ایک بات اب طے سمجھنی چاہئے‘ کوئی غیرمعمولی حادثہ ہو جائے تو اور بات ہے لیکن شواہد بتارہے ہیں کہ امریکہ کے آئندہ صدر پھر سے ڈونلڈٹرمپ ہوں گے۔ ریپبلکن پارٹی کی نامزدگی تو یوں سمجھنی چاہئے کہ اُن کی جیب میں ہے اور جہاں تک صدارتی انتخاب کا تعلق ہے وہاں بھی یقینی بنتا جا رہا ہے کہ صدرجو بائیڈن کے بس میں نہیں ہوگا کہ وہ ڈونلڈٹرمپ کا وہائٹ ہاؤس کی طرف راستہ روک سکیں۔جہاں ڈونلڈٹرمپ کا بطورِصدرانتخاب امریکہ کیلئے ایک دھماکے سے کم نہ ہوگا وہاں عالمی سطح پر بھی اس کے بہت سے مضمرات اور اثرات نمایاں ہونے کی توقع ہوگی۔
یوکرین میں جاری جنگ صدرجوبائیڈن اور موجودہ امریکی انتظامیہ کیلئے بہت اہمیت کی حامل ہے۔امریکہ نے یوکرین کی بے دریغ امداد کی ہے اس امید میں کہ نہ صرف روس کا راستہ روکا جا سکے گا بلکہ وہاں پر روس کو شکست بھی ہوگی۔ امریکی امداد تقریباً سوبلین ڈالرز تک پہنچ چکی ہے البتہ اب آثار نظرآرہے ہیں کہ امریکی کانگریس خاص طور پر ریپبلکن پارٹی یوکرین کی اس لامتناعی امداد سے کچھ بیزار ہو رہی ہے لیکن وہائٹ ہاؤس میں کوئی تبدیلی ہوتی ہے تو یوکرین کے بارے میں سارا امریکی زاویہ بدلنے لگ جائے گا کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ کا یوکرین کے بارے میں وہ نظریہ نہیں جو صدر جو بائیڈن کا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے توبارہا کہا ہے کہ وہاں جنگ بند ہونی چاہئے اوروہ صدر ہوں توجلد ہی ایسا کر دکھائیں گے۔ صدر ولادیمیر پوتن کے بارے میں اُن کی رائے صدر جوبائیڈن اور موجودہ امریکی انتظامیہ سے یکسر مختلف ہے۔پوتن سے تو ڈونلڈٹرمپ کے اچھے تعلقات تھے‘ جس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ پوتن کی پالیسیوں کے حامی تھے لیکن اُن کے دورِ صدارت میں صورتحال کم از کم ایسی نہ تھی کہ وہ روس سے بات نہ کرسکتے ہوں۔جیسا کہ وہ شمالی کوریا کے کِم جونگ اُن سے مل سکتے تھے اور بات چیت کرسکتے تھے۔شاید یوکرین کیلئے بھی یہ اچھا ہو کہ کوئی تو ہو جو روس اور یوکرین کے درمیان جنگ بندی کا سمجھوتا کراسکے۔فی الحال تو یوکرین کی جنگ پر جمود طاری ہے‘ روس اگر یوکرین کو میدانِ جنگ میں شکست نہیں دے سکا تو یوکرین بھی روس کو پیچھے نہیں دھکیل سکا۔ جتنا بھی یوکرین کو اسلحہ ملتا رہے یہ سوچنا خام خیالی ہوگی کہ روس کو میدانِ جنگ میں شکست ہوسکتی ہے۔اُس کا نقصان ہو رہا ہے ‘ اس میں کوئی شک نہیں لیکن نقصان اٹھانا اورمکمل شکست کا سامنا دو الگ باتیں ہیں۔
جوبائیڈن اورموجودہ امریکی انتظامیہ تو کسی پوزیشن میں نہیں کہ روس اور یوکرین کے درمیان کچھ معاملات طے کراسکیں۔ انہوں نے اس جنگ میں ایک فریق کی حیثیت اپنائی ہوئی ہے‘ فریق کہاں سے ثالث بن سکتے ہیں؟ البتہ ڈونلڈٹرمپ منتخب ہوتے ہیں تووہ روس سے یقینا بات کرسکیں گے اور یوکرین کو بھی اُن کی بات سننی تو پڑے گی۔ جنگ جاری رہتی ہے جہاں روس کا نقصان ہو رہا ہے وہاں یوکرین کی تباہی بھی ہو رہی ہے ۔ دانائی اسی میں ہے کہ کسی نہ کسی طرح یہ جمود ٹوٹے لیکن موجودہ امریکی انتظامیہ اس جمود کو توڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
پاکستان میں کوئی زمینی جنگ جاری نہیں لیکن یہاں بھی ایک سخت قسم کا جمود پیدا ہوچکا ہے۔ موجودہ سیاسی بندوبست ایسا ہے کہ اُس کیلئے انتخابات کے ذریعے عوامی تائیدحاصل کرنا اِتنا آسان نہیں لگتا۔ وہ اس لئے کہ سیاسی محاذ پر تفریق بہت گہری ہو چکی ہے اور بیشتر سیاسی مبصرین کی نظروں میں عوامی تائید کسی اور طرف جھکی نظرآتی ہے۔ لیکن جہاں یہ تائید جھکی نظرآتی ہے یہ امر طاقتور حلقوں کو قابلِ قبول نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی میدان کی صورتحال دگر گوں ہے۔یعنی ایک طرف عوامی تائید حاصل کرنا مشکل ہے اور دوسری طرف جہاں عوامی تائید نظرآتی ہے‘ کسی کیلئے وہ قابلِ قبول نہیں۔جیسا کہ یوکرین کی جنگ میں کوئی ثالث نظرنہیں آتا پاکستان کی اندرونی کشمکش میں بھی نہ کوئی ثالث ہے نہ کوئی نظرآتا ہے۔ لائنیں کھینچی ہوئی ہیں ‘ عداوتیں بڑھ چکی ہیں‘ ذہن پکے ہوچکے ہیں لیکن اس صورتحال کا کوئی حل بھی تو نکلنا چاہئے۔کیونکہ اس جمودکی قیمت پاکستانی عوام اور پاکستانی ریاست ادا کررہے ہیں۔پاکستان جن مسائل میں دھنسا پڑا ہے اُن کا بیان کرنا فضول ہے کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ وہ مسائل کیا ہیں۔معیشت کا برا حال ‘ سیاست میں ایک بحران کی کیفیت اور سکیورٹی صورتحال ایسی کہ دیکھ کر ہرپاکستانی کو دھڑکا لگا ہواہے۔ایسے میں پاکستان کو ایک مستحکم حکومت کی ضرورت ہے‘ ایسی حکومت جسے عوامی تائید حاصل ہو ‘ اور یہ تائید انتخابات کے ذریعے ہی حاصل ہوسکتی ہے‘ آسمانوں سے تو اس تائید نے آنا نہیں۔یہاں بھی کسی ثالثی کی ضرورت ہے تاکہ سخت رویوں میں کچھ نرمی پیدا ہواور کچھ عقل کی بات کی اور سنی جائے۔
مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ امریکی انتظامیہ پاکستان کی موجودہ صورتحال سے مطمئن ہے۔ یہ تو اب عام فہم کی بات ہے کہ ہمارے حوالے سے امریکہ کی کچھ پسنداورناپسند تھی اور جو ناپسند تھی اُس کا علاج پچھلے سال ہوگیا تھا۔یعنی جب تک بائیڈن انتظامیہ موجود ہے پاکستان کے بارے میں امریکی نقطہ نظر میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔لیکن اگرامریکہ میں کچھ تبدیلی ہوتی ہے اور وہائٹ ہاؤس میں ڈونلڈٹرمپ براجمان ہو جاتے ہیں تو یہ امید کی جاسکتی ہے کہ جن نظروں سے امریکہ پاکستان کو دیکھ رہا ہے اُن نظروں میں بھی کچھ تبدیلی آئے۔جس وجہ سے موجودہ امریکی انتظامیہ نے پاکستان کے بارے میں ایک خاص رائے قائم کی تھی وہ وجہ ڈونلڈٹرمپ کیلئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ وہ تو چاہیں گے کہ یہ یوکرین والا جھمیلا ختم ہو اور امریکہ اپنا دھیان کسی اور طرف کر سکے۔ ڈونلڈ ٹرمپ بڑے واضح طورپر سمجھتے تھے کہ امریکہ کا نمبرون پرابلم چین ہے اور روس سے مخاصمت کو وہ بیکار کی بات سمجھتے تھے۔اگر وہ صدر بنتے ہیں تو یہ خیال کیا جاسکتا ہے کہ وہ یوکرین کی جنگ کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے۔ اوراگر وہ ایسا کرتے ہیں توپاکستان کے بارے میں امریکی رائے کاکچھ نہ کچھ بدلنے کا امکان توپیدا ہو جائے گا۔
خاصی شرم سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم مکمل طور پر ایک طفیلی ریاست بن چکے ہیں۔ اوروں کے دیے پر ہماری معیشت چل رہی ہے۔ سعودی عرب ‘ یو اے ای اور چین سے ہمیں امداد نہ ملے تو پتا نہیں ہماری حالت کیا ہو جائے۔ آئی ایم ایف کی آشیرباد بھی ہمارے لئے بہت ضروری ہے اور جیسا کہ ہمیں پتا ہے موجودہ آئی ایم ایف پروگرام کی تجدید میں امریکہ کا خاصا کردار رہاہے۔ مطلب یہ کہ ہمارے لیے امریکی خوشنودی بہت اہمیت رکھتی ہے۔رجیم چینج میں امریکہ کی کیا رائے تھی اُسے جانے دیجئے ‘ حساس مسئلہ ہے اورایسی باتیں کرنے سے ہم زیادہ ہی حساس ہو جاتے ہیں۔ لیکن اتنا تو ہے کہ کہ جو سگنل یا پیغامات وہاں سے آتے ہیں یہاں پر اُنہیں اہمیت دی جاتی ہے۔ اگر ڈونلڈٹرمپ کے الیکشن کی صورت میں امریکی سیاسی موسم بدل جاتا ہے تو اس کے اثرات کیا پاکستان پر نہ ہوں گے؟
آج کل جو یہاں ہو رہا ہے اُس پر کوئی امریکی اعتراض نہیں اٹھ رہا لیکن ڈونلڈٹرمپ جیت جاتے ہیں تو پھر کیا ہوگا؟ یہ نہیں کہ امریکہ نے ہمیں کوئی ڈکٹیشن دینی ہے لیکن جس گمبھیر صورتحال میں ہم پھنسے ہوئے ہیں وہاں دور سے اشارہ بھی کافی ہوتا ہے۔اس ساری بحث کا مفہوم یہ نکلتا ہے کہ سال سوا سال یہاں پرصبر کا گھونٹ پینا پڑے گا۔ ہرلحاظ سے یہ مشکل وقت ہے اورروشنی کی کرن کہیں نظرنہیں آتی‘ نہ معاشی محاذ پر نہ سیاست کے میدان میں ۔ لیکن یہ بھی نہیں کہ ایسی صورتحال کبھی ختم نہیں ہوتی۔ وہ کیا ہے کہ لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے۔