اس وقت پاکستان کو چار مہلک امراض کا سامنا ہے: ڈوبتی معیشت‘ سابقہ فاٹا کی خطرناک صورتحال‘ شورشِ بلوچستان اور ٹھیکیدارانِ ملت کی انتہا کو پہنچی ہوئی کم سمجھی۔ان خطرات کا موجود ہونا اب کوئی راز نہیں رہا‘ ملک کے طول و عرض میں یہ سوچ پھیل چکی ہے کہ ہمارا ملک انتہائی خطرناک صورتحال سے دوچار ہے۔البتہ خطرات کا موازنہ کیا جائے تو کم سمجھی والا پہلو سب سے زیادہ خطرناک ہے۔
لیکن محاذ کون سا کھلا ہوا ہے ؟ اندرونی۔ سابقہ قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں باقاعدہ جنگ چھڑی ہوئی ہے لیکن سبق کس کو سکھانا ہے؟ اعظم سواتی اور شہباز گِل جیسوں کو۔ ان کی غلطیاں اپنی جگہ ہوں گی لیکن ان کے ساتھ جو رویہ اپنایا گیا وہ اُن معاشروں میں کہاں ہوتا ہے جو اپنے آپ کو مہذب کہلوائیں۔ سوچ اور ترجیحات کی بات ہے۔ دیکھنا تو یہ چاہئے کہ اصل خطرات کون سے ہیں‘ لیکن ذہنوں اور اعصاب پر پتا نہیں کس ڈر کا قبضہ ہے کہ سایوں کے پیچھے بھاگے جا رہے ہیں۔نواب اکبرخان بگٹی کے قتل سے لے کر آج تک‘ گمشدہ اشخاص کی پالیسی پر ہم گامزن رہے۔اس سے کیا فائدہ پہنچا؟کیا بلوچستان میں شورش کی آگ بجھ گئی؟اب تو یوں لگتا ہے کہ سابقہ فاٹا اور بلوچستان میں جو شورش کی راہ پر گامزن ہیں پہلے سے زیادہ منظم اور تربیت یافتہ ہو گئے ہیں۔طالبان سترہ سالہ طویل امریکہ مخالف جنگ سے گزرے ہیں۔ افغانستان کے طالبان اور یہاں کے جو ٹی ٹی پی والے ہیں‘ دونوں اکائیوں کا نظریہ ایک ہے‘ شکل و صورت تھوڑی مختلف ہے۔افغان طالبان کی اپنی ترجیحات ہوں گی لیکن ٹی ٹی پی والوں کا واضح ہدف یہ ہے‘ جس کا وہ اظہار بھی کرتے رہتے ہیں‘کہ سابقہ فاٹا اُن کے کنٹرول میں آئے اور افغانستان کی طرح وہاں بھی ایک اسلامی امارت قائم ہو۔اور ہمارے بڑے‘ ہم اُنہیں بڑے ہی کہیں گے‘ اور کیا کہیں؟ اس بھول میں مبتلا تھے کہ ان سے مذاکرات ہوںاور ان کے منہ میں کچھ لالی پاپ دیے جائیں تو وہ ہتھیار پھینک دیں گے اور جسے ہم سیدھا راستہ سمجھتے ہیں اُس پر آ جائیں گے۔سادگی کی بھی کوئی حد ہونی چاہئے۔ جنہوں نے بندوقیں اٹھائی ہوں اور طویل جنگی تجربے سے گزرے ہوں وہ اس قسم کی باتوں میں آتے ہیں؟اب جبکہ سابقہ قبائلی علاقوں میں شورش نے زور پکڑا ہے اورتقریبا ًروزانہ کی بنیاد پر حملے ہو رہے ہیں ہمارے بڑوں کو کچھ سمجھ آ رہی ہے کہ وہاں حالات کی نوعیت کیا ہے۔
سابقہ ادوار میں جب بلوچستان میں شورش سر اٹھاتی تھی تو مختلف سردار ایسی تحریکوں کی قیادت کرتے تھے۔ اب جو مسلح تحریک بلوچستان کے مختلف علاقوں میں جاری ہے اُس کی قیادت مختلف ہے۔ روایتی سردار‘سوائے براہمدغ بگٹی کے‘ کہیں نظر نہیں آ رہے۔ اس تحریک کے لیڈر مڈل کلاس بھی نہیں‘ لوئر مڈل کلاس کے پڑھے لکھے لوگ ہیں۔یہ بھی خبریں آ رہی ہیں کہ کسی نہ کسی سطح پر بلوچ باغیوں اور ٹی ٹی پی کے درمیان رابطے قائم ہو رہے ہیں۔ان رابطوں کا مضبوط ہونا خطرے کی ایک اور گھنٹی سمجھی جانی چاہئے۔
معیشت کی ڈوبتی صورتحال سے ہم سب آگاہ ہیں۔اور جہاں تک کم سمجھی کا تعلق ہے اُس کا مظہر تو وہ رنگ برنگے لوگ ہیں جنہیں قیادت کی کرسیوں پر بٹھا دیا گیا ہے۔یا تو کوئی ہمیں کہہ دے کہ یہ بڑے باصلاحیت لوگ ہیں پھر بھی کوئی بات ہے۔ لیکن یہاں تماشا یہ ہے کہ ان رنگ برنگے قائدین کے سخت ترین حامی بھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ دیکھیں ہمارے اکابرین کو‘ اتنی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔حامیوں سے آپ یہ اقرار کرانا چاہیں‘ وہ بھی شرماجائیں گے۔پھر پوچھنے کی بات بنتی ہے کہ جہاں ریاست ِ پاکستان کو اتنے سنگین خطرات کا سامنا ہے قیادت کی ذمہ داریاں کون پوری کرے گا؟ اس سوال کا ہمیںکوئی جواب نہیں مل رہا۔روز بروز حالات سنگین سے سنگین تر ہوتے جا رہے ہیں اور لگتا ہے کہ کسی کو کوئی پروا نہیں۔ جہاں ٹی ٹی پی اور بلوچ باغیوں نے باقاعدہ جنگیں چھیڑ رکھی ہیں ہمارے اکابرین آپس میں لڑ رہے ہیں۔ان کی باتیں سنیں‘ بیانات پڑھیں‘ لگتا ہے انہیں حالات کا کوئی خاص احساس نہیں کہ کس قسم کے خطرات ریاست کو لاحق ہیں۔جہاں تک پنجاب کا عام آدمی ہے اُسے تو مہنگائی سراٹھانے نہیں دے رہی۔ دن چڑھنے سے لے کر سورج کے غروب ہونے تک رونا ایک مہنگائی کا ہے۔ اب تو آٹا بھی غریب آدمی کی دسترس سے باہر جا رہا ہے۔ ایسے میں عام آدمی کو اس بات سے کیا سروکار کہ سابقہ فاٹا میں کیا ہو رہا ہے اور حالات بلوچستان میں کس طرف جا رہے ہیں۔
اتنی بات کہہ دی تو تھوڑے بہت لوگ جوان صفحات کو پڑھتے ہیں سمجھیں گے کہ بات عمران خان کی طرف جا رہی ہے۔ہرگز نہیں! گو اس وقت کسی کو عوامی حمایت میسر ہے تو وہ عمران خان ہے لیکن ذاتی طور پر‘حالانکہ ہماری ذاتی رائے کی کیا اہمیت‘کبھی عمران خان کو اس قوم کا مسیحا نہیں سمجھا۔ ان کے طرزِ حکمرانی نے ہم جیسوں کو مایوس کیا اور مایوسی کا اظہار بھی ہوتا رہا۔یہ گھڑی بیچنے والے مسئلے نے کوئی اچھا تاثر قائم نہیں کیا۔ یہ کہنا کہ اوروں نے بڑے ڈاکے مارے اور ہم نے تو صرف وہ گھڑی بیچی جو ہماری ملکیت میں تھی‘ کوئی دلیل نہیں بنتی۔سیزر یا قیصر کی بیوی کے بارے میں شیکسپیئر جولیس سیزر (Julius Caesar)میں کیا کہتے ہیں؟ کہ سیزر کی بیوی تمام شکوک و شہبات سے بالاتر ہونی چاہئے۔اپنے آپ کو جو قوم کا لیڈر سمجھے اُسے لغزشوں سے بالاتر ہونا چاہئے۔ چلیں‘ اعتراض درج ہوا لیکن بنیادی سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ ا س مصیبت کی ماری قوم کی رہنمائی کس کو کرنی چاہئے؟ مان لیتے ہیں کہ ایک طرف تو بڑے چور اور دوسری طرف نسبتاًکم کوتاہیوں کا مالک‘اگر دونوں کو رد کیا جاتا ہے‘ اتنا تو بتلا یا جائے کہ راہ نمائی کن ہاتھوں میں جانی ہے؟
معمولی نہیں‘ پاکستان غیر معمولی صورتحال سے دوچار ہے۔صرف معیشت کو نہیں‘ ملک کی سالمیت کو خطرات لاحق ہیں۔وقت آ گیا ہے کہ برملااعتراف کیا جائے کہ ٹی ٹی پی اور بلوچ باغی آئینِ پاکستان کے دائرے میں آپریٹ نہیں کررہے۔ اُ ن کے اہداف کچھ زیادہ ہیں۔ یہ نکتہ یا نہج ہے جہاں تک ہم پہنچ چکے ہیں۔جو حب الوطنی کے کُل وقتی ٹھیکیدار اپنے آپ کو سمجھتے ہیں چلتی تو اُن کی رہی ہے۔یعنی جہاں تک قوم پہنچ چکی ہے کسی اور نے نہیں پہنچایا۔ یہاں کوئی غیر ملکی سازش کارفرما نہیں رہی۔اپنوں کا ہی کیا دھرا ہے جس کے نتائج ملک اور اس ملک کے بے بس عوام بھگت رہے ہیں۔ اعلیٰ صلاحیتیں جو ہمیں میسر رہی ہیں ان پر پھر سوال نہیں اُٹھتا؟
ایک بات واضح ہونی چاہئے کہ ریاست اور عوام ایک ساتھ کھڑے نہ ہوں تو موجودہ چیلنجوں کا سامنا مشکل ہے۔ 65ء کی جنگ کا شروع ہونا عقلمندی کا مظاہر ہ نہیں تھالیکن جب جنگ چھڑ گئی تو پوری قوم بشمول مشرقی پاکستان ریاست کے ساتھ کھڑی تھی۔کن الفاظ کے چناؤ سے یہ کہا جائے کہ آج صورتحال مختلف ہے۔عوام کا موڈ وہ نہیں جو 65ء کی جنگ میں تھا۔ قبر کے اُس پار نورجہاں یا نسیم بیگم پھر سے نغمہ سرا ہو جائیں پھر بھی وہ کیفیت پیدا نہ ہو۔ پہلی عالمی جنگ کے اختتام پر جب غیر ملکی اثرات کا تسلط ترکی کی سرزمین پر قائم ہوچکا تھا تو مصطفی کمال نے اپنی قوم کو آواز دی اور وہ قوم جو جنگ ہار چکی تھی اور جس کی سرحدوں کو محدود کر دیا گیا تھا‘ اُس کی رگوں میں دوبارہ خون دوڑنے لگا۔آج پاکستان کو روایتی حکمرانوں کی نہیں‘ کسی مصطفی کمال کی ضرورت ہے۔ کہاں سے ملے ایسا شخص ؟