یعنی آسمانوں کے نیچے بہت افراتفری ہے اور صورتحال بہترین ہے۔ تباہی کے دہانے نہیں کہنا چاہتے تو نہ کہئے‘ خطرات سے پُر وادی کے دہانے پر تو ہم پہنچ چکے ہیں۔ پتا نہیں کوئی سکرپٹ تھا یا نادانستہ طور پر یہ سب کچھ ہو رہا ہے لیکن جو بھی ہو رہا ہے‘ نہایت کامیاب طریقے سے ہو رہا ہے۔ مملکتِ خداداد کی حالت کبھی مثالی نہ تھی لیکن بے ڈھنگے طریقے سے ہی سہی معمولاتِ زندگی چل رہے تھے۔ پر کیا نظر لگی اس مصیبت کی ماری قوم کو کہ بدحال کر دی گئی‘ اور کمال یہ کہ چند ہی مہینوں میں۔ ہم جیسے کہا کرتے تھے کہ بڑا ڈھیٹ ملک ہے‘ بلنڈرز یہاں ہوتے رہتے ہیں لیکن پھر بھی قائم ہے۔ لیکن اب کی بار تو ایسی نظرِ بد لگی کہ اس نظریا ت کے قلعے کا کوئی حال نہیں رہا۔
پنجاب کے انتخابات کو ملتوی کرانے کا عمل کوئی اتنا انوکھا نہیں۔ سمجھ آ رہی تھی کہ ایسا ہی ہوگا کیونکہ ہم کیا جو اپنے آپ کو بہت طاقتور اور عقلِ کل سمجھتے ہیں‘ اُنہیں بھی معلوم تھا کہ انتخابات ہوئے تو پٹ جائیں گے‘ ایسی مار پڑے گی کہ منہ چھپانے کو جگہ نہ ملے گی۔ تو الیکشن کمیشن نے وہی کیا جس کی توقع تھی۔ لیکن جو کیا پاکستان کی تباہی کی داستان میں ایک اور سنگِ میل سمجھا جائے گا۔ کیونکہ اب کی بار حملہ عمران خان پر نہیں ہوا‘ آئینِ پاکستان پر ہوا ہے۔ اس اقدام کا آئین میں کوئی جواز ہے ہی نہیں‘ سپریم کورٹ کے فیصلے کے منافی بھی ہے۔ لیکن ہماری تاریخ ایسے فیصلوں سے بھری پڑی ہے۔ طالع آزماؤں نے اس ملک کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا۔ تاریخ دہرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ دل جلانے سے کیا حاصل اور یوں بھی اس تاریخ کی عبارت ہمارے دلوں پر لکھی ہوئی ہے۔ لہٰذا ایک اور اقدام سہی‘ ہماری تاریخ پرانی ڈگر پر ہی چل رہی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے کبھی بھی حالات اتنے نازک یا سنگین نہ تھے۔ یوں تو ہم ہمیشہ کہتے رہے ہیں کہ ہم نازک موڑ پر کھڑے ہیں لیکن اس بار تو ایک پیمانہ ہے جسے جھٹلانا مشکل ہے۔ وہ یہ کہ ہاتھ میں کوڑی نہیں رہی۔ خزانے کا نام تو نہیں لینا چاہیے کیونکہ کہاں خزانے کا تصور اور کہاں ہم‘ البتہ کشکول کا لفظ موزوں ہے۔ کشکول خالی پڑا ہے اور اس میں کچھ ڈالنے کیلئے کوئی بھی تیار نہیں۔
بہرحال لطف کی بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کو زیرِ استعمال لاتے ہوئے پنجاب اور خیبرپختونخوا کے انتخابات ملتوی تو کر دیے گئے ہیں لیکن طالع آزماؤں سے لے کر سیاسی مہروں تک کسی کو نہیں معلوم کہ آگے ہوگا کیا یا آگے کیا کرنا ہے۔ یوں تو الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ انتخابات کو اکتوبر تک لے جاتے ہیں تاکہ قومی اور صوبائی انتخابات بیک وقت ہو سکیں لیکن جب بم کو ایک بار لات مار دی جائے تو کون سی منطق کہتی ہے کہ دوسری بار نہیں ماری جا سکے گی؟ اکتوبر میں حالات کیا سازگار ہو جائیں گے؟ کیا کہیں سے ڈالروں کی بارش ہو جائے گی؟ اور جن کے دماغ اب خالی ہیں‘ اکتوبر تک وہ دماغ کارگر سوچ اور خیالات سے زرخیز ہو جائیں گے؟ نجومی ہم نہیں لیکن اس معزز رتبے کے بغیر بھی نہ صرف ہمیں بلکہ اب تو ہر پاکستانی کو سمجھ ہے کہ خراب حالات نے مزید خراب ہونا ہے۔ اور اگر ایسا ہونا ہے تو کون ضمانت دے گا کہ جو خوف کے مارے اب الیکشن نہیں ہونے دے رہے‘ وہ اکتوبر میں ہونے دیں گے؟ کیا تب تک دلوں سے خوف غائب ہو جائے گا کہ بپھرے ہوئے عوام نے ہماری چھترول نہیں کرنی؟
جب یہ کہا جائے کہ کسی اقدام کی گنجائش آئین میں نہیں تو اس کا واضح مطلب یہ نکلتا ہے کہ آئین سے روگردانی ہو رہی ہے۔ اور آئین سے روگردانی کا مطلب ہے کہ آئین کا بستر پورا نہیں تو کچھ کچھ سمیٹاجا رہا ہے۔ پاکستان میں ویسے بھی آئین ایک مظلوم چیز ہے۔ جو اس کے ساتھ ہوتا رہا ہے‘ اس سے تو حدود کے کئی پرچے بنتے ہیں۔ اور اب اگر الیکشن کمیشن کے ذریعے آئین کے ساتھ کچھ اور چھیڑ خانی ہو رہی ہے تو کیا ضمانت ہے کہ اکتوبر کے آتے آتے آئین کے ساتھ اور بہت کچھ نہ ہو جائے؟ کیا کریں‘ ایسے وسوسوں سے دل گھِرا جارہا ہے۔ اپنی قومی زندگی میں ہم غیروں پر الزام دھرتے آئے ہیں کہ اس نیک سرزمین کے خلاف گھناؤنی سازشیں بُنی جا رہی ہیں۔ یوں سمجھیے کہ اب ایک نئی عقل آ گئی ہے کہ اپنے جسم کو ہم خود نوچ رہے ہیں۔ عوامی سطح پر ہندوستان کا کوئی ذکر نہیں‘ یہودی لابی کا کوئی تذکرہ نہیں‘ اپنے اصلی دشمن ہم پہچان چکے اور ہمارا آئینہ ہمیں بتا رہا ہے کہ دشمن ہم خود ہیں۔ لیکن ہماری بہادری اور استقامت کو داد دیجئے کہ سب جانتے ہوئے ہم پھر بھی اس بات پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ جو ہونا ہے ہو جائے‘ ہم نے تباہی کی راہ پر چلنا ہے۔
کچھ قصور عمران خان کا ہے لیکن زیادہ قصور پاکستانی عوام کا بنتا ہے۔ عمران خان کا قصور یہ ہے کہ اس نے دبنے سے انکار کیا اور جنہیں ہم مقتدرہ وغیرہ کا نام دیتے ہیں‘ ان کے خلاف ڈٹ گیا۔ یہ تو اس کی صوابدید ہے کہ اس کی ہمت نے جتنی اجازت دی‘ وہ اس نے کر ڈالا۔ بڑا قصور تو عوام کا ہے کہ وہ عمران خان کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ عوام اس حرکت کے مجرم نہ بنتے توعمران خان سے کس نے ڈرنا تھا؟ مسئلہ خراب تو عوام نے کیا ہے کہ کرتے دھرتوں کی تمام منصوبہ بندی خاک میں ملا دی۔ یقینِ کامل کی مانند خیال یہ تھا کہ اقتدار سے عمران خان نکالا جائے گا تو زیرو ہو کے رہ جائے گا لیکن جیسا ہم دیکھ چکے ہیں اور اکابرینِ ملت جان چکے ہیں‘ ایسا نہیں ہوا۔ جس کو زیرو بننا تھا وہ تو کوئی اور چیز بن گیا ہے۔ ایسا بنا ہے کہ ان سب کے اعصاب پر سوار ہوگیا ہے۔ سوتے ہیں تو اس کا نام‘ جاگتے ہیں تو اس کا تصور۔
اصل مار تو معاشی پڑرہی ہے اور معاشی تباہی اس لیے تیز ہوئی کہ تاریخی نکموں کے ہاتھوں میں سب کچھ آ گیا۔ زیادہ سوچ تو معیشت کے حوالے سے ہونی چاہیے تھی لیکن تمام تدبیریں جو کی جا رہی ہیں‘ وہ معاشی حوالے سے نہیں بلکہ ان کا محض ایک مقصد ہے کہ عمران خان پر کیسے لگام ڈالی جائے۔ تمام حربے جو کتابوں میں لکھے ہوئے ہیں‘ استعمال کیے گئے لیکن طالع آزمائی کا کیا المیہ ہے کہ کوئی حربہ بھی کارگر ثابت نہیں ہوا۔ لاٹھیاں اور آنسوگیس شیل استعمال کیے گئے‘ دفعہ 144کو گھر کی لونڈی بنا دیا گیا‘ پولیس نفری اتنی میدان میں جھونکی گئی کہ گمان ہوتا کشمیر فتح کرنے چلے ہیں۔ کچھ کام نہ آیا اور اب جو بوجھ بچا تھا‘ وہ الیکشن کمیشن کے کندھوں پر ڈال دیا گیا ہے۔ سکھ کے سانس تو تب لیے جائیں اگر عوام کے ذہنوں میں جو خوئے نافرمانی بھری جا چکی ہے وہ چلی جائے‘ لیکن آپ کی چال بدلے نہ اور توقع یہ ہوکہ عوام کی رائے بدل جائے‘ یہ کیسے ممکن ہے؟ عوام کی کیفیت خودبخود پیدا نہیں ہوئی‘ وہ حالات کی پیداوار ہے۔ حالات یہی رہیں اور طالع آزمائی ہوتی رہے تو خوئے نافرمانی ذہنوں سے کہاں نکلے گی۔
چیئرمین ماؤ جب کہتے تھے کہ افراتفری بہت ہے اور صورتحال بہترین ہے تو ان کا کہنے کا مطلب یہ تھا کہ افراتفری کے بیچ انقلاب کی راہیں نکلیں گی۔ ہمارا المیہ البتہ یہ ہے کہ گو حالات خراب ہیں اور مزید خراب ہو رہے ہیں‘ بہتری کی کوئی راہیں اس خرابی سے نہیں نکل رہیں۔ وہی نکما پن‘ وہی رجعت پسندی۔ نئی چیزصرف یہ ہے کہ عوام کے ذہنوں میں ایک بخار جنم لے رہا ہے لیکن اس سے کیا کوئی مثبت تبدیلی پیدا ہوسکتی ہے‘ یہ نہیں معلوم۔