تاریخِ عالم میں ہم دیکھتے ہیں کہ قوموں کا زوال ہوتا ہے تو اُن کی عیاشیاں بڑھ جاتی ہیں۔ سلطنتیں ہاتھ سے جار رہی ہوں تو رقص و سرود کی محفلوں پر زیادہ زور لگنے لگتا ہے۔ رومن ایمپائر کے سب سے نکھٹو حکمران رومن شہریوں کو محظوظ کرنے کیلئے سب سے بہترین گلیڈیاٹورئیل (Gladiatorial) نمائشیں منعقد کرتے تھے۔ لکھنؤکی زیادہ تر کہانیاں جو ہم تک پہنچی ہیں‘ اُس زمانے کی ہیں جب نواب واجد علی شاہ کی سلطنت زوال پذیر ہو چکی تھی۔ ہمارا عجیب مسئلہ ہے‘ تباہی کی طرف جا رہے ہیں یا یوں کہئے تباہی کے دہانے کے اُس پار قدم رکھ چکے ہیں لیکن نہ رقص نہ سرود‘ بس وہی منافقت جو بحیثیت قوم ہمارا خاصا بن چکی ہے اور وہی نمائش کی پرہیز گاری جو اس کا حصہ ہے۔ کچھ تو ہو جس سے دل و دماغ پر حالات کا بوجھ کم ہو سکے لیکن نہیں‘ عبرت کے مقام تک پہنچے جا رہے ہیں لیکن مصنوعی پارسائی کا لبادہ بھی بدستور اوڑھا ہوا ہے۔
جنگ عظیم دوم میں جرمن فرانس پر فاتح ہو گئے تھے اور پیرس‘ جسے اکثر دنیا کے حسین ترین شہر کا لقب دیا جاتا ہے‘ ان کے زیرِ تسلط آچکا تھا۔ لیکن جرمن تسلط کے باوجود پیرس کے کیفے‘ تھیٹر‘ ریستوران اور دیگر ایسی جگہیں کھلی رہیں۔ لوگ افسردہ افسردہ پھرتے تھے کیونکہ محکوم ہونے کا احساس دلوں سے نہیں جاتا تھا لیکن غم مٹانے کے اسباب ہر طرف موجود تھے۔ ہمارا المیہ دیکھیے کہ غموں سے نڈھال ہو رہے ہیں‘ مہنگائی سے قوم چیخ رہی ہے لیکن غم مٹانے کا کوئی سبب نہیں۔ یہی حالات رہے تو ہم پتہ نہیں ایسے ڈپریشن میں چلے جائیں گے جس کا کوئی علاج نہ ہوگا۔ جہالت کی کمی ویسے اِس معاشرے میں نہیں اور اب تو جہالت کے ساتھ ساتھ بے چارگی میں بھی بہت اضافہ ہو رہا ہے لیکن شامِ اودھ منانا چاہیں توکدھر کا رخ کریں؟ یقینا یہ اعتراض اٹھایا جا سکتا ہے کہ رحمتوں کا مہینہ ہے اور دیکھیے یہ کمبخت کیسی باتیں کررہا ہے لیکن جو مستند گناہگار ٹھہرے ان کی ایک عجب خاصیت ہے کہ ان کا اعتقاد اکثر اوقات اوروں سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ ان کا یقین کچھ یوں ہوتا ہے:
رحمت پہ تیری میرے گناہوں کو ناز ہے
بندہ ہوں جانتا ہوں تُو بندہ نواز ہے
انسان کو رب کی ذات پر اتنا بھروسا ہو‘ اس سے زیادہ پختہ یقین کوئی ہو سکتا ہے؟ لہٰذا جس کے نصیب میں جو لکھا ہے وہ کرے‘ باقی معاملات تو اوپر والے کے ہاتھ میں ہیں۔ غضب دکھائے تو وہ دکھائے‘ ہم کون ہوتے ہیں کہ اس کی دھرتی پر غضب کے ٹھیکیدار بن جائیں‘ اس کو اندرکرو‘ اس پر فلاں تعزیر لگاؤ۔ ہمارے معاشرے میں آسودگی کم ہے‘ بے جا کا غیظ و غضب کچھ زیادہ۔
قائداعظم کے حالاتِ زندگی سے پتہ چلتا ہے کہ وہ تو اور قسم کے انسان تھے‘ روشن خیال‘ وسیع النظر‘ دور اندیش۔ نام ہم ان کا لیتے ہیں لیکن پتہ نہیں ملک کیسا بنا دیا ہے۔ ان سارے ٹھیکیدارانِ حق و صداقت سے پوچھا جائے کہ جیسا ملک یہ بن چکا ہے‘ جو قوانین یہاں پر رائج ہیں‘ کیا قائد کے یہ تصورات تھے؟ جس انسان نے 11اگست 1947ء کو آئین ساز اسمبلی میں کھڑے ہوکر وہ کچھ کہا جو اس تاریخی تقریر کا حصہ ہے‘ کیا وہ ہم میں سے تھے؟ کہاں ان کے خیالات اور کہاں آج کی حقیقت۔ آج کوئی کہے تو سہی کہ تم آزاد ہو‘ جاؤ اپنے مندروں میں‘ جاؤ مسجدوں میں‘ کاروبارِ مملکت کا اس سے کوئی تعلق نہیں‘ ہم ایسے غضب میں آئیں کہ ہاتھ ہمارے پتھروں کی جانب جائیں۔
چلیں یہ تو پرانی باتیں ہیں‘ انہیں دہرانے کا کیا فائدہ۔ لیکن یہ بھی ماننا پڑے گا کہ جہاں ہم پہنچ چکے ہیں‘ اس کا تصور کسی کو نہیں ہو سکتا تھا۔ 1971ء کی جنگ میں چھتیس لائٹ طیارہ شکن رجمنٹ میں کپتان تھا۔ 16دسمبر صبح صبح پتوکی کے قریب ایک ریلوے پل پر پہنچے جو ہندوستانی طیاروں کی بمباری سے تباہ ہو گیا تھا۔ حفاظت کے لیے میرے زیرِ کمان گنیں تباہ حال پل کے گرد تعینات ہوئیں اور انجینئروں نے اپنا کام شروع کیا۔ راشن ہمیں پہنچ نہیں سکا تھا اور ہمارے پاس کھانے پینے کے لیے کچھ نہ تھا لیکن صبح کی دھند میں سے کسی نزدیک گاؤں سے لوگ نمودار ہوئے‘ سروں پر انہوں نے دودھ کے ڈولے اٹھائے ہوئے تھے اور ہاتھوں میں کپڑے میں بندھے رس تھے۔ مجھے افسر سمجھ کر ناشتے کا پوچھا اور کچھ ہی دیر میں انڈے اور پراٹھے آ گئے۔ یاد رہے کہ وہ ہمارے لیے تباہ کن جنگ تھی‘ آدھا ملک ہمارے ہاتھوں سے جا رہا تھا لیکن عام آدمی کی نظروں میں ہم وردی والوں کیلئے بہت قدر تھی۔ آج قوم کی کیفیت کیا ہے؟
اسی مقام پر ہم کھڑے تھے کہ ریڈیو پر جنرل یحییٰ کی تقریر سنی کہ ہم ایک معرکہ ہارے ہیں‘ جنگ نہیں ہارے اور جنگ جاری رہے گی۔ صبح کے دس گیارہ بجے تھے جب مملکتِ خداداد کے صدر و کمانڈر اِن چیف یہ دلیرانہ تقریر فرما رہے تھے اور دن کے اس وقت بھی ان کی رعب دار آواز خمار سے بھری ہوئی تھی۔ ادھر خمار کی وادیوں میں یہ تقریر اور وہاں ڈھاکہ میں ہتھیار زمین پررکھے جا رہے تھے۔ البتہ کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ اس سیاہ ترین لمحے میں بھی امید کی کرن ہمارے سینوں میں بجھی نہیں تھی۔ دو تین روز بعد جب ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا تواپنی فی البدیہہ تقریر میں انہوں نے کہا کہ سیاہ رات ختم ہو رہی ہے اور ایک نئی صبح طلوع ہونے کو آ رہی ہے اور ہم جیسوں نے سمجھا کہ ایسا ہی ہوگا اور شکست و ریخت کے بیچ میں سے ایک نئے حوصلے سے بھرپور پاکستان جنم لے گا۔ آج ویسے حالات تو نہیں ہیں لیکن قومی حالات کچھ ایسے بنے ہیں کہ امید کی کرن ہمارے سینوں سے بجھ گئی ہے۔ آج کوئی بات ہی نہیں کررہا کہ ہم ان مشکلات سے نکل آئیں گے اور دیکھو اُن دور پہاڑوں کے اُس پار ایک امید سے بھری نئی صبح طلوع ہو گی۔ امید کو چھوڑیے‘ حالات کچھ یوں بنے ہیں کہ لگتا ہے اس قوم نے خواب دیکھنا بھی چھوڑ دیا ہے۔
ہندوستان کے سیاسی حالات سے قائداعظم اتنے مایوس ہوئے تھے کہ انہوں نے انگلستان میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ گھر وہاں خریدا‘ قانون کی پریکٹس وہیں کرنے لگے لیکن پھر جب حالات نے تھورا پلٹا لیا تو ہمت باندھی اور واپس ہندوستان آئے۔ مسلم لیگ کوئی منظم نہ تھی‘ مسلم قوم کو کچھ نظر نہیں آ رہا تھا لیکن نامساعد حالات میں بھی ایک نئے عزم سے جدوجہد شروع کی اور پھر پاکستان کی صورت میں کامیابی بھی ملی۔ جغرافیائی لحاظ سے جس قسم کا پاکستان چاہتے تھے‘ نہ ملا لیکن پھر بھی ایک نیا ملک معرضِ وجود میں آیا۔ یہ اور بات ہے کہ آنے والے وقتوں میں ہم نے اس ملک کا حشر کر دیا اور آج جو حالات ہیں وہ ہماری ہی عقل اور سمجھ کی پیداوار ہیں۔ لیکن بات ہو رہی ہے قائد کی ہمت کی۔ آج کون ہے جو قوم کو پکارے اور قوم میں نئی امید پیدا کرے؟
فیڈل کاسترو کی قیادت میں کیوبا میں جب انقلاب آیا تو پہلے ایک دو مہینوں میں لگ بھگ چار سو آدمیوں‘ جن پر کرپشن کے سنگین الزامات تھے‘ کو پھڑکا دیا گیا۔ کبھی تو جی چاہتا ہے کہ یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہو۔ لیکن یہاں نہ کاسترو‘ نہ کاسترو جیسا عزم۔ بس گفتار کے غازی تھے اور اب حالت یہ ہے کہ وہ بھی نہیں رہے۔ بات کرنے کی سکت بھی ہم سے جا رہی ہے۔