جنرل ضیا الحق سے لے کر آج تک افغانستان میں ہم مذہبی کارڈ استعمال کرتے رہے ہیں اور وہ ہمارے لیے نقصان دہ ثابت ہوا ہے۔ جسے افغان جہاد کہا جاتا ہے وہ امریکی ڈالروں اور سعودی ریالوں سے چلا اور ہم بیچ میں بیوپاری تھے۔ اُس نام نہاد جہاد میں مذہبی سوچ رکھنے والی قوتیں پیش پیش تھیں۔ جنرل ضیا الحق کی سوچ بھی مذہبی رنگ رکھتی تھی۔ جنرل صاحب کا سیاسی اثاثہ تو کچھ تھا نہیں‘ اپنی سیاسی جگہ بنانے کے لیے اُنہوں نے مذہب کا عَلم بلند کیا۔ افغانستان کے حالات اُن کے لیے غنیمت ثابت ہوئے‘ امریکیوں نے اُنہیں اپنے قریب کر لیا اور یہاں ڈالر آنے لگے۔ نام نہاد جہاد سے پہلے ہمارا خزانہ خالی تھا‘ روسی فوج افغانستان میں آئی اور امریکی ردِعمل سامنے آیا تو ہمارے خزانے کی پوزیشن بہتر ہوتی گئی۔ جمہوریت پر ویسے تالے لگے ہوئے تھے‘ بس ہر چیزپر مذہب کا رنگ نمایاں ہونے لگا۔
نام نہاد جہاد شروع ہوا تو یہاں یہ سمجھا گیا کہ ایک تو مذہب کی خدمت ہو رہی ہے اور دوم‘ پاکستان کو بہت فائدہ پہنچ رہا ہے۔ افغانستان کے بارے میں سمجھا گیا کہ مذہبی قوتوں کی امداد کرکے پاکستان کی سٹرٹیجک گہرائی بڑھائی جا رہی ہے۔ یعنی ہمارے سٹرٹیجک ماہر یہ سمجھ بیٹھے کہ ہندوستان کے مقابلے میں ہماری گہرائی‘ جسے انگریزی میں Depth کہتے ہیں‘ بڑھ گئی ہے۔
اصل میں نتیجہ کچھ اور نکلا۔ افغانستان کے مسائل ہم نے اپنے اوپر بٹھا لیے اور ایسے بٹھائے کہ ہمارا معاشرہ بدل گیا۔ افغانوں کو ہم نے پاکستان میں کھلی چھٹی دے دی۔ جہاں اُن کا جی چاہا وہ آئے اور وہیں آباد ہو گئے۔ فاٹا کی شکل بدل گئی۔ پشاور کی آبادی راتوں رات دگنی ہو گئی۔ تیس سے چالیس لاکھ افغان پاکستان میں مہاجر بن کر آئے اور اُن میں سے بیشتر یہیں کے ہو کے رہ گئے۔ نام نہاد جہاد کی مہربانیوں کی وجہ سے ہمارا معاشرہ جدید اسلحے اور جدید نشوں سے روشناس ہونے لگا۔ یہاں کے لوگوں نے کلاشنکوف کبھی دیکھی نہ تھی‘ اس 'جہاد‘ کی وجہ سے کلاشنکوف ہمارے معاشرے کا حصہ بن گئی۔ برصغیر کے پرانے نشے شراب‘ افیون اور چرس ہوا کرتے تھے۔ ڈالروں پر چلنے والے جہاد کی وجہ سے ہمیں ہیروئن کا پتا چلا اور آج ہیروئن کا استعمال ہمارے ملک میں خاصا عام ہو چکا ہے۔
رجعت پسند اور قدامت پرست معاشرہ تو ہمارا پہلے ہی تھا‘ اُس جہاد میں ملوث ہونے کی وجہ سے یہاں کی مذہبی سوچ رکھنے والی قوتیں اورمضبوط ہوئیں۔ کچھ ہمارے سعودی دوستوں کی مہربانی تھی‘ وہاں سے پیسے آنے لگے تو مدرسوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ مذہبی سوچ رکھنے والی قوتیں پہلے سے زیادہ طاقتور ہو گئیں۔
ہم یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ قومی مفاد اور مذہبی سوچ دو الگ چیزیں ہیں۔ مذہبی یگانگت ہو بھی‘ قومی مفادات پھر بھی الگ ہوتے ہیں۔ یورپ میں ایک مذہب تھا‘ عیسائیت‘ لیکن عالمی تاریخ کی سب سے ہولناک جنگیں یورپ میں ہوئی ہیں۔ مسلم دنیا کا مذہب ایک ہے لیکن قومی مفادات الگ الگ ہیں۔ افغانستان کے حوالے سے آج بھی ہم دیکھ سکتے ہیں کہ نہ صرف مذہبی یگانگت ہے بلکہ بہت حد تک مسلکی یگانگت بھی ہے لیکن ہمارے مفادات اور ہیں اورہمارے افغان ہمسائے اپنے مفادات کو کسی اور نظر سے دیکھتے ہیں۔ نام نہاد جہاد میں جتنی امداد بھی یہاں سے کی گئی وہ اپنی جگہ لیکن کوئی ایک افغان مکتبِ فکر نہیں جو پاک افغان بارڈر کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہو۔ سیکولر افغان ہوں یا مذہبی سوچ رکھنے والے‘ ڈیورنڈ لائن کو وہ نہیں مانتے۔ یہ بھی ہے کہ افغانستان میں بسنے والے پاکستان کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ہندوستان سے مذہبی ملاپ نہیں کیونکہ ہندوستان افغانستان کا ہمسایہ نہیں ہے‘لیکن ہندوستان کو شک کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی۔ ہم ہندوستان کا شور مچائے رکھتے ہیں جبکہ افغانستان کا یہ پرابلم نہیں۔ افغانستان کا پرابلم ڈیورنڈ لائن ہے‘ افغانستان کا پرابلم فاٹا اور پشتو بولنے والے علاقے ہیں۔ ٹی ٹی پی کیا چاہتی ہے؟ یہی کہ فاٹا کے علاقے آزاد ہوں اور ٹی ٹی پی کے زیرِ تسلط ہو جائیں۔ تو گویا پرابلم اُن کا ہم سے بنتا ہے نہ کہ ہندوستان سے۔ لیکن جیسے عرض کیا‘ یہ بات سمجھنے سے ہم قاصر ہیں۔
ہم سمجھ رہے تھے کہ نام نہاد جہاد میں افغانستان کی مدد کرکے پرانی رنجشیں مٹ جائیں گی۔ ہم یہ نہ سمجھ سکے کہ پاکستان اور افغانستان میں رنجش نہیں ہے‘ مفادات کا ٹکراؤ ہے۔ جہاں ایسی صورتحال ہو وہاں دیرپا عمل سے ہی مفادات کے ٹکراؤ کو سلجھایا جا سکتا ہے۔ لیکن ہم سمجھے کہ مجاہدین کی امداد کر رہے ہیں یا طالبان کے پیچھے کھڑے ہیں تو تاریخ کا ایک نیا باب شروع ہو جائے گا۔ طالبان حکومت اور ٹی ٹی پی ہمیں سبق سکھا رہے ہیں کہ وقتی تقاضوں سے مفادات کا ٹکراؤ ختم نہیں ہو جاتا۔ لیکن ہمارے جوسٹرٹیجک ماہر ہیں‘ ہرچیز کا کرتا دھرتا وہ ہیں‘ اُن کی سوچ اپنی ہے اور اُن کا یقین ہے کہ قومی مفاد کی تشریح وہی بہتر کر سکتے ہیں۔ اس عقلِ کُل والی داستان کی وجہ سے پاکستان کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ لیکن یہ داستان ایسی ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔
پاکستان کے تناظر میں سیکولر کا لفظ اچھا معنی نہیں رکھتا کیونکہ ہمارا معاشرہ مذہب کی طرف بہت مائل ہے‘ سیکولر سوچ کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ کچھ ہمارے محافظانِ مذہب کی مہربانی ہے کہ اُنہوں نے سیکولر کا ترجمہ لادین کے لفظ سے کر دیا۔ اور جہاں کوئی چیز لادین سمجھی جائے پھر ہمارے جیسے معاشرے میں لاحول ولاقوۃ ہی کہا جائے گا۔ لیکن افغانستان کے حوالے سے پاکستان کا فائدہ اس امر میں ہوتا کہ وہاں مضبوط سیکولر حکومتیں قائم ہوتیں۔ ظاہر شاہ کی حکومت عملاً سیکولر حکومت تھی۔ زیادہ امداد روس سے آتی تھی‘ ہندوستان سے اُن کے تعلقات قریبی تھے اور ہمارے ساتھ چھوٹی موٹی چھیڑخانی ہوتی رہتی تھی لیکن تعلقات نارمل تھے۔ سیر کرنے یہاں سے لوگ کابل جایا کرتے تھے۔ پشاور سے صبح جی ٹی ایس کی بس کابل روانہ ہوتی تھی۔ بتیس روپے ٹکٹ ہوا کرتا تھا اور کابل کا ماحول تب ایسا تھا کہ دل خوش ہو جاتا۔ سردار داؤد کو پتا نہیں کیا سوجھی کہ اُس نے اپنے کزن کا تختہ الٹ دیا۔ سردار داؤد کے معاون کچھ فوجی افسران تھے جن کی سوچ سوشلسٹ تھی۔ افغانستان میں چھوٹی سی کمیونسٹ پارٹی تھی۔ اُس پارٹی اور سوشلسٹ سوچ رکھنے والے فوجی افسروں نے سردار داؤد کا تختہ الٹایا اور یوں وہ تباہی اور ریخت کی کہانی شروع ہوئی جو آج تک ختم نہیں ہو سکی۔
جو کچھ ہو رہا تھا‘ افغانستان کا اندرونی مسئلہ تھا۔ ہمیں وہاں ٹانگ اڑانے کی کیا ضرورت تھی؟ لیکن ہماری اور افغانستان کی بدقسمتی کہ جب سردار داؤد کا تختہ الٹایا گیا تو پاکستان میں براجمانِ اقتدار جنرل ضیا تھے۔ روسی فوج تو افغانستان میں ڈیڑھ سال بعد آئی۔ اُس سے پہلے ہی جنرل صاحب ڈھول پیٹنے لگے کہ خطے کا نقشہ بدل چکا ہے۔ امریکی امداد بعد میں آئی‘ ہم نے نام نہاد مجاہدین کی امداد پہلے شروع کردی۔ یعنی بلا سوچے مداخلت کا وہ عمل شروع کیا گیا جس کے نتیجے میں افغانستان کے مسائل کو ہم نے اپنے مسائل بنا لیا۔ ہمارا فائدہ اس میں تھا کہ افغانستان کو ہم غیرمستحکم نہ ہونے دیتے۔نجیب اللہ مضبوط حکمران تھا۔ جب تک اُسے روسی امداد مہیا ہوتی رہی افغانستان کے شہروں پر نجیب اللہ حکومت کا تسلط رہا۔ہماری سوچ میں تعصب کا عنصر نہ ہوتا تو ہم نجیب اللہ کو مضبوط کرتے۔نہ مجاہدین کا جنجال پڑتا نہ طالبان کا۔ محسن داوڑ درست کہتا ہے کہ طالبان سے بات کرنا بے سود ہے۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ایسی سوچ رکھنے والوں کو ملک دشمن سمجھا جاتا ہے۔