھا اور گو اُس زمانے میں ذاتی آمدن کچھ زیادہ نہ تھی لیکن جو ایک آدھ بار بنکاک گئے توپیسے کے لحاظ سے کوئی خاص دقت نہ ہوئی۔ شاید عمرکا تقاضا ہے کہ اب بنکاک جانے کا دل نہیں کرتا۔ جس سیاحت کیلئے دنیا بنکاک کا رخ کرتی تھی پیسے ہوں تو ایسی سیاحت لاہور میں مہیا ہو جاتی ہے۔ ہاں کچھ خوار ہونا پڑتا ہے لیکن وہ پاکستانی کام بھی کیا جس میں خواری نہ ہو۔یہ ہمارے عظیم ملک کا امتیاز ہے کہ جو کام بھی ہو چاہے سرکاری چاہے نجی یا سیاحت سے متعلق اُس میں رسوائی کا عنصر ضرور شامل کرنا ہے۔پٹوار یا تھانے کا کام ہو اُس میں تھوڑی رسوائی اور ذلالت لازمی جز ہیں لیکن ہم اسے زندگی کا حصہ سمجھتے ہیں۔عقلمند لوگ سرکاری کام کروانے جا ئیں تو قائداعظم کی تصویر کی طرف ہاتھ پہلے جاتا ہے۔ اگلا یہ کہہ کر کہ اس کی ضرورت نہ تھی‘ چپکے سے قائداعظم کی تصویر جیب میں ڈال لیتا ہے۔ جب ہر کام میں یہ عنصر شامل ہو تو سیاحت خواری سے کیسے بچی رہے ؟
اسی لیے جب سوداگرانِ شب کو طلب کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے تو دو نمبری کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔کیسا مخمصہ ہے کہ بھاری رقم بھی ادا ہو اور سودے کی شفافیت کے بارے میں شک رہے۔ لیکن ایسی رسوائیوں سے ہمارا معاشرہ بھرا پڑا ہے۔ہرسودا بازار میں بکنا ہے ، ہرچیز کرنی ہے ، لیکن خواری کے ساتھ۔ اب تو حالت یہ ہو چکی ہے کہ سیدھا راستہ نظر بھی آئے تو ہم اُس پر چل نہ سکیں۔راستہ وہی دل کو بھاتا ہے جو ذرا ٹیڑھا ہو۔ ہرچیز میں شفافیت اور ایک نمبری ہو جائے تو ہم پریشان ہو جائیں۔ سرکاری یا نجی کاموں میں ایک نمبری کی توقع دل سے جا چکی ہے۔ سوداگرانِ شب کئی اقسام کے ہوتے ہیں اور یہ ٹھیک بھی ہے کیونکہ ضروریات ِ شب مختلف ہوتی ہیں۔ شام میں کام نہیں‘ سستانے کا سوچا جاتا ہے۔ دن میں کام اور شام کو آرام۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہاں آرام کے ہر کام میں دونمبری کا خدشہ رہتا ہے۔ لیکن پھر بھی کہیں گے کہ تجربہ ہو اور اِن راستوں پر آپ چلے ہوں تو جان پہچان ہو جاتی ہے، آسانیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔اگلے بھی کچھ لحاظ کرنے لگتے ہیں۔
اب بنکاک اور دبئی یہی ہمارا لاہور ہے اور جیسے شاعر نے کہا کہ جو چھجو کے چوبارے‘ وہ مزہ نہ بلخ نہ بخارے۔