جب آج سے کوئی چالیس‘ پینتالیس سال پہلے اس گھاٹ کا پانی پینا شروع کیا توصحافت کے بارے میں ہمارے بڑے رومانوی قسم کے تصورات ہوا کرتے تھے۔ یقین تھا کہ یہ ایک مجاہدانہ پیشہ ہے اور اس کا مفہوم طاقت کے ایوانوں کے دوسری طرف کھڑا ہونا ہے۔پاکستان کی تاریخ ہی ایسی رہی کہ یہ سمجھا جاتا تھا کہ ایک تو سرکاری سچ ہے اوردوسرا وہ جو اس کے خلاف بولا جائے۔آج تو سماں ہی بدل چکا ہے اوراگر مڑ کر پیچھے دیکھتے ہیں تواپنے آپ کو بیوقوف ہی سمجھتے ہیں کہ کیسے کیسے عجیب خیالات ذہن میں پال رکھے تھے۔ پہلے کے سخت ترین ادوار میں بھی ایسے لوگ ہوتے تھے جو اپنے طریقے سے سچ کی بات کرلیتے تھے لیکن آج یوں لگتا ہے کہ ہم سارے ایک ہی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔کیمروں کے سامنے بیٹھتے ہیں تو مدح سرائی کی داستانیں بیان کررہے ہوتے ہیں اور کوشش یہی ہوتی ہے کہ ہر آمرانہ کارروائی کا خوبصورت انداز سے جواز اور عذر پیش کیا جائے۔مزے کی بات یہ ہے کہ ایسی کارروائیوں کو اتنا برُا بھی نہیں سمجھا جاتا‘جیسے رشوت لینا آج کے زمانے میں عیب نہیں سمجھا جاتا‘ مراکزِ اقتدار کے خوشامدیوں کو بھی اتنی برُی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔
حکومتوں کو کسی ترجمان گروپ کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ اُن کے اپنے تنخواہ دار ترجمان ہوتے ہیں۔ پورے کے پورے محکمے ہیں جو ترجمانی کے فرائض پر معمور ہیں۔ ایسے میں چمچہ گیری ایک فضول کارروائی بن جاتی ہے لیکن اسی کارروائی میں کتنے ہیں جو نہیں پڑے ہوئے؟ آج کل کا تو سکہ رائج الوقت ہی یہ لگتا ہے کہ مراکزِ اقتدار جو چاہیں کریں اوراُن سے صرف یہ نہیں کہ نہ پوچھا جائے بلکہ اُن کی ہر حرکت پر زور زور سے تالیاں بجائی جائیں۔پہلے وقتوں میں نجی چینل تو ہوتے نہیں تھے‘ ایک حکومتی تحویل میں پاکستان ٹیلی ویژن تھا جو ترجمانی کے فرائض ادا کرتا تھا۔ جھُک جھُک کے آداب بجا لاتے ہوئے اس ادارے کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ سچ کہنے کے قابل نہیں رہا تھا۔ پروپیگنڈا کا بھی ایک معیار ہوتا ہے ۔ ہٹلر کے جرمنی میں تمام شخصی آزادیاں سلب ہو چکی تھیںاورآزادیٔ اظہار نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔لیکن ہٹلر کے جو پروپیگنڈا منسٹر تھے ‘جوزف گوئبلز ‘ اُن کے ہاتھوں پروپیگنڈا تو ہوتا تھا لیکن اعلیٰ معیار کا۔ ہٹلر کی پسندیدہ ڈاکومنٹری فلمیں بنانے والی لینی ریفن شِٹال تھی۔ اُس کی ڈاکومنٹری فلمیں یوٹیوب پر باآسانی دستیاب ہیں۔ اُنہیں دیکھیں تو پتا چلے گا کہ پروپیگنڈا ہو تو اس معیار کا ہونا چاہئے۔ ہمیں توعمدہ چمچہ گیری بھی نہ آئی‘ یہاں مدح سرائی اس بیہودہ انداز سے کی جاتی ہے کہ شرم کی بات تو نہیں لیکن چِڑ ضرور آتی ہے کہ چَول مارنی ہو تو کسی معیار کی تو ہونی چاہئے۔
طاقت کے مراکز کے خلاف ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اقتدار میں جو بھی ہو ‘ جو کپڑے بھی اُس کے زیب تن ہوں‘ صحافت کا شیوہ اُس کی خوشامد نہیں بلکہ اُس کی کمزوریوں اور کوتاہیو ں کو اجاگرکرنا ہے۔ بادشاہ تو جیسا ہو اُس کی مدح سرائی کی جاتی ہے لیکن حماقتوں اور بیوقوفیوں کی وجہ سے کوئی بادشاہ بے لباس ہو جائے تو کوئی کم سن لڑکا تو ہو جو کہہ سکے کہ بادشاہ بغیر کپڑوں کے ہے۔اپنی تاریخ یا حالت کو کیا روئیں‘ اقتدار کے حوالے سے جیسی جیسی لایعنی باتیں ہوتی ہیں‘ کچھ کہہ نہیں سکتے۔پورے کا پورا پیشہ ہی کمپرومائز ہوچکا ہے۔ کہیں مصلحتیں آڑے آ جاتی ہیں کہیں بزنس اورکمرشل مفادات۔بہت حد تک تو صحافت آج کمرشل مفادات کے تحفظ کا ایک نام بن چکا ہے۔ہم جیسے جو اس پیشے سے منسلک ہیں‘ مجبوری کے مارے ہیں۔ اپنی مثال لوں تومجھے اورکوئی ہنر آتا ہی نہیں‘ کسی اور کاروبار کیلئے فِٹ ہی نہیں۔ چلتی فیکٹری مجھے دے دیں مہینے میں تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گی۔ لکھنے کا ڈھنگ سیکھنا شروع کیا توبہت محنت کرکے جوکچھ صفحے پر آتا تھا اُس کا قلیل سا معاوضہ ملتا تھا لیکن حالت یہ ہوتی کہ وہ تھوڑے پیسے بھی ہاتھ آتے تو خوشی سے پھولے نہ سماتے۔اُن گزرے زمانوں میں اس یقین پر جیتے کہ رات اندھیری ہے تو یہ عارضی اَمر ہے‘ اچھے دن بھی آئیں گے۔ مردِحق ضیا الحق کے زمانے میں بھی کبھی افسردگی نے دل میں گھر نہ کیا۔ ایم آر ڈی کا چھوٹاسا جلسہ کہیں لاہور میں ہوا توبذریعہ ہوائی جہاز لاہور جاتے اور چند سو سامعین کو دیکھ کر سمجھتے کہ جلد ہی ایسے مناظر ایک بڑے غبار کی شکل اختیارکر جائیں گے۔ آخری جہاز سے شام کو لاہور سے واپس لوٹتے اور میٹھی نیند کی آغوش میں چلے جاتے کہ آج ہم نے بہت بڑا کا م کیا ہے۔ فضول سی تحریرہوتی تو سمجھتے کہ جہاں انقلاب کے اورپیش خیمے ہوں گے ہماری فضولیات کا شمار بھی اُنہی میں ہوگا۔یہ سچ ہے کہ اُن دنوں جیب ہلکی ہوتی لیکن شام کے سائے ڈھلتے توگفتگو ہماری کسی ٹراٹسکی سے کم نہ ہوتی۔
مسلم اخبارکا دفتراسلام آباد کے محلہ آبپارہ میں ہوا کرتا تھا۔ وہاں ہماری میزپروفیسر ایرک سیپریئن کے میز کے ساتھ ہوتی تھی۔کیا زندہ دل انسان تھے‘ کہیں کوئی جلوس نکلا‘ کوئی اپوزیشن کی کارروائی ہوئی‘ تواپنی بھاری آواز میں کہتے کہ لگتا ہے کہ بڑی آرگنائزیشن ہو رہی ہے۔پرانے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے ممبر تھے اورایسی گفتگو اُن کی رومانوی طبیعت کی آئینہ دار تھی۔ ستمبر1979ء کو امریکن ایمبیسی میں آگ لگی تو خبرسنتے ہی ہم دونوں وہاں کی طرف ہولیے۔میں توایامِ جوانی میں تھا لیکن پروفیسرصاحب کا چلتے چلتے سانس تھوڑا پھول رہا تھا لیکن ہمارے قدم ایک یقین سے آگے بڑھ رہے تھے کہ جیسے 1789ء میں قلعہ بیسٹیل پر حملہ انقلابِ فرانس کا پیش خیمہ ثابت ہوا‘ یہ واقعہ انقلابِ پاکستان کا پیش خیمہ ہوگا۔
اب ایسے واقعات پر ہنسی آتی ہے اور کچھ رونا بھی۔ کہاں کا انقلاب اور کون سے پیش خیمے۔زما نہ بیت چکا ہے اوراب تو ادھورے خواب بھی نہیں رہے۔ معاشرے کا مزاج بدل چکا ہے۔ ضیا کی آمریت کے باوجود تصورِ پاکستان پر ایمان کمزور ہونے کے بجائے زیادہ پختہ تھا کیونکہ اُس ایمان کا حصہ یہ بھی تھا کہ وقت کروٹ ضرور بدلے گا اوراچھے دن آئیں گے۔ آج وہ یقین کہیں گم ہوچکا ہے۔ پاکستان قائم ہے اورقیامت تک ایسا ہی رہے لیکن وہ بھروسے اُٹھ چکے ہیں‘ رومانوی تصورات کے تو اب نشانات بھی نہیں رہے۔ جیسے ذہنوں میں سے کوئی ایسی ایکسرے مشین گزری ہو کہ سب کچھ مٹا دیا ہو۔اب ہم ہیں اورپاکستان کی ہاؤسنگ سوسائٹیاں ‘ جہاں دیکھو کوئی نہ کوئی ہاؤسنگ سکیم نظرآتی ہے۔ زرعی زمینوںاوردرختوں سے لدے پہاڑی علاقوں کا وہ حشرکیا ہے کہ کوئی تاتاری فوج آتی تو وہ بھی نہ کرسکتی۔ اور یہ بائیس چوبیس کروڑ کی آبادی ہے ‘ اسے ان تباہ کاریوں کاکوئی احساس نہیں۔نالائقی اپنی جگہ لیکن اتنا بے حس ہونا؟ یہ عجیب امتزاج ہے اورشاید ہماری قوم کا ہی خاصا ہے۔
ایسے میں صحافت نے کہاں بچنا تھا ‘ جیسے معاشرے کا رنگ ہوگا صحافتی بھونپوؤں کا حال بھی ویسا ہی ہوگا۔ ایسی صورتحال میں یہ بھی کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ پاکستانی گفتگو بالعموم اتنی مایوس کن ہوچکی ہے۔ جہاں جائیں ‘ جہاں بیٹھیں‘ ایک ہی سوال لبوں پر آتا ہے کہ ملک کا کیا بنے گا اورپھر مایوسیوں اور ناکامیوں کی ایک لمبی گردان سنائی جاتی ہے۔ ایسی کیفیت کبھی پہلے نہ دیکھی تھی۔سقوطِ ڈھاکہ کے وقت بھی اتنے گِرے ہوئے چہرے نظر نہیں آتے تھے۔ موجودہ وقت کی تو حالت عجیب ہے‘ جیسے امیدکی آخری کرنیں دلوں سے نکال لی گئی ہوں۔ پہلے کی اداس شامیں ہماری اپنی تخلیق کی ہوتی تھیں۔ راہِ الفت میں کوئی ناکامی ہوتی تووجود پر اداسی کی چادراوڑھ لیتے۔آج کل کی اداس شامیں اپنے ہی معنی رکھتی ہیں۔