اور گلوں میں جب کچھ رنگ بھر جائے توآپ ہی اُنہیں کترنے بیٹھ جاتے ہیں۔اس سلسلۂ باغبانی سے گلستان کا جو حال ہوا ہے وہ ہمارے سامنے ہے لیکن آپ کو اپنی باغبانی پہ ناز ہے اور سمجھتے ہیں کہ آپ کے بغیر گلستان کا کام نہیں چل سکتا۔جب کسی ایک پودے کو تیارکرنے لگتے ہیں تو سب توانائیاں اس کام پر صرف ہو جاتی ہیں۔جب گلوں سے شکایت پیدا ہوتی ہے تو گلوں کو برباد کرنے میں سب کچھ لگ جاتا ہے۔گلستان اُجڑ چکا ہے باغبانی ختم نہیں ہو رہی۔
پاکستان میں ایک عجیب اصطلاح استعمال ہوتی ہے‘ نیشن بلڈنگ۔ پچھتر سال سے قوم کی تعمیر ہو رہی ہے‘ قوم ہے کہ وضع کردہ خطوط پر تعمیر ہونے سے انکاری ہے۔آپ تو بے چین رہتے ہی رہتے ہیں قوم بیچاری کا بھی برا حال کر دیا ہے۔قوم کو اب کوئی سمجھ نہیں ہے کہ کرنا کیا ہے اور کس سمت چلنا ہے۔پھر بھی قوم کو ہانکا جا رہا ہے یہ بغیر جانے کہ ہانکنے کا مقصد کیا ہے۔بنگالیوں کے ساتھ جو ہوا ٹھیک ہوا۔ وہ ہمارے باغبانی کے اصولوں پر اتر ہی نہیں رہے تھے لہٰذا فارمولا تیار کیا گیا کہ اِن سے جان ہی چھڑا لی جائے تو بہتر ہے۔1971ء کے معرکہ آراسال میں یہ نیک کام اپنے انجام کو پہنچا اور ہم بنگالیوں کی فکرسے آزاد ہو گئے۔ یہ اور بات ہے کہ اتنے سال بعد اُن کی باغبانی ہمارے سے قدرے بہتر نظر آتی ہے۔مسئلہ البتہ یہ ہے کہ بنگالیوں سے جان چھڑا کر بھی باقی ماندہ گلستان کی بیقراری اپنی جگہ برقرار ہے۔عجیب گلستان ہے کہ ڈھنگ کا کام اس میں کچھ ہوتا ہی نہیں۔پھربھی ہم پودے لگائے جاتے ہیں اورپھر اُنہیں کاٹنے بیٹھ جاتے ہیں۔کسی کا تو قصور ہے‘ گلستان کی یا تو مٹی ہی ایسی ہے یا باغبانوں کی سمجھ میں کچھ خلل ہے۔
اب حالت یہ ہے کہ گلستان میں کوئی پودا قدپکڑنے کے قابل ہی نہیں رہا جب تک آپ کی کھاد اور پانی اُسے نہ لگے۔لیکن اس امداد کے بعد جو پودے سراٹھاتے ہیں وہ بیکار ہی نکلتے ہیں۔جیسے عرض کیا نکھار اُن گلوں میں آئے توآپ کے دل کا کمال ہے کہ اُس میں شکایت پیدا ہوجاتی ہے۔اب حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اس گلستان میں دل لبھانے والے پرندے آتے ہیں نہ کوئل کی آواز سنائی دیتی ہے۔ایسے گلستان کا پھر کیا کیا جائے ؟مٹی وہی پرانی ہے‘ نت نئے تجربے کرکر کے لگتا یہی ہے کہ مٹی کسی کام کی نہیں رہی۔جہاں تک باغبانوں کی صلاحیت ہے اُس پر کم ہی رائے دی جائے تو بہتر ہے۔
صلاحیتوں کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ اعلان ہو جاتا ہے کہ فلاں گل جو نکھرنے والا ہے اُس میں ایسی خوبیاں دیکھی جائیں گی کہ گلستان کی تمام بیماریاں ختم ہو جائیں گی۔یعنی گل نے گل کیا رہنا تھا مسیحا کا رتبہ عطا کر دیا گیا۔ کسی وجہ سے یا ایسا بھی ہوا کہ بغیرکسی وجہ کے باکمال دلوں میں شکایت پیدا ہوئی تواُسی مسیحانما گل کو برابھلا کہنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ بیچاری قوم جو اس گلستان میں بستی ہے جائے تو جائے کہاں۔کوئی اور ٹھکانہ نہیں اور باغبان ایسے کہ اُن کے سامنے کھڑا ہونا مشکل۔
سچی میں کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔گلوں سے کوئی سروکار نہیں لیکن اتنا تو پوچھنا بنتا ہے کہ اپنا گلستان کب تک تجربہ گاہ رہے گا اور کب تک یہ تجربے ہوتے رہیں گے۔جنگلات کے بارے میں آج کل کی سوچ یہ ہے کہ انہیں قدرتی حالت میں رہنے دیا جائے تو یہ سب سے بہتر ہے‘ درختوں کیلئے اور پرندوں اور جانوروں کیلئے۔ہمارے باغ کو بھی ایسے ہی رہنے دیا جائے تو شاید بہتر ہو‘ کچھ کام کا پودا خود ہی قدنکالنے لگے۔لیکن نہیں‘ باغ کی جان نہیں چھوڑنی‘ نت نئے تجربے کرتے رہنا ہے چاہے باغ کی حالت کچھ بھی ہو جائے۔اب تو کسی تجربے کی گنجائش نہیں رہی‘ سب کچھ آزمایا جا چکا ہے لیکن جہاں صیاد کمزور ہوں تو کیا کرسکتے ہیں۔
پہلا درس تو یہ دیا گیاتھا کہ یہ کوئی عام ملک نہیں منفرد مملکت ہے جس کے بننے میں ایک خاص مقصد پنہاں ہے۔یعنی پوری دنیا ایک طرف اور یہ منفرد ملک ایک طرف۔کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ منفرد حیثیت کیوں عطا ہوئی‘ یعنی قوم میں کون سی خاص خوبی تھی کہ پوری دنیا کو چھوڑ کر اس پر یہ مہربانی ہوئی۔نہ یہ پوچھا گیا کہ منفرد حیثیت سے کون سے مقاصد پورے ہونے تھے۔قانونِ شہادت کا سہارا لیا جائے تو صرف اِتنا پتا چلتا ہے کہ مقاصد تو پتا نہیں کون سے پورے ہوئے یا نامکمل رہے لیکن پچھتر سال میں قوم کا ستیاناس ہو گیا۔آج قوم کی حقیقت سب پر آشکار ہے‘ بکھاریوں والی حالت بن چکی ہے اور جس کشکول میں کچھ نہ کچھ خیرات پڑ جاتی تھی اُس میں اب کچھ ڈالنے کیلئے دوست کہلانے والے بھی تیار نہیں۔جس در پر دستک دیتے ہیں اگلے سمجھ جاتے ہیں کہ سوالی پھرآ گیا ہے۔قوم ایسی صورتحال کے بارے میں کیا کہے اور یہ بھی ہے کہ قوم سے پوچھا کب جاتا ہے۔ قوم کی قسمت کے جو متولی بیٹھے ہوئے ہیں وہی سب کچھ کرتے ہیں اور اب تو یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ مجاوروں اور متولیوں کو بھی کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ کشکول خالی ہے تو اس کا کرنا کیا ہے۔کسی چوراہے پر بیٹھے بکھاری کی سمجھ میں کچھ باتیں ہوں گی لیکن قومی مجاوروں کا ہمیں پتا ہے کہ وہاں سب کچھ خالی ہے۔لیکن مال مویشیوں کیلئے وہی رانجھا ٹھہرا جس کے ہاتھ میں ڈنڈا ہو‘ اُسی کا بس چلتا ہے چاہے باہر کا راستہ جانتا ہو یا اُس سے بے خبر ہو۔
اب پہیلیوں پہ ہی گزارا کرنا پڑے گا یا پریس کانفرنسوں پر۔سیدھی بات کرنا مشکل ہے لیکن سیدھی بات جب ہوتی بھی تھی تب کون سے تیریہاں چلتے تھے۔نکمی اولاد نکمی ہی رہتی ہے۔ بے ثمر گلستان سے کیا نکلنا ہے چاہے سیدھی بات ہو سکے یا نہیں۔عجیب عجیب خیال ذہن میں اٹھتے ہیں۔ کبھی یہ بھی خیال اٹھتا ہے کہ نہ ختم ہونے والا تعمیرِ وطن کا سفر جب شروع ہوا تو ہمارے مجاوروں کو کچھ پتہ تھا کہ وہ کیا کرنے جا رہے ہیں؟آج کے ناگفتہ بہ حالات میں مولانا ابوالکلام آزادکی باتیں اکثر یاد آتی ہیں۔1947ء کے حالات پیدا ہوئے تو اُن کا ایک مخصوص نکتہ نظر تھا۔ شاہجہان کی مسجد میں اُنہوں نے ایک تقریر کی تھی‘ کئی بار سنی ہے‘ اب سننے کا موقع ملے تو دل دہل جاتا ہے۔بات وہی ہے‘ ناقص مٹی ہے یا عقل کی کمی۔جنہوں نے کچھ کرنا ہو وہ ریگستانوں کو سرسبزوشاداب بنادیتے ہیں۔نیت میں کھوٹ ہو‘ارادے مضمحل ہوں یا بازو کمزور ہوں تو زرخیر مٹی بھی بیاباں بن جاتی ہے۔کشکول ہمارا بتاتا ہے کہ ہم نے کچھ ایسا ہی کیا ہے۔خاندانی بھکاری ہوں اُن میں بھی کچھ عزت نفس ہوتی ہے‘ ہم تو آدابِ فقیری سے بھی گئے۔اکڑپھوں اب بھی ہے لیکن اپنے گلستان تک محدود ہے‘ اُس سے باہر ہمیں کوئی نہیں پوچھتا‘ نہ کوئی اوقات ہماری رہ گئی ہے۔ اپنے گھر میں اکڑپھوں دیکھیں تو لگتا ہے کہ دربارِ ہلاکوخان یہی ہے۔نکمے شوہروں کا وتیرہ بھی ہم جانتے ہیں‘ اُن کی تھانیداری گھر میں ہی چلتی ہے۔
مرض کی تشخیص نہ ہو رہی ہو تو دہری یا سیکنڈ رائے لی جاتی ہے۔باغبانی کا بھی یہی اصول ہے‘ کھیت یا باغ میں خرابی ہو تو کسی سمجھدار سے پوچھ لیا جاتا ہے۔ہمارے باغ کا اصول ہے کہ اپنی کرنی ہے‘کسی سے پوچھنا نہیں۔گھوڑوں پربیٹھ کر جوآتے رہے اور قوم کو ہانکتے رہے اُنہوں نے یہی کیا‘ اپنی مرضی کی اور باغ کا ستیاناس ہوتا رہا۔