یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ حقیقت اور خواہشات۔ کتنا آسان ہے یہ کہنا کہ طاقت کے سرچشموں کو اپنے کام پر دھیان دینا چاہیے اور ملک کو موجودہ دلدل سے نکالنے کے لیے انتخابات کی راہ ہموار کرنی چاہیے۔یہ صائب مشورہ یا صائب نصیحت ہے لیکن کیا ایسا ہونے کا کوئی امکان ہے؟ آئین کا حال جو ہو چکا ہے وہ ہم نے دیکھ لیا اور صوبائی انتخابات‘ جو 14مئی کو ہونے تھے‘ ایسے گم ہوئے ہیں کہ ان کی یاد بھی اب چلی گئی ہے۔ ان انتخابات کے بارے میں سپریم کورٹ کا ایک حکم بھی موجود ہے لیکن اعلیٰ عدلیہ کو بھی احساس ہے کہ ہوائیں کس طرف چل رہی ہیں اور ان حالات میں کس بات پر زور دینا چاہیے اور کن باتوں کو بھولنے میں ہی بہتری ہے۔
اب 14مئی کو کیوں انتخابات نہ کرائے گئے‘ ان وجوہات سے ہم سب باخبر ہیں۔ حکمران دُم چھلا اتحاد اور اس اتحاد کے حقیقی مجاور موجودہ حالات میں پنجاب میں انتخابات افورڈ ہی نہیں کر سکتے تھے۔ یہ کوئی معرفت کی بات نہیں‘ اس حقیقت کو ہم سب جانتے ہیں۔ پنجاب میں الیکشن ہوتے تو نمائشی حکمرانوں کے سا تھ وہ ہونا تھا جو شاید افسانوں میں بھی نہ لکھا ہو۔ اسی لیے فیصلہ ہوا کہ چیف جسٹس صاحب اور ان کے ہمنوا جج صاحبان جو مرضی کہتے رہیں‘ ہم نے الیکشن نہیں کرانے اور الیکشن نہیں ہوئے۔ اب ہم کند ذہنوں کو کوئی بتائے کہ اگر الیکشن مئی میں نہیں ہو سکتے تھے تو کیا چار ماہ بعد حکمران دُم چھلا اتحاد کے لیے حالات ساز گار ہو جائیں گے؟ جو اَب افورڈ نہیں کر سکتے تب بھی افورڈ نہ کر سکیں گے۔ ایسے میں الیکشن کہاں سے ہونے ہیں؟
لہٰذا آئین اور قانون کی حکمرانی کی باتیں ایک طرف رکھی جائیں تو بہتر ہے۔ یہ لکھ لیا جائے اور ذہنوں میں محفوظ کر لیا جائے کہ الیکشن تب ہی ہوں گے جب مثبت نتائج کی ضمانت ہو گی۔ اوپر کے حالات بدلے ہیں‘ پی ٹی آئی کی شاخوں سے پرندے اڑان بھری جا رہے ہیں اور پریس کانفرنس کرنا ایک نئی سیاسی اصطلاح بن چکی ہے لیکن مصیبت یہ ہے کہ کمبخت ووٹر اپنی جگہ کھڑا ہے۔ ووٹر تو پریس کانفرنس نہیں کررہے‘ بس وہ دیکھ رہے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا کیا ناٹک سیاست کے نام پر رچائے جا رہے ہیں۔ عام ووٹر تمام نام نہاد سیاسی اکابرین کی حیثیت و حقیقت سے واقف ہے۔ عام ووٹر بیچارے کے پاس ایک ہی ہتھیار ہے‘ ووٹ کی پرچی۔ موقع نہیں آئے گا تو روزمرہ کے کام کاج میں لگا رہے گا۔ روٹی کی جستجو تو آخر اس نے کرنی ہے۔ کل ہی شاہد خاقان عباسی نے پھبتی کَسی تھی کہ عوام کی مہربانی ہے کہ پچاس فیصد مہنگائی کے باوجود سڑکوں پر نہیں نکلے۔ ہمارا پاکستانی مزاج ہی یہ ہے‘ بہت کچھ سہہ جاتے ہیں‘ بعض اوقات تو ٹھڈے پڑتے رہیں پھر بھی چپ رہتے ہیں۔ لیکن پرچی ڈالنے کا موقع آئے تو پھر یہی ووٹر‘ جو عام حالات میں چپ کا مجسمہ بنا ہوتا ہے‘ ظالم بن جاتا ہے۔ پھر وہ اپنی مرضی کرتا ہے اور جب ایسا ہو تو یوں لگتا ہے کہ زمین ہل کے رہ گئی ہے۔
1970ء کے انتخاب میں بہت کم تجزیہ کار یا دانشور تھے جن کو معلوم تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔ 7دسمبر 1970ء کی شام کو میں فوجی ڈیوٹی پر تھانو بلا خان ضلع دادو میں تھا اور دن بھر گشت کرنے کے بعد ٹی وی کے سامنے بیٹھا دیگر ساتھیوں کے ساتھ نتائج کا انتظارکر رہا تھا۔ نتائج آنے لگے تو کانوں اور آنکھوں پر یقین نہ آرہا تھا کہ ہم کیا سن اور دیکھ رہے ہیں۔ مشرقی پاکستان کے نتائج سے ہمیں اتنی دلچسپی نہ تھی‘ ہم تو دیکھ رہے تھے کہ پنجاب اور سندھ میں کیسے بڑے بڑے سیاسی برج الٹ رہے ہیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کے ساتھ منسلک وڈیرے تو بچ نکلے کیونکہ ٹکٹ اُنہی کو ملے تھے لیکن پنجاب میں وڈیروں اور خانوادوں کا برا حال ہو رہا تھا۔ شام کا وقت گزرتا گیا تو ایسے لگ رہا تھا کہ انتخابی نتائج نہیں آ رہے کسی زلزلے کے زوردار جھٹکوں کی اطلاع مل رہی ہے۔
یہی اندیشہ اب ہے کہ کہیں انتخابات کے روپ میں کوئی بڑا زلزلہ نہ آ جائے۔ محافظینِ ملت ناسمجھ نہیں‘ حالات کی جانکاری بخوبی رکھتے ہیں۔ اسی لیے بھرپور کوشش جاری و ساری ہے کہ سابق حکمران جماعت کے پَر کاٹے جائیں۔ پریس کانفرنسوں کا موسم اپنے عروج پر ہے۔ کئی نام ہم جانتے ہیں‘ کئی ایسے ہیں جن کا کبھی سنا نہ تھا لیکن وہ بھی لکھی ہوئی سکرپٹ پڑھنے کسی نہ کسی پریس کلب میں نمودار ہو جاتے ہیں۔ آگے بیٹھے ہوئے صحافیوں کی ہنسی نہیں رکتی کیونکہ تقریباً روزمرہ کی بنیاد پر وہ یہ ناٹک دیکھ رہے ہیں لیکن جنہوں نے سکرپٹ پڑھنا ہے‘ اپنے گھسے پِٹے جملے ادا کرکے عافیت کی تلاش میں چلے جاتے ہیں۔ اگر مان بھی لیا جائے کہ سب کچھ مجبوری کے تحت ہو رہا ہے‘ عزت پھر بھی اسی میں ہے کہ کچھ دیر چپ کرکے گھر بیٹھ جائیں۔ لیکن پریس کلبوں میں منہ پر کچھ مَل کے بھی آتے ہیں پھر بھی ہاتھ پیر مار رہے ہوتے ہیں۔ کبھی جہانگیر خان ترین کے در پر دستک‘ کبھی پیپلز پارٹی کا رُخ یا کسی اور ٹونے ٹوٹکے کی تلاش۔ ہمارے فواد چودھری کو دیکھ لیں۔ کمال ڈھٹائی ہے‘ جس جماعت نے اتنا کچھ دیا‘ چلیں مان لیتے ہیں مجبوری کے تحت اسے چھوڑنا پڑا۔ بھائی کچھ دن تو چپ کرکے بیٹھ جاؤ لیکن نہیں‘ اڈیالہ جیل پہنچ جاتے ہیں شاہ محمودقریشی سے ملنے کے لیے۔ ساتھ وہ شخص جو اپنی پارٹی کی بدولت سندھ کی گورنری پر براجمان رہا۔ ہمت کی داد دینی پڑتی ہے کہ ایسے شہسواروں کے قریب سے بھی شرمندگی نہیں گزری۔
ایسے میں ان خواتین کی‘ جو کوٹ لکھپت جیل میں بند ہیں‘ جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ یاسمین راشد کو دیکھ لیں‘ ستر سالہ خاتون۔ اس عمر میں جو بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں ان کا سامنا لیکن ڈٹی ہوئی ہیں۔ پیشی ہوتی ہے تو چہرے پر ذرا برابر بھی پریشانی کے آثار نہیں ہوتے۔ اور وہ جو تین دیگر چار خواتین ہیں‘ کس ہمت اور اعتماد سے پولیس گاڑیوں سے اترتی ہیں اور اسی طریقے سے واپس جیل کو جاتی ہیں۔ یہ سارے اڑنے والے ایک طرف اور یہ جو چند خواتین ہیں‘ ان کا پلڑہ بھاری ہے۔ اور وہ جو عمر سرفراز چیمہ ہے اُس کے پاؤں تو نہیں ڈگمگائے۔ شاہ محمود قریشی قائم ہے‘ چوہدری پرویز الٰہی بھی۔ حماد اظہر کو بھی دیکھیں‘ چھاپے پڑ رہے ہیں لیکن ارادے مضبوط ہیں۔ کے پی والے جو سارے ہیں‘ مراد سعید‘ علی محمد خان‘ شہریار آفریدی‘ علی امین گنڈاپور اور دیگر راہنما‘ سب کچھ برداشت کررہے ہیں لیکن پیروں پر کھڑے ہیں ۔
یہ بات نہیں کہ پی ٹی آئی نے برا کیا یا بھلا۔ مسئلہ اور ہے کہ جہاں کے تھے وہاں کچھ دیر کھڑے تو رہو۔ جماعت اور اس کی قیادت نے کیا غلطیاں کیں؟ ضرور کیں‘ نہ صرف غلطیاں بلکہ ان سے حماقتیں سرزد ہوئیں۔ لیکن جب برا وقت آئے تو غلطیاں گننے نہیں بیٹھ جاتے۔ حساب کرنے کا وقت بعد میں ہوتا ہے۔ دوستوں اور یاروں پر برا وقت آئے تب پتا چلتا ہے کہ کوئی کتنے پانی میں کھڑا ہے۔ وہی رہ جاتے ہیں جن میں کچھ ہو۔ صاحبِ کردار تو بس ایک اصطلاح ہے لیکن ہاں ہمت اور کردار والے ہی طوفانوں کا سامنا کرتے ہیں۔ طوفان گزر جائیں تب وقت ہوتا ہے حساب کتاب کرنے کا کہ کہاں ہم سے غلطی ہوئی‘ کیا ہم نے کیا جو نہ کرنا چاہیے تھا۔
تمام تر واقعات کو دیکھ کر میری ناقص رائے ہے کہ الیکشن عنقریب نہیں ہونے اور ہوں گے تب جب طاقت کے سرچشموں کو یقین ہو جائے کہ میدان صاف ہو گیا ہے۔ اس کے بغیر کمبخت ووٹر پر بھروسا کون کرے گا؟ لیکن یہ کیفیت کب تک برقرار رہ سکے گی؟ کسی کو نہیں معلوم۔