کیا ہو رہا ہے‘ کون ذمہ دار ہے‘ کس خاتون کو بالوں سے گھسیٹا گیا‘ کس گھر میں گھسا گیا اور کس اندا ز سے گھسا گیا‘ ایسی باتوں کو جانے دیجئے۔ بیکار کی باتیں ہیں‘ ان کا ذکر کرکے کیا حاصل ہو گا؟ بس اتنا جانتے ہیں کہ ایک ملک‘ جس میں کوئی اتنی خاص خوبی تو نہ تھی لیکن پھر بھی اچھا بھلا ملک تھا‘ کا ستیاناس ہو گیا ہے۔ یہ تباہی کی داستان تاریخ کے اوراق میں بند نہیں‘ یہ سب کچھ ہمارے سامنے ہوا ہے۔ بہتری کی امید پھر کہاں سے آئے؟ کس پر تکیہ کریں‘ کس پر بھروسا ہو؟
پچھتر سال بہت عرصہ ہوتا ہے۔ یوں تو برصغیر میں انگریز کی حکمرانی لمبی تھی لیکن جن علاقوں پر پاکستان مشتمل ہے‘ پنجاب وغیرہ‘ اُن پر انگریزوں کی حکمرانی محض اٹھانوے برس رہی۔ اس عرصے میں انہوں نے سب کچھ تبدیل کرکے رکھ دیا۔ مقصد ان کی تعریف یا تنقید نہیں‘ صرف یہ کہنا ہے کہ اٹھانوے سالوں میں نظام‘ قانون‘ تہذیب اور روایات سب بدل کر رکھ دیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پچھتر سال بہت لمبا عرصہ بنتا ہیں لیکن اس مدت میں ہم نے کیا کیا؟ نئی چیزیں ہم نے کیا بنانی تھیں‘ جو ورثے میں ملیں انہیں بھی تباہ کرنا شروع کر دیا۔ تعلیمی نظام تباہ‘ ٹیکس کا نظام تباہ‘ لاء اینڈ آرڈر برباد‘ قانون کی حکمرانی کا تصور پہلے بھی کوئی اتنا مضبوط نہ تھا لیکن اب تو مذاق ہی بن گیا ہے۔ کچھ طبقات امیر ہوئے ہیں لیکن آبادی کی مجموعی صورتِ حال کیا ہے؟ ایشیا کے یہ سارے ممالک جنہیں ایک زمانے میں ٹائیگر کہا جاتا تھا‘ ہر لحاظ سے ہمارے پیچھے ہوا کرتے تھے۔ وہ آگے نکل گئے‘ ترقی کی منزلیں طے کیں‘ ہم پیچھے پھسلتے رہے۔ جہالت پہلے بھی یہاں کم نہ تھی لیکن پاکستانی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو لگتا ہے کہ ہم نے کہیں قسم کھائی تھی کہ جہالت کے اندھیروں میں ہم نے مزید بڑھنا ہے۔ بھاشن ہم بہت سنتے آئے ہیں‘ آج بھی ہمیں نئے نئے بھاشن سنائے جا تے ہیں لیکن کوئی بتلائے تو سہی کہ یہ جو خاص پاکستانی بیماری ہے اس کا علاج کیا ہے؟
نعرے ہم نے بہت سنے‘ نعرے ہم لگاتے بھی رہے ہیں۔ ایک زمانے میں اس قوم کا ایمان تھا کہ عام انتخابات ہو گئے تو سب کچھ حل ہو جائے گا۔ عجیب عقلمند قوم ہے‘ پہلے عام انتخابات ہوئے تو ہم ملک توڑ بیٹھے۔ آمریت کے سایوں میں ہم کہتے تھے اس ملک کا حل جمہوریت میں ہے۔ جمہوریت کی صبح طلوع ہوئی اور تباہی کا ایک اور دور شروع ہو گیا۔ جس جس کا بس چلا اُس نے اپنے ہاتھ رنگے۔ مال بنانے میں سب حصہ دار رہے‘ کیا سیاسی وابستگیاں رکھنے والے اور کیا وہ جو کہتے نہیں تھکتے کہ سیاست سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ آج ایک نئی سیاسی کشمکش جاری ہے‘ ایک طرف سیاست کا ایک طبقہ ہے اور دوسری طرف وہ جو اپنے آپ کو اس ملک کا ٹھیکیدار سمجھتے ہیں۔ ہمیں ایک بات معلوم ہے کہ اس کشمکش کا جو نتیجہ بھی نکلے‘ پاکستان کی سمت جو بنی ہوئی ہے تباہی اور بربادی کی طرف اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اس دھرتی سے جو امید کا ناتا رکھنا چاہیے‘ اس پر سے لوگوں کا ایمان اٹھ رہا ہے۔ پڑھے لکھے نوجوان یہاں سے جانا چاہتے ہیں۔ بیچارے جو صرف جسمانی مزدوری کے قابل ہیں‘ وہ بھی باہر کے راستے ڈھونڈنے میں لگے رہتے ہیں۔ جو طبقات کچھ آرام میں رہتے ہیں ان کی نظریں کب سے ودیش کے ساحلوں پر لگی ہوئی ہیں۔ اس عمر میں مجھ جیسوں کو اپنا غم لگا ہوا ہے۔ ہم باہر کہاں جائیں‘ کسی پٹرول سٹیشن یا برگروں کے ڈھابے پر نوکری تو کر نہیں سکتے۔ ایسی نوکری بھی ضرورکر لیتے لیکن عمر کا تقاضا ایسا ہے کہ یہ کام آسان نہیں۔ اور اگر ہم یہ کہیں کہ ہمارا جینا مرنا یہاں ہے‘ شوق سے یہ اتنا نہ کہیں گے بلکہ مجبوری سے۔ ہمارے جینے مرنے کی یہی جگہ ہے‘ ہم میں سے اکثریت کے پاس کوئی اور چوائس نہیں۔ اس لیے جب ایک کے بعد ایک نکما اقتدار میں آتا ہم دیکھتے ہیں تو خون کے آنسو روتے ہیں کہ ہماری تقدیر میں کیا نکما پن ہی لکھا ہوا ہے؟ کوئی تو ڈھنگ کا حکمران آئے لیکن نہیں‘ حکمرانی کا اسٹرکچر ہی ایسا ترتیب دیا گیا ہے کہ نیم پڑھے لکھے اقتدار میں آ جاتے ہیں اور حب الوطنی کے ہمیں نئے نئے بھاشن سنانے لگتے ہیں۔ بعد میں پتا چلتا ہے کہ اتنے سادہ بھی نہ تھے کیونکہ خبریں نکلنے لگتی ہیں کہ فلاں معصوم نے وہاں بھی جائیداد بنائی اور وہاں بھی اثاثے اکٹھے کئے۔
ہم جیسے تو گزرے زمانوں کو روتے ہیں۔ جیسے‘ دنیا جانتی ہے کہ جنر ل یحییٰ خان رنگین مزاج تھے اور بڑے اچھے اور اعلیٰ شوق انہوں نے پال رکھے تھے‘ لیکن مال بنانے کا الزام ان پرکبھی نہ لگ سکا۔ ایک آدھ گھر پشاور میں تھا جو تب کے سٹینڈرڈ بینک کے سربراہ جو کوئی علوی صاحب تھے اور جنرل یحییٰ کے قریب سمجھے جاتے تھے‘ انہوں نے اس گھر کی تعمیر میں مدد کی۔ ایک گھر ہارلے سٹریٹ راولپنڈی میں تھا۔ ان کے فرزند علی یحییٰ کسی بیرونی تیل کمپنی کے ملازم تھے۔ بس جنرل صاحب کی شامیں رنگین ہوا کرتی تھیں۔ لیفٹیننٹ جنرل گل حسن جنرل یحییٰ کے بعد آرمی سربراہ رہے۔ ان کے پاس تو سرے سے کوئی جائیداد نہ تھی۔ بڑے سمارٹ قسم کے آفیسر تھے‘ وردی ان کی ہمیشہ بڑی عمدہ ہوتی‘ اُس وقت کے بیشتر افسروں کی طرح شام کو کچھ شوق فرما لیتے لیکن کسی اور لت سے وہ مکمل طور پر آزاد تھے۔ فوج سے سبکدوشی کے بعد بھٹو صاحب نے انہیں آسٹریا میں سفیر تعینات کیا۔ بھٹومخالف تحریک چلی تو سفارت چھوڑ کر واپس آ گئے۔ آخری ایام راولپنڈی کلب کے ایک کمرے میں گزرے۔ انتقال ہوا تو ان کے پاس ایک سوزوکی مارگلہ گاڑی تھی جو فوج سے ملے ہوئے ڈرائیور کو وصیت میں دے دی۔
یہ اس لیے بیان کر رہا ہوں کہ تب کے اور آج کے اقدار میں کتنا فرق آ چکا ہے۔ جس کا ذکر کرو‘ جس کے بارے میں کچھ جانکاری ہوتی ہے‘ اربوں کا مالک نکلتا ہے۔ معلوم نہیں کس کرشمہ سازی سے۔ وہ زمانہ اور تھا اور موجودہ زمانہ بالکل مختلف۔ دیگر ممالک میں بھی جو اقتدار میں ہوتے ہیں‘ مال شال بناتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ قوم کی بھی کچھ ترقی ہوتی ہے۔ سارے ایشیا کے ممالک کو دیکھ لیں‘ کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں۔ ایک ہم ہیں کہ پیچھے ہی جاتے رہے۔ گھٹیا کا لفظ اب کیا استعمال کریں‘ اچھا نہیں لگتا لیکن ہماری سوچ نچلے درجے کی‘ ہمارے کردار بھی کوئی اتنے درخشاں نہیں۔ لبوں پر پارسائی کے ورد‘ اصل میں وہی پرانی کہانی کہ مال بٹورنے میں لگے ہوئے ہیں۔
دو تین ادوار ہماری تاریخ میں آئے کہ اپنے مقاصد کے لیے امریکیوں نے یہاں پر کچھ ڈالروں کی بارش ہم پر کی۔ ایوب دور میں کچھ امریکی ڈالر آئے پھر جنرل ضیا اورپرویز مشرف کے ادوار میں ڈالر خوب آئے۔ ان کا ہم نے کیا کیا‘ بنایا کیا؟ کچھ بھی نہیں۔ ایک نشانی کی طرف آپ انگلی اٹھا کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ جو ڈالر آئے ان سے ہم نے یہ فیکٹریاں بنائیں یا یہ ڈیم تعمیر کیے۔ سب اُڑا دیے گئے۔ بس کچھ طبقات تھے‘ کچھ اشخاص تھے‘ ان کی جیبیں خوب گرم ہوئیں۔ ان کی پہلے کی حیثیت ہم جانتے ہیں اور بعد میں وہ جو ہو گئے اس ارتقائی عمل کو بھی قوم نے دیکھا۔