سیاست پر کیا بات کی جائے؟ وہی موضوع ہیں‘ وہی شخصیات جن کا ذکر کرکرکے تنگ آ چکے ہیں۔ معیشت کی بات شروع کی جائے تو رونے پیٹنے سے دور رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کچھ اور موضوع ہیں جن پر لب کشائی صحت کے لیے مضر ثابت ہو سکتی ہے۔ مصوری پر یہاں کس نے بات کرنی ہے؟ موسیقی پر لکھنے والے کم ہیں اور شاید پڑھنے والے بھی کم ہیں۔
آگے الیکشن ہونے کو ہیں‘ یہ بھی گھسا پِٹا موضوع ہے کیونکہ اس پر جو بات کہی جا سکتی ہے‘ ہزار مرتبہ کہی جا چکی ہے۔ مجھے تو سب سے دلفریب بات یہ لگ رہی ہے کہ یہ جو حالیہ بارشیں ہوئیں‘ ان سے موسم کچھ ٹھنڈا ہو گیا ہے۔ شاموں کو آگ لگانے کا وقت تو نہیں آیا لیکن سردیوں کے لیے کیکر اور پھلائی کی لکڑی ہم آہستہ آہستہ اکٹھی کرنے لگے ہیں تاکہ ٹھنڈی شاموں میں دقت نہ ہو۔ رُت بدلنے کے ساتھ ہی ہمارے مالٹوں کا رنگ بھی بدل رہا ہے۔ باغ تو ہمارا نہیں ہے‘ چند درخت ہیں لیکن ان کے بیچ ٹہلتے ہوئے یہی گمان ہوتا ہے کہ یہ بیبلون کے مشہور جھکے ہوئے باغ (Hanging Gardens of Babylon) ہیں۔ اس دفعہ مالٹوں سے پیڑ لدے پڑے ہیں‘ گو گرے بھی کافی ہیں۔ نہری علاقوں میں کسان دوائیں استعمال کرتے ہیں جس سے وہ خاص مکھی‘ جو فروٹ کو نقصان پہنچاتی ہے‘ کا تدارک ہو سکتا ہے۔ میں ان دوائیوں سے پرہیز کرتا ہوں کیونکہ یہ دوائیاں زہر ہوتی ہیں اور وقتی علاج تو ہو جاتا ہے لیکن اس سے اور کیڑے مکوڑے بھی مر جاتے ہیں جو کہ اچھی بات نہیں۔ مونگ پھلی کی فصل آ چکی ہے لیکن اس بار یہ نرم رہی ہے کیونکہ دانہ چھوٹا پڑا ہے۔ ہم نے اپنے استعمال کے لیے کچھ دیسی مونگ پھلی اُگائی تھی‘ کھیت چھوٹا سا تھا لیکن جو مونگ پھلی ہاتھ آئی ہے ہمارے لیے کافی ہے۔ انگیٹھی میں آگ جل رہی ہو‘ بھُنی ہوئی دیسی مونگ پھلی ہو اور ساتھ ہی میز پر شام کے وہ لوازمات جن کے بارے میں شاعر لکھتے ہیں تو اور کیا چاہیے۔ اُلفت کی راہیں رہ جاتی ہیں لیکن ہر چیز تو پھر نہیں ملتی‘ یہ بھی شاید نظامِ قدرت ہے کہ جب قدرت مہربان بھی ہو‘ کچھ نہ کچھ پھر بھی روکے رکھتی ہے۔ ویسے بھی ملازمین کے ہوتے ہوئے اُلفت کی راہوں پر چلنا کچھ دشوار سا ہو جاتا ہے۔
اس وقت گندم کی بوائی تقریباً مکمل ہو چکی ہے۔ شروع کی فصل نظر بھی آنے لگی ہے۔ یہ جو نئی نئی گندم کی فصل اُٹھنے لگتی ہے‘ یہ نہایت ہی دلکش منظر پیش کرتی ہے۔ کھیت کے کھیت حتیٰ کہ حدِ نگاہ تک یہ سبز چادر پھیلی ہو‘ اس سے زیادہ خوبصورت منظر کیا ہو سکتا ہے؟ ہمارا جو پرانا ٹھکانہ ہے‘ اس کے قریب سے ہی کھیت شروع ہو جاتے ہیں۔ موٹروے یہاں سے تقریباً دو میل کے فاصلے پر ہے۔ ہمارے ٹھکانے سے نکلیں اور موٹروے کی طرف پیدل جائیں تو بیچ میں ایک بھی مکان نہیں آتا۔ شام کو نکلیں تو آگے بالکل سنسان علاقہ نظر آتا ہے۔ شہروں کی ٹریفک دیکھ کر میں تو گھبرا جاتا ہوں۔ اور پھر جب رہائشی منصوبوں پر نظر پڑتی ہے جو کہ اب اسلام آباد کے قریب موٹروے کے دونوں اطراف بننے لگے ہیں تو خیال آتا ہے کہ ہم اپنے ساتھ کرکیا رہے ہیں۔ جنگل کے جنگل اور دیہاتی رقبے ان منصوبوں نے ہضم کر لیے ہیں اور انہیں روکنے والا کوئی نہیں۔ چکری سے تو لوگ واقف ہیں کیونکہ یہاں پر انٹرچینج ہے‘ ہمارا گاؤں بھگوال چکری کے قریب ہی ہے۔ ہماری حکومتوں کو خدا ہی کوئی ہدایت دے کہ زرعی رقبوں اور قدیم پہاڑیوں کو رہائشی منصوبوں کی نہ ختم ہونے والی بھوک سے یہ بچا جائیں۔ ان رہائشی کالونیوں والوں نے پرائیویٹ فوجیں رکھی ہوئی ہیں جن کے ذریعے یہ زمینوں پر قبضہ کرتے ہیں۔ کسی کھیوٹ میں سے معمولی سا رقبہ اپنے نام کروا لیا اور اس کے بل پر پوری کھیوٹ پر قبضہ کرنے کی کوشش شروع ہو جاتی ہے۔ یہ جو پرائیویٹ فوجیں ان لوگوں نے پال رکھی ہیں‘ ان کے لوگ یا تو سابقہ علاقہ غیر سے ہیں یا افغان ہیں۔ کھاریاں کے قریب بھی جہاں رہائشی کالونیاں بن رہی ہیں‘ یہی قبضے کا کام جاری و ساری ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ہمارا جو علاقہ ہے‘ یہ دارالحکومت کے بالکل قریب ہے۔ میرے آنگن سے اسلام آباد تک سوا گھنٹے کی مسافت ہے۔ اسلام آباد کے اتنے قریب تو ایسی کارروائیاں نہیں ہونی چاہئیں تھیں لیکن پورے زور سے ہو رہی ہیں۔ پھر سیمیناروں میں ہم قانون کی حکمرانی کی بات کرتے ہیں۔ کون سا قانون اور کون سی حکمرانی؟
سیاسی پارٹیوں کے اور تو آپس میں بہت اختلاف ہوتے ہیں لیکن ان رہائشی کالونیوں والوں کے پاس کوئی جادو کی چھڑی ہے کہ تمام سیاسی پارٹیوں کا ان سے ایک لَو افیئر شروع ہو جاتا ہے۔ ہمارے جو بڑے بڑے مہربان اس زمین ہتھیانے کے دھندے میں ملوث ہیں‘ یہ ہر حکومت کے قریب ہو جاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی ہو‘ (ن) لیگ ہو یا تبدیلی پارٹی ہو‘ محبت کی پینگیں سب کی ان مہربانوں سے بن جاتی ہیں۔ پیسہ بڑی چیز ہے‘ یہ تو ہم مانتے ہیں لیکن ایسا بھی کیا کہ جو حکومت آئے‘ جیسی بھی ہو‘ ان زمین کے فنکاروں کا کام چلتا رہتا ہے۔ رِنگ روڈوں نے کہاں بننا ہے‘ ان کو پہلے سے پتا ہوتا ہے۔ وہیں ایک رہائشی کالونی لانچ کر دی جاتی ہے۔ پھرمیٹھی میٹھی آوازوں میں فون آنے لگتے ہیں کہ انویسٹمنٹ کا بڑا موقع ہے‘ ہمارے پراجیکٹ میں فلاں فلاں خوبیاں ہیں۔ زمین کوئی نہیں ہوتی‘ زمین کسی نے دیکھی بھی نہیں ہوتی لیکن فائلیں بکنے لگتی ہیں۔ زمین ہتھیانے والے ہمارے مہربان بڑی بڑی گاڑیوں میں دندناتے پھرتے ہیں‘ ہر سیاسی ڈیرے پر ان کی حاضری ہوتی ہے۔ یہ خرچے اٹھا رہے ہوتے ہیں اور اپنی مرضی کا کام کروا لیتے ہیں۔ بڑے بڑے لیڈر تو ایسے ہیں جن کے کچن کا خرچہ ان جیسے مہربان چلاتے ہیں اور کسی کو کوئی شرم بھی نہیں آتی کہ ایسا ہو رہا ہے۔
اصل پاکستان کے بادشاہ تو یہ لوگ ہیں‘ سیاسی پارٹیاں ان کے ہاتھوں میں کھیلتی ہیں۔ ایک بات ماننا پڑے گی‘ ان لوگوں کی انگلیاں پاکستان کی نبض پر ہیں اور یہ ہم سے بہتر سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں کام کیسے ہوتا ہے اور کیسے کرایا جاتا ہے۔ ہم تو ویسے ہی اداریے اور مضمون لکھتے رہتے ہیں اور فرضی باتوں پر زور آزمائی کرتے ہیں۔ یہ لوگ ہیں جو جانتے ہیں کہ کس دفتر سے فیصلے ہونے ہیں اور وہاں سے کام نکلوانے کا طریقہ کیا ہے۔ بیوقوف قوم کو بھی داد دینی چاہئے کہ سارا پیسہ کہیں اور انویسٹ نہیں کرے گی بلکہ زمین یا رئیل اسٹیٹ کے کاروبار ہی میں پیسہ جائے گا۔ پھر ہم کہتے ہیں انویسٹمنٹ نہیں ہو رہی‘ پاکستان کچھ پروڈیوس نہیں کرتا۔ خاک پروڈیوس کرنا ہے جب ہر ایک نے زمین کے کاروبار میں پیسہ لگانا ہے۔ بس راتوں رات پیسے آ جائیں‘ یہی ایک تناور خواب پاکستان میں رہ گیا ہے۔ اور پیسے بنتے ہی فوراً ہی باہر منتقل کر دیے جاتے ہیں۔ جو لمبی گاڑی والا دیکھو اس کا پیسہ کہیں باہر لگا ہوا ہو گا۔ لیڈروں کی تو بات ہی نہ کریں‘ سارے کے سارے ہی اس دولت کی منتقلی کے مرتکب ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب ایسی باتیں پاکستان میں بڑی معیوب سمجھی جاتی تھیں‘ پر اب تو سارا کچھ بدل چکا ہے‘ ماحول بدل گیا ہے‘ لوگوں کی ذہنیت بدل چکی ہے۔ ایک طبقہ امیر ہو گیا ہے اور ساتھ ہی ملک کا ستیاناس ہو گیا ہے۔
ایسے میں بتائیں سیاست پر لکھنا بہتر ہے یا مالٹوں کے درختوں کے بیچ میں ٹہلنا؟ عرصے سے اصرار ہے کہ یہاں تبصرے کرنا فضول ہے‘ عقل مند انسان کو اپنی شاموں کی فکر کرنی چاہیے۔ شب اچھی گزر جائے‘ موسیقی ہو‘ دقیانوسی خیالات رکھنے والے لوگوں سے دور رہا جائے۔ مغلیہ سلطنت جب اپنے زوال پر آ گئی تھی تو خوش قسمت لوگ یہی کرتے ہوں گے۔