عمرکا تقاضا ہے یا طبیعت ایسی پائی ہے کہ بہت حد تک آج کل کے حالات سے بے نیاز ہو چکے ہیں۔ یہ کھلواڑ جو بنا ہوا ہے کیسے لپیٹا جائے گا‘ آگے کیا ہوتا ہے‘ ایسے سوالات اب ستاتے نہیں۔ ایک زمانہ تھا‘ جوانی کے ایام کہہ لیجئے‘ جب امیدیں پالتے تھے کہ جمہوریت آئے گی تو پتا نہیں کون سے گلستان سجائے گی‘ فلاں رہنما کے آنے سے ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔ اب یہ بیکار کی باتیں لگتی ہیں۔ امیدیں اب بھی ہیں لیکن اور نوعیت کی ہیں۔ کسی معجزے سے دل کے ارمان ہلکے ہو جائیں‘ ایسے خیالات اب بھی جنم لیتے ہیں۔
اب بھی جب وقت ملے ریڈیو سیلون کا پرانے گانوں والا پروگرام روزانہ کا معمول ہے۔ دوپہر کو باہر لیٹے اور یہ پروگرام لگا لیا‘ دوسرے یا تیسرے گانے پر اونگھ آ جاتی ہے۔ اور کچھ سو کر طبیعت بالکل بحال ہو جاتی ہے۔ آج کل کی موسیقی‘ اس کے بارے میں کچھ جانکاری نہیں‘ حتیٰ کہ مغربی موسیقی کے جو بڑے سٹار ہیں‘ ان کے بارے میں بھی بہت ہی کم معلومات ہیں۔ مثال کے طور پر موسیقی کی دنیا کی سپر سٹار بیونسے (Beyonce) کی شکل اور شخصیت تو ظاہر ہے بہت مسحورکن ہے لیکن اس کے ایک گانے کا بھی پتا نہیں اور اگر اس کے بارے میں چار لائنیں لکھنی پڑیں تو نہ لکھی جائیں۔ دوسری سپر سٹار جو ریحانہ (Rihanna) ہے‘ اس کی شخصیت بھی دل کو موہ لینے والی ہے لیکن اس کا ایک مکمل گانا بھی شاید سنا نہ ہو۔ ہِپ ہاپ کس بلا کا نام ہے‘ rapمیوزک کسے کہتے ہیں‘ کچھ معلوم نہیں۔ مغربی پاپ میوزک کے اور بڑے بڑے نام ہیں۔ لیکن ان کے کارناموں سے مکمل ناآشنائی ہے۔ ماڈرن فلموں کا بھی کچھ زیادہ معلوم نہیں۔ کبھی دل بہلانے کے لیے یوٹیوب پر فلم دیکھنے کی تمنا پیدا ہو تو کسی پرانی فلم کی طرف ہی نگاہیں جاتی ہیں۔ ناسٹلجیا (Nostalgia) کے ہم اسیر ہیں۔
عجیب خیالات دماغ میں اٹھتے ہیں۔ کبھی خیال آتا ہے کہ ثریا جمال‘ جو ثریا کے نام سے مشہور ہوئیں اور گوجرانوالہ کی رہنے والی تھیں‘ کس محلے میں رہتی ہوں گی؟ کیا ان کا آبائی گھر اب بھی موجود ہے کہ نہیں؟ شمشاد بیگم باغبان پورہ لاہو رکی تھیں‘ جس محلے میں وہ رہتی تھیں‘ کیا اب بھی موجود ہوگا؟ مشہور فلم ایکٹریس شیاماں‘ جو اپنی اداکاری اور خوبصورتی کے لیے مشہور تھیں‘ وہ بھی باغبان پورہ کی تھیں۔ سکول کے زمانے میں کیسی لگتی ہوں گی؟ سُریندر کور لاہور کی تھیں‘ کس محلے میں ان کا پریوار آباد تھا؟ اس زمانے کا لاہور کیسا ہوگا؟ یہ دو تین نام جو لیے ہیں اچانک ذہن میں آئے‘ نہیں تو کتنے لوگ ہیں جو یہاں کے تھے اور پھر وہاں جا بسے۔ یہ ایک پوری داستان ہے اور اس پر باقاعدہ تاریخ لکھی جا سکتی ہے‘ بس حالات ہی کچھ ایسے بنے اور وہ کچھ ہوکر رہا جس کا تصورکوئی نہیں کر سکتا تھا۔
صدیوں تک یورپ جنگوں اور خونریزی کی آماجگاہ بنا رہا لیکن کبھی بھی یہ نہیں ہوا کہ یورپ کے مختلف ممالک کے درمیان دیواریں کھڑی ہو جائیںاور لوگوں کا آنا جانا یا میل جول رک جائے۔ جنگوں کے دوران بھی آنا جانا رہتا تھا۔ یہاں بٹوارہ ہوا‘ ہو گیا لیکن یہ ضروری نہ تھا کہ نفرت اور خوف کی دیواریں کھڑی کر دی جائیں۔ نتیجتاً جو صورتحال بن چکی ہے‘ بڑی عجیب ہے۔ جو ہمارے ہمسائے ممالک ہیں‘ ہم پاکستانی وہاں بہ آسانی نہیں جا سکتے۔ افغانستان کے حالات خراب ہیں‘ وہاں عام پاکستانیوں کا جانا خاصا محال ہے۔ بھارت کے ساتھ ویسے پرابلم ہیں۔ ایران بھی یہاں سے جانا اتنا آسان نہیں۔ پرانے وقتوں میں ایک دو بار کابل جانے کا اتفاق ہوا۔ کیا سہانا سفر ہوتا تھا اور جنگ و جدل سے پہلے کابل کتنا خوبصورت اور ریلیکسڈ شہر تھا۔ دنیا بھر کے ہِپی وہاں آتے تھے‘ قہوہ خانوں میں بیٹھے اپنے مخصوص سگریٹوں پر کَش لگا رہے ہوتے تھے۔ نظرِبد اس خوبصورت سرزمین پر پڑی اور آج تک وہاں کے حالات سنبھل نہیں سکے۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں دہلی آنا جانا رہتا تھا۔ کبھی کسی ٹی وی والوں نے بلا لیا‘ کبھی کسی سیمینار میں حاضری دینے چلے گئے۔ اب وہ سلسلہ کمزور پڑ چکا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ آسانی سے ویزا ملے اور زمینی راستے سے انسان واہگہ اٹاری کے مقام پر بارڈر کراس کرے۔ لاہور کے مال سے چلیں تو ایک گھنٹے کے اندر آدمی امرتسر پہنچ جاتا ہے۔ کیسا ہی اچھا ہو کہ لاہور اور امرتسر کے درمیان ٹرینیں چلیں اور دونوں شہروں سے آخری ٹرین کا وقت رات ایک بجے ہو۔ پاکستانی وہاں سے لڑکھراتے لوٹیں اور سردار جی اور سردارنیاں لاہور کے مخصوص بازاروں کا چکر لگا کر امرتسر کی طرف جا رہے ہوں۔ مسائل اپنی جگہ‘ رہتے ہیں تو رہیں۔ اور ملکوں کے درمیان بھی مسائل ہیں لیکن ہماری طرح وہ عقل کو مکمل خیرباد نہیں کہتے۔ چین اور تائیوان لے لیجئے‘ مسائل ہیں لیکن تجارت وسیع پیمانے پر ہے اور آنا جانا بھی بہت ہے۔
لاہور ریلوے سٹیشن کی کیا حالت ہم نے کر دی ہے۔ پورے کا پورا ریلوے نظام ہی جب تباہ ہو جائے تو سٹیشن کی رونقیں کیسے قائم رہ سکتی تھیں؟ لیکن ہونا یہ چاہیے تھا کہ لاہور سٹیشن سے پورے ہندوستان اور بنگلہ دیش کے لیے ٹرینیں چلتیں۔ ٹکٹ لیتے اور امرتسر‘ دہلی‘ آگرہ یا کولکتہ جاتے۔ ایک دو دن لفنٹریاں مار کر واپس آتے۔ البتہ دہلی ہمارا پسندیدہ شہر نہیں ہے‘ وہاں کی کوئی کلب سین نہیں۔ کلب سین دیکھنی ہو تو انسان ممبئی یا گوآ جائے۔ بذریعہ ریل سرحد عبور ہو اور پھر وہاں سے ممبئی کی ٹرین لی جائے۔ دنیا کے زندہ دل شہروں میں حسبِ استطاعت ہر چیز میسر ہوتی ہے۔ لازم نہیں کہ آپ کی جیب ڈالروں سے بھری ہو اور پھر ہی آپ ممبئی یا گوآ میں جاکر کچھ کر سکیں۔ پرانے لاہور میں بھی ایسا تھا‘ ہر جیب کے مطابق بہت کچھ دستیاب ہوتا تھا۔ مہنگے ہوٹل تھے تو درمیانے درجے کے ہوٹلوں کی کمی نہ تھی۔ جب جوانی میں لاہور جانا ہوتا‘ ہماری جیب کچھ زیادہ کی اجازت نہ دیتی تھی لیکن سستے زمانے تھے اور اچھے بھی تھے۔ آج کل کی نفسا نفسی اور پیسوں کی دوڑ اُس وقت کم ہی نظر آتی تھی‘ لہٰذا تھوڑے پیسوں میں بھی گزارا ہو جاتا تھا۔ اندازہ لگائیے کہ سات روپے میں بھی کچھ نہ کچھ مل جاتا تھا۔ ایبٹ روڈ پر موجود ٹکا ٹک کی دکانوں پر چند روپوں میں اچھا بھلا کھانا مل جاتا تھا۔ جن بازاروں کی مشہوری تھی وہاں بھی درجہ بدرجہ چیزیں میسر ہوتی تھیں۔
یہ جو انگریزی کا لفظ ہے انٹرٹینمنٹ‘ ہم نے حالات ایسے پیدا کر دیے ہیں کہ یہ اب امیروں کا کھیل ہوکر رہ گیا ہے۔ یہ نہیں کہ پاکستان میں عیاشی نہیں رہ گئی‘ عیاشی بہت ہے لیکن پیسے والوں کے لیے ہے۔ چھوٹے ہوٹلوں میں چھاپوں کا ڈر رہتا ہے‘ کسی ثقافت والے سے پوچھ لیجئے۔ احساسِ تحفظ بڑے ہوٹلوں میں ہوتا ہے اور بڑے ہوٹلوں کے نرخ کوئی کوئی ہی ادا کر سکتا ہے۔ یہی حال باقی چیزوں کا ہے۔ جیبیں کچھ لمبی ہوں تبھی کام چلتا ہے۔ عدم مساوات تو ہر جگہ ہے لیکن انٹرٹینمنٹ کی فیلڈ میں تو عدم مساوات کی صورت اتنی گمبھیر ہو چکی ہے کہ مڈل کلاسیوں کے لیے خاصی مشکلات پیدا ہو چکی ہیں۔ ہمارے لاہور کے پیر صاحب کی عمردراز ہو‘ ان کے آستانے پر ملتا بہت کچھ ہے لیکن قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ایک طبقہ ہمارا ایسا ہے جس کو ایسی چیزوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آسائش کی جو چیز ہو‘ جو مرضی آپ قیمت لگا لیں وہ بے پروائی سے ادا کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔
ہم کہتے ہیں کہ یہاں تعلیم اور تہذیب کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔ جب معاشرے میں کچھ اور رہے نہ اور صرف لکشمی ایک دیوی ہو جس کی پوجا کی جائے تو پھر اور چیزوں کی گنجائش کہاں رہ جاتی ہے۔