کیا خاک ہم جیے ہیں کہ اتنی عمر بیت چکنے کے بعد اب کہیں جاکے استاد بڑے غلام علی خان کا راگ جون پوری سننے کا موقع ملا ہے۔ لاہور سے گاؤں واپس آتے ہوئے فون کان کو لگایا تو یوٹیوب پر اچانک کہیں سے یہ ماسٹر پیس سامنے آ گیا۔ سنا تو دم بخود تو رہ ہی گئے لیکن اپنے پہ شرم بھی آئی کہ اتنے سال کیا جھک مارتے رہے ہیں کہ ایسے شاہکار سن نہ پائے۔ یہی کہیں گے کہ ہماری تعلیم میں کچھ کمی رہی یا کچھ یہاں کا ماحول ہی ایسا تھا کہ کسی نے تاکید نہ کی کہ ذوق کو ترتیب دینا ہے تو ایسی چیزیں سنا کرو۔ یوٹیوب پر گانوں کے نیچے کمنٹ بھی آتے ہیں‘ ایک کمنٹ یہ تھا کہ استاد امیر خان نے راگ میگھ گا کر کمال کر دیا۔ اب ہم نے راگ میگھ بھی نہ سنا تھا‘ فوراً اُسے ڈھونڈا اور سنتے گئے تو جیسے وجد کی کیفیت طاری ہو گئی۔ بس یہی کہہ سکتا ہوں کہ استاد امیر خان کا‘ جس نے یہ راگ نہیں سنا اُس نے زندگی اپنی مکمل طور پر نہیں توکچھ حد تک ضائع کی۔
ریڈیو پاکستان پتا نہیں کس بلا کا نام ہے‘ ایسے پروگرام یہاں پر کیوں نہیں چلتے؟ پڑوس میں آل انڈیا ریڈیو تقاریب منعقد کرتا تھا جس میں بڑے بڑے گویے آکر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے۔ استاد بڑے غلام علی خان کی بہت ساری آل انڈیا ریڈیو کے حوالے سے ریکارڈنگ ہیں‘ استاد امیر خان کی بھی۔ شائقین نے انہی ریکارڈنگز کو جمع کرکے یوٹیوب پر ڈالا ہوا ہے جس وجہ سے ہم جیسوں کے کان بھی اُن پر لگ جاتے ہیں۔ ہماری بیماری کیا ہے کہ ہم نے ہر چیز کو پنپنے نہیں دیا‘ جو چیزیں ورثے میں ملیں‘ چین نہ آیا جب تک اُنہیں زنگ آلود یا ناکارہ نہ کر دیا۔ ریڈیو پاکستان میں کچھ جان ہوتی تو کلاسیکی موسیقی کے باقاعدہ پروگرام ہوتے‘ اور روزمرہ کی بنیاد پر ہوتے تاکہ کلاسیکی موسیقی کی تشہیر ہو سکتی اور ہم جیسے کچھ خیال اور راگوں کے بارے میں جان سکتے۔ ہم کسی موسیقی کے گھرانے کے تو فرد ہیں نہیں کہ ہمیں راگ راگنیوں کو سننے کا موقع ملے‘ نہ کوئی بیٹھکیں رہ گئی ہیں جہاں پر حاضری دے کر استادوں کو ہم سن سکیں۔ ریڈیو پاکستان یہ کام کر سکتا تھا لیکن اُس کا گِلہ کیا کرنا کیونکہ کوئی ادارہ نہیں ہے جس کو ہم نے بخشا ہو۔
ریلوے ہمارے ہاتھ چڑھی‘ اُس کا وہ حال کیا کہ داستانوں میں لکھا جائے۔ ہوائی جہاز کچھ عرصہ تو ہم سے چلے اور اُنہوں نے خوب نام بھی کمایا لیکن جب ہمارا خمیر اُن جہازوں پر حاوی ہوا تو پھر پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کا حال بھی پاکستان ریلوے جیسا ہوا۔ روسی حکومت نے ہمیں ایک سٹیل مل لگا کر دی‘ وہ ہم سے چل نہ سکی اور اب اُس کا وہ حال ہے کہ منتیں بھی کریں تو کوئی اُسے ہاتھ نہ لگائے۔ ایسے میں ریڈیو پاکستان یا موسیقی کی دنیا نے ہمارے ہنر اور کرشمات سے کہاں بچنا تھا۔ لیکن پھر بھی افسوس ہوتا ہے کہ جو موسیقی اور پڑھائی کے مواقع ملنے چاہیے تھے وہ بطورِ قوم ہمیں نصیب نہ ہوئے اور اب جو ہمارا حال ہے‘ اُس میں کوئی حیرانی نہیں ہونی چاہیے۔ ہنر ہم نے اگر بہت زیادہ نہ سیکھے‘ بے ہنری کے سیکھنے میں ہم نے انتہاکردی۔
حقیقت میں ہم ایک بے سلیقہ قوم ہیں‘ کچھ کام بھی ہم سے ڈھنگ سے نہیں ہوتا۔ صحیح طرح ہم اپنا سیاسی نظام نہ چلا سکے۔ مانا کہ انگریز ایک حاکم قوم تھی‘ ہم پر حکمرانی کی اور یہاں کے وسائل لوٹ کر اپنے لیے استعمال کئے لیکن اس میں اتنا رونا کیوں کہ فاتح ایسا ہی کرتے ہیں اور مفتوحوں کے ساتھ وہی ہوتا ہے جو ہمارے ساتھ ہوا۔ لیکن پھر بھی اپنے دورِ حکمرانی میں سیاسی طور پر وہ ہمیں بہت کچھ دے گئے۔ سیاسی جماعت کی تشکیل کیسے ہوتی ہے‘ برصغیر کے لوگوں نے اُن سے سیکھا۔ نمائندہ حکومت کی بنیادیں اُن کی وجہ سے یہاں پڑیں۔ ہمارے سلطانوں اور بادشاہوں کے زمانے میں کون سے ڈسٹرکٹ بورڈ کے الیکشن ہوا کرتے تھے‘ ان چیزوں کا درس ہمیں انگریزوں نے دیا۔ ہمارے بڑے بڑے لیڈروں نے تعلیم بھی وہاں سے حاصل کی: جناح صاحب‘ گاندھی جی‘ پنڈت نہرو غرضیکہ بے شمار اشخاص جو لیڈری کی پوزیشن پر پہنچے اُن کی تعلیم و تدریس وہاں ہوئی۔
1947ء میں جب ہندوستان کا بٹوارہ ہوا اور انگریز یہاں سے گئے تو جمہوری ادارے ورثے میں چھوڑ کر گئے۔ ہمارے پڑوسیوں نے تو جمہوریت اور سیاست کا کچھ کر لیا‘ ہم سے نہ کیا گیا۔ ہم نے تو اپنی جمہوریت کا وہ حشرکیا کہ اب ہماری سمجھ سے یہ بات باہر ہو گئی ہے کہ اس بتنگڑ کی اصلاح کیسے کی جائے۔ تاریخ چھوڑیے‘ آج کل کے حالات پر ایک نظر دوڑائیے۔ ہمارے دماغوں میں اتنی بات تو آ رہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح الیکشن کرانا پڑیں گے‘ ان سے کوئی چھٹکارا نہیں۔ آئین کا تو تقاضا ہے ہی لیکن آئین جیسے کتابچے کی یہاں کیا اہمیت ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ الیکشن نہ کرائے جائیں تو ہماری عالمی پوزیشن‘ جو پہلے ہی بہت خراب ہو چکی ہے‘ مزید خراب ہو جائے گی اور آئی ایم ایف سے معاملات بھی کھٹائی میں پڑ جائیں گے۔ لہٰذا ہم ناسمجھوں کی سمجھ میں بھی اتنی بات ضرور آ رہی ہے کہ الیکشن تو کرانا پڑیں گے لیکن الیکشن کی طرف سوچ جاتی ہے تو دلوں میں وسوسے اٹھنے لگتے ہیں۔ کسی لحاظ سے بھی آزاد الیکشن کرائے جائیں تو جن مہروں کو الیکشن کے میدان کیلئے تیار کیا جا رہا ہے‘ وہ پِٹ نہ جائیں۔ اور وہ پٹ گئے تو ذہنوں میں سیاسی بندوبست کا ایک تصور جو بنا ہوا ہے اُس کا کیا ہو گا؟ اور جنہیں ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے‘ وہ اگرعوام کی پسند بن گئے تو پھر کیا ہو گا؟ مقدمات قائم کرنا تو ہمارے اختیار میں ہے لیکن جو ووٹ دینے والے ہیں اور کروڑوں پر محیط ہیں‘ اُن سب پر تو مقدمات قائم نہیں ہو سکتے۔ لہٰذا ووٹ ڈالنے والوں نے اپنی مرضی کی اور ہماری نہ سنی تو محترم نواز شریف اور اُن کی جماعت کا کیا بنے گا؟ اعداد و شمار کے اُتار چڑھاؤ سے اُنہیں کچھ فائدہ پہنچا بھی دیا جائے تو ایسے نتائج کو مانے گا کون؟ ہمارے عوام ویسے ہی بڑے مزاحیہ قسم کے ہیں‘ کسی کا مذاق کرنے پر اُتر آئیں تو اگلے کا حشر ہو جاتا ہے۔ تو صورتحال پھر ایسی بنتی جا رہی ہے کہ الیکشن کرانے بھی ہیں کیونکہ کئی لحاظ سے مجبوری ہے لیکن ڈر بھی ہے۔ اس مخمصے میں پوری قوم پھنسی ہوئی ہے۔
چیزیں سلیقے سے کرنے کا درس کہاں سے ملتا ہے؟ صحبت سے‘ کتابوں سے‘ موسیقی سے۔ کتابوں اور موسیقی سے آپ ناآشنا ہوں تو سلیقہ کہاں سے آئے گا؟ کسی تاج محل کی تخلیق ایسے ہی نہیں ہو جاتی۔ جو مصور ایسی عمارت کا نقشہ کھینچتا ہے اُس کی آنکھ اور دماغ میں کچھ ہنر اور سلیقہ ہو تب ہی کچھ چیز کاغذ پر لا سکتا ہے۔ ہمیں کہاں سے درس ملے گا سیاسی معاملات کو ڈھنگ سے چلانے کا؟ کون بتائے گا کہ یہ جو ہمارے ہاں زبردستی کی کارروائیاں ہوتی ہیں‘ ان سے نقصان زیادہ اور فائدہ کم ہوتا ہے؟ اور یہ سبق بھی ہمیں کہاں سے ملے گا کہ سیاسی معاملات ٹھیک نہ ہوں تو جہاں حکمرانی ٹھیک طرح چل نہیں سکتی وہاں معاشی معاملات بھی درست نہیں ہو پاتے؟
رونے کا مقام ہے یا ہنسنے کا کہ چوبیس‘ پچیس کروڑ آبادی ہو گئی ہے اور معیشت سے لے کر سیاست تک ہرچیز ایک بحرانی کیفیت میں مبتلا ہے۔ نہ ہوائی جہاز چل رہے ہیں نہ سٹیل مل کا کچھ ہو رہا ہے‘ نہ کرکٹ ہم سے کھیلی جا رہی ہے۔ کرکٹ ٹیم اور اُس کی مینجمنٹ کیا تماشے ہندوستان میں کررہی ہے‘ یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ ہر سُو تباہی ہو تو کامیابی کہاں سے آئے؟ ہنرمند قومیں ہی کھیل کے میدان میں ہنرمند ثابت ہوتی ہیں۔