آج کندن لال سہگل کی پچھترویں برسی ہے۔دسمبر1946ء میں جب ممبئی میں علالت نے زور پکڑا توسہگل صاحب نے کہا کہ مجھے جالندھر لے چلو‘ جو اُن کا آبائی شہر تھا۔وہیں آج کے دن یعنی 18 جنوری کو اُن کا انتقال ہوا۔مشہورسنگیت کار نوشاد کا کہنا ہے کہ سہگل صاحب کی اِکشا تھی کہ اُن کی چِتا پہ یہ گانا سنایا جائے ''جب دل ہی ٹوٹ گیا ہم جی کے کیا کریں گے‘‘۔
بچپن یا جوانی میں ہمیں گانا سننے کا کم ہی موقع ملتا۔اب حیرانی ہوتی ہے یہ سوچ کر کہ ہمارے ہاں ریڈیو بھی نہ تھا۔ہوٹل بھی کون سے تب چکوال میں تھے۔ پرانے اڈے پر قریشی ہوٹل تھااور ہسپتال روڈ پر ظفر ہوٹل۔ لیکن بھون چوک میں ایک چھوٹا سا چائے خانہ گل انار ہوٹل کے نام سے ہوا کرتا تھا۔ وہاں ایک دن بیٹھے تو جناب گل انار نے گرامو فون پر کچھ ریکارڈ لگا دیے اور وہ ریکارڈ تھے سہگل صاحب کے۔پھر ہمارا معمول بن گیا کہ چائے منگواتے اورسہگل صاحب کے گانوں کی فرمائش کرتے۔ گانوں سے یوں کیفیت پیدا ہوتی کہ چائے کا کپ عمرخیام یا مرزا غالب کا ساغرلگنے لگتا۔اور جیسے مے کدوں میں مقرر کا آرڈر دیا جاتا ہے ‘ہم چائے کا مقرر آرڈر دیتے۔
کاکول اکیڈمی داخل ہوئے تو پہلا ٹرانسسٹر ریڈیو خریدا۔وہیں سے ریڈیو سیلون کی دریافت ہوئی۔معلوم ہوا کہ پرانے گانوں کا پروگرام صبح سات بجے نشر ہوتا ہے اور اُس کی خاص بات یہ ہے کہ آخری گانا ہمیشہ سہگل صاحب کا ہوتا ہے۔اسی بنا پہ ریڈیو سیلون سے ایک خاص وابستگی پیدا ہو گئی جو آج تک قائم ہے۔ آج کل تو یہ فائدہ ہے کہ پرانی فلموں کا سنگیت یوٹیوب پہ اَپلوڈ ہو جاتا ہے ‘ جب چاہیں سن لیں۔میں عموماً دوپہر کو سنتا ہوں ‘ ایک آدھ گانے کے دوران ہی نیند کی وادیوں میں گم ہو جاتا ہوں۔بہت سال پہلے مشہور گائیک مکیش نے آل انڈیا ریڈیو پر سہگل صاحب پر ایک پروگرام کیا تھا ۔ کئی مشہور گلوکاراس پروگرام میں مدعو تھے اور وہ اپنی اپنی پسند کے سہگل صاحب کے گانے پیش کرتے۔لتا منگیشکر نے کہا کہ میں سہگل صاحب کو ہی گُرومانتی ہوں۔میرے والد دیناناتھ منگیشکر جو اپنی ذات میں بڑے گائیک تھے‘ کو سہگل صاحب کے گانے بہت پسند تھے اور مجھ سے اکثر کہتے کہ سہگل صاحب کا کوئی گانا سناؤ۔پھر لتا جی نے وہ مشہور گانا گنگنایا ''سو جا راج کماری سو جا ‘‘ اور اُن کے گنگنانے میں ہی سہگل صاحب کا اصلی گانا بجنے لگا۔مکیش نے اپنی پسند پیش کی ‘ مَنا ڈے نے اپنی ‘ سنگیت کار روشن کی اپنی چوائس تھی ‘ گیتادت کی اپنی اور نوشاد علی نے وہی گانا سنایا ''جب دل ہی ٹوٹ گیا‘‘۔ طلعت محمود کا کہنا تھا کہ میرا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالی نے تمام آسمانوں اور تمام زمینوں کانور ‘ سُراور درد سہگل صاحب کے گلے میں بھردیا ہے۔ اور سچ پوچھئے یہ کوئی مبالغہ نہیں کیونکہ آوا ز ایسی ہی تھی۔ریڈیو سیلون کی ایک اناؤنسر جیوتی پرمار ہیں‘ جو ہمیشہ کہتی ہیں کہ اب سہگل صاحب کی اَمر آواز میں فلاں گانا سناتے ہیں۔واقعی اَمر آواز ہے‘ وقت گزر جائے گا‘ زمانے بیت جائیں گے ‘ سہگل کی آواز زندہ رہے گی ۔
حالاتِ زندگی ہی اُن کے ایسے تھے کہ پڑھیں تو عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔مہاراجہ جموں وکشمیر کی سروس میں والد صاحب تحصیلدار تھے۔ اُس زمانے میں تحصیلدار کی کیا ٹھاٹ ہوتی ہوگی۔لیکن والد صاحب کو گانے وغیرہ میں کوئی خاص دلچسپی نہ تھی۔کیسربائی جو کہ سہگل کی والدہ تھیں‘ وہ مندروں میں جاتیں تو بھجن وغیرہ گاتیں اور چھوٹا کندن لال بھی اُن کے ساتھ شامل ہوتا۔موسیقی کی دنیا میں یہی اُن کا پہلا تعارف تھا۔ پڑھائی میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں تھی ‘ سکول سے بھاگنے کی کوشش کرنا اور کہیں گنگناتے گم ہو جانا‘ شروع دنوں سے ہی یہ عادت بنتی جا رہی تھی۔ خاندان تب جموں میں رہتا تھا اور وہاں جب بھی کوئی مذہبی تہوار ہوتا کیسربائی جاتیں اور کندن لال بھجن وغیرہ گاتا۔کہتے ہیں کہ کندن لال کی کم عمری میں ہی اچھی خاصی شہرت ہونے لگی کہ لڑکے کا گلا اچھا ہے اور اچھا گاتا ہے۔تحصیلدار صاحب کو یہ باتیں بالکل پسند نہ تھیں۔وہ تو سمجھتے تھے کہ بیٹا پڑھے گا اور کوئی نوکری شوکری کرے گا۔کچھ سختی کرتے‘ ڈانٹ ڈپٹ بھی ہوتی ۔ غصے میں کندن لال کو کہتے کہ تم تو باورچی خانے کے کاموں کیلئے ہی موزوں لگتے ہو۔کہا جاتا ہے کہ سہگل صاحب اچھا پکا لیتے تھے اورہنس کے کہتے کہ والد صاحب کی مہربانی سے ہی اُنہوں نے یہ ہنر سیکھا۔
بارہ سال کی عمر میں البتہ کندن لال کے ساتھ ایک ٹریجیڈی ہو گئی۔اُن کی آواز چلی گئی ‘ یعنی آواز میں وہ مٹھاس اور سوز یکدم کہیں کھو گیا۔ کیسربائی پریشان ہوئیں ‘ کندن لال کو پیرسلمان یوسف‘ جن کا مسکن جموں میں تھا‘ کے پاس لے گئیں کہ دیکھیں یہ کیا ہو گیا ہے۔پیرسلمان یوسف نے کچھ ریاض کرنے کے نسخے بتائے کہ تم نے یہ روزانہ کرنے ہیں۔کہتے ہیں لمبے عرصے تک کندن لال نے پیرصاحب کی دی ہوئی مشق باقاعدگی سے کی اور کیا دیکھنا ہوا کہ وہ دن اچانک آگیا جب آواز واپس لوٹ آئی۔ ہندوستان بھر کی مشہور ی پائی تب بھی سہگل صاحب کہتے کہ پیر سلمان یوسف کی دین ہے کہ میری آواز مجھے دوبارہ مل گئی۔
جموں کی ایک اور بات یاد آئی جو بیان کی جاسکتی ہے ۔کہتے ہیں کہ جموں کا گانے بجانے والا جو محلہ تھا وہاں کندن لال ایک گائیکہ کے مکان کے نیچے چپکے سے کھڑے ہو کر اوپر گانے اور موسیقی کی آوازیں سنتے۔روایت بتائی جاتی ہے کہ سہگل صاحب کا غزل گانے کا جو مخصوص انداز تھا اُس میں اُس محلے کا کچھ اثر محسوس ہوتاہے۔غلام علی ایک انداز سے غزل کی ادائیگی کرتے ہیں۔ عظیم گلوکار مہدی حسن صاحب کا اپنا انداز تھا۔سہگل کی غزل گائیکی ان دونوں سے بہت جدا اور مختلف ہے۔کون تھی وہ جموں کی گانے والی جس کا اثر چھوٹے کندن لال کے ذہن پر پڑا ہوگا؟زندگی اسی کا نام ہے ‘ کن کن اثرات سے انسان گزرتا ہے جس سے اُس کا ذہن ‘ اُس کی سوچ اور اُس کے جذبات تشکیل پاتے ہیں۔
کندن لال کی دنیا اپنی‘ والد صاحب کی امنگیں کچھ اور ۔ گھرکا ماحول کندن لال کیلئے اتنا خراب ہو گیا کہ دل میں خیال اٹھا کہ بہتری اسی میں ہے کہ یہاں سے جایا جائے۔کیا عمر ہوگی ‘ یہی کوئی سترہ‘ اٹھارہ برس اور اس نوجوانی میں بغیر کسی سہارے کے کندن لال گھر چھوڑ کے چلا گیا۔کسی رشتہ دار کی مدد سے ریلوے میں ٹائم کیپری کی نوکری ملی ۔وہ چھوڑی اور نصیب شملہ لے گئے ۔وہاں ایک تھیٹر میں نوکری ملی جس میں سٹیج پر سہگل گانا گایا کرتے تھے۔اچھی بھلی مشہور ی ہو گئی لیکن کسی بنا پر وہ نوکری بھی چھوڑنی پڑی۔ریل پر بیٹھے تو کانپور آ گئے ۔ بے یارو مددگاربغیر کسی ٹھکانے کے۔فاقے کاٹنے پڑے ‘ تھکن اور بھوک سے نڈھال ہو جاتے تو بھکاری سمجھ کے راہگیر کچھ پیسے پھینک دیتے۔ آخرکار ایک کپڑے کے سوداگر کی دکان میں نوکری ملی‘ پیچھے ایک آدمی ساڑھیوں کا بنڈل اپنے کندھے پر لیے ہوتا اور آگے کندن لال سہگل ساڑھیاں بیچنے کی صدا گاکر لگاتے۔
الفاظ لمبے ہو جائیں گے ‘ جگہ تھوڑی ہے ۔ مختصر یہ کہ ٹھوکریں کھاتے سہگل کلکتہ آئے ۔ نیو تھیٹرز کے چکر لگاتے اور آخرکار بی این سرکارجو کہ نیوتھیٹرز کے مالک تھے‘ نے اُنہیں گانے کا موقع دیا ۔ پہلی تین فلمیں مکمل فلاپ ثابت ہوئیں۔لیکن چوتھی 'چندی داس‘ میں سہگل نے چاربھجن گائے اور دنیا اُن کی آواز سن کر دیوانی ہو گئی۔شہرت کی بلندیوں سے اوپر چلے گئے اور آج برصغیر کے سینما کے پہلے سپرسٹار مانے جاتے ہیں۔