ہیرا پھیری پر مبنی کوئی سلسلہ یا کام کتنی دیر چل سکتا ہے؟ اور وہ بھی تھوڑی سی ہیرا پھیری نہیں بلکہ مکمل ہیرا پھیری۔ وہ جو انگریزی لفظ ہے Legitimacy اس کا مفہوم کیا ہے‘ خاص طور پر جب اسے حکمرانی یا حکومت سے جوڑا جائے؟ یہ کہ حکمرانی کی قانونی اور اخلاقی حیثیت ہو تب ہی حکمرانی کا کام بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈکٹیٹر بھی آئیں‘ جنہوں نے اقتدار پر قبضہ کیا ہو‘ وہ بھی اپنے لیے کسی نہ کسی طریقے سے Legitimacy ڈھونڈتے ہیں۔ جنرل ضیا الحق مطلق العنان ڈکٹیٹر تھا‘ اُسے کیا ضرورت تھی ریفرنڈم کرانے کی؟ یہی کہ ایک ریفرنڈم کے ذریعے ہی وہ اپنے لیے ایک قانونی حیثیت حاصل کر لے‘ چاہے وہ ریفرنڈم بھونڈے پن کا اعلیٰ شاہکار ہو۔
اب یہ جو ناٹک ہمارے سامنے کھیلا گیا ہے‘ اس سے کسی کو کیا Legitimacyحاصل ہونی ہے؟ قومی اسمبلی کا اجلاس دیکھ لیں‘ حکمران بینچوں پر جو بیٹھے ہوئے ہیں‘ اُن کے چہرے تو خوشی سے تلملانے چاہئیں تھے لیکن ملاحظہ ہو کہ چہرے کیسے لٹکے ہوئے ہیں‘ بات ان سے سیدھی کی نہیں جا رہی‘ وجہ یہی ہے کہ انہیں معلوم ہے‘ ان کے دل بھی اس چیز کی گواہی دے رہے ہیں کہ وہاں بیٹھنے کا ان کے پاس کوئی جواز نہیں۔ دوسری طرف معتوب جماعت کو دیکھئے‘ اعتماد ہو تو اس جیسا ہو۔ اگلوں کو وہ بولنے نہیں دے رہے اور جہاں تک بولنے کی بات ہے اگلوں کو بات کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی۔ کیونکہ سب کو پتا ہے کہ قوم کے ساتھ کیا کھیل کھیلا گیا ہے۔
دیگر چیزوں کو چھوڑیے‘ عامر ڈوگر اور محمود خان اچکزئی کی تقاریر سن لیجیے۔ عامر ڈوگر نے الیکشن کا سارا حساب کتاب سامنے رکھ دیا اور ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ اور جو باتیں محمود خان اچکزئی نے کیں وہ یہاں بیان نہیں کی جا سکتیں کیونکہ کہنے کو تو اظہارِ رائے کی مکمل آزادی ہے لیکن کتنی آزادی ہے‘ وہ ہم سب جانتے ہیں۔ اچکزئی کی تمام باتیں پتے کی تھیں اور اس سادہ انداز میں انہوں نے کیں کہ دلوں میں اُتریں۔ لیکن اس امر کا افسوس ہی کر سکتے ہیں کہ ان باتوںکا ذکر کھلے عام یا کھلے انداز میں ہو نہیں سکتا۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارا ریاستی مزاج ہی ایسا بن چکا ہے کہ حقیقت کو نہ دیکھنا ہے‘ نہ سمجھنا ہے۔ ملک کو ہم نے کہاں پہنچا دیا ہے لیکن اب بھی افسانوں کی دنیا میں ہم رہتے ہیں۔ اپنے لیے ایک خول ہم نے بنایا ہوا ہے اورا سی میں رہ کر اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ لیکن ایسا کرنے سے کیا حقیقت مٹ جاتی ہے؟ آج ہمیں سچائی سے سب سے زیادہ خوف آتاہے‘ سچ سننے کی ہم میں ہمت نہیں۔ البتہ عوام ہر چیزکا ادراک رکھتے ہیں‘ اسی لیے اُنہوں نے الیکشن میں وہ کیا اور ووٹ وہاں ڈالے کہ بڑے بڑے ستون ہل کے رہ گئے۔ اور اب تک انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ آٹھ فروری کو جس سیاسی زلزلے نے ہر ایک چیز ہلا کے رکھ دی‘ اُس کے بعد کرنا کیا ہے۔
یہ دو تقاریر تو قومی اسمبلی میں ہوئیں اور جو تقریر خیبرپختوانخوا کے نومنتخب وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے وہاں کی اسمبلی میں کی وہ تو سننے سے تعلق رکھتی ہے۔ ایک تو اُس آدمی کا انداز ایسا دبنگ ہے کہ دلوں پر اثر کیے بغیر نہیں رہتا۔ انداز دبنگ ہو‘ باتیں بھی ایسی ہوں تو پھر اثر ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ میں اُن کی باتوں کو بھی یہاں بیان نہیں کرتا‘ آپ خود ہی یوٹیوب پر جائیں اور ساری تقریر سن لیں۔
بڑا سوال البتہ مختلف ہے۔ یہ تو مانیں گے نا کہ تمام حربے ناکام ہوئے۔ لیول پلینگ فیلڈ کی اصطلاح تو ایک مذاق بن کر رہ گئی ہے‘ جیسے گنڈا پور نے کہا کہ لیول پلینگ فیلڈ تو دور کی بات‘ ہمیں تو فیلڈ میں اترنے ہی نہیں دیا گیا۔ مقدمات کی بھرمار‘ خوف کا سماں پیدا کرنے کی تمام کوششیں‘ نشان لے لینا اور اُس کی جگہ مزاحیہ قسم کے نشانات الاٹ کرنا‘ یہ سب ہتھکنڈے بروئے کار لائے گئے لیکن کچھ کام نہ آیا۔ عوام کی رائے اور ووٹ کے ذریعے اُس رائے کے بھرپور اظہار نے سب کچھ خاک میں ملا دیا۔ سب ہتھکنڈے کرنے والوں کی حالت اب کیا ہو گی؟ آئندہ کے بارے میں کیا سوچ رہے ہوں گے؟
اصل مسئلہ البتہ کچھ اور ہے۔ دو دن کی کارروائی سے پتا نہیں چل گیا کہ ان سے یہ قومی اسمبلی نہیں چلے گی۔ پی ٹی آئی ممبران جذبات سے بھرے ہیں اور جو دوسرے ہیں اُن میں اعتماد کا فقدان ہے۔ اسمبلی نہیں چلے گی تو حکومت کہاں چلے گی؟ اور یہ تو پتا ہے سب کو کہ معیشت کے بارے میں مشکل فیصلے لینے ہیں‘ تو اس کیلئے مضبوط حکمرانی ناگزیر ہے۔ یہ جو حکومت میں لائے گئے ہیں اور جنہیں کرسیوں پر بٹھا یا گیا ہے‘ سیاسی طور پر یہ فالج زدہ ہیں‘ ان سے کیا فیصلے ہونے ہیں‘ یہ ملک کو استحکام کیسے دے سکتے ہیں؟ تو پھر ملک کا بنے گا کیا؟ روزمرہ کے اخراجات کیلئے پیسے نہیں۔ قرضوں اور اُن پر جو سود بنتا ہے اُس کی ادائیگی کیلئے پیسے نہیں۔ مستقل ادھار پر اس ملک کو ڈال دیا گیا ہے۔ حالات تو پہلے ہی خراب تھے‘ اس ناٹک نما الیکشن نے سیاسی حالات کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ ایسے میں جنہوں نے قرض دینا ہے‘ کچھ دے بھی دیا توکڑی شرائط لگائیں گے۔ باہر سے انویسٹمنٹ کچھ آ نہیں رہی۔ پھر بتائیے آگے کا راستہ کیا ہے؟ جس صورتحال میں قوم کو پھنسا دیا گیا ہے اس سے نکلنے کا راستہ کیا ہے؟
یہ کہنا آسان ہے کہ چرایا ہوا مینڈیٹ‘ مینڈیٹ کے حقداروں کو واپس کیا جائے‘ تب ہی آگے کا راستہ نکل سکتا ہے۔ لیکن ایسا کون کرے گا؟پاکستان کے مسائل تو بہت سارے ہیں لیکن ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس کی تقدیر چھوٹے لوگوں کے ہاتھوں میں آئی ہوئی ہے۔ یہ لوگ اپنے مفاد سے آگے دیکھ نہیں سکتے‘ اپنے مفاد کے علاوہ ان کی سوچ کہیں جاتی نہیں۔ اور یہ ہیں بھی طفیلی‘ اوروں کے سہاروں پر چل رہے ہیں۔ آزاد سوچ ان میں ہے نہیں۔ انہوں نے وہی کرنا ہے جو انہیں کہا جائے اور کہنے والوں کی صلاحیتوں سے بھی ہم بخوبی آگاہ ہیں۔ بڑی یا مدبرانہ سوچ کی توقع ان سے نہیں کی جا سکتی۔
ایک زمانہ تھا کہ تھانیداری نظامِ حکومت چل جاتا تھا لیکن وقت بدل چکا ہے اور اڈیالہ جیل کے قیدی کی وجہ سے پاکستانی عوام کی سوچ بھی بدل چکی ہے۔ زور زبردستی کا کام اب زیادہ دیر نہیں چلے گا جیسا کہ پہلے چل جایا کرتا تھا۔ لوگ بپھر سے گئے ہیں‘ عوام کا مزاج کچھ اور ہو گیا ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو یہ الیکشن والا طوفان برپا ہونا تھا؟ بیشتر علاقوں میں تو معتوب جماعت اپنی مہم نہیں چلا سکی‘ جھنڈے اُس کے کہیں دکھائی نہیں دیتے تھے‘ امیدواروں کو عجیب عجیب نشان دیے گئے۔ لیکن پھر بھی کیا ہوا؟ عقل آ جائے تو اور بات ہے لیکن تقریباً مکمل یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ عقل نہیں آئے گی۔ چھہتر سال ہو گئے ہیں‘ قوم کے معاملات میں کب عقل آئی ہے؟ تو پھر صورتحال یہ ہوئی نا کہ ایک طرف بپھرے ہوئے عوام اور دوسری طرف وہ جنہوں نے قسم کھائی ہوئی ہے کہ عقل پر لگے تالوں کو کبھی کھولنا نہیں۔ لہٰذا سوچنا پڑ جاتا ہے کہ پھر ہوگا کیا۔
ایک بات اچھی ہوئی ہے‘ جیسے بھی الیکشن ہوئے الیکشنوں کے انعقاد سے الیکشن سے پہلے والا جمود ٹوٹ گیا ہے۔ نئی حقیقتوں نے جنم لیا ہے‘ نئی چیزیں سامنے آ رہی ہیں اور نہ چاہتے ہوئے بھی نئی راہیں کھل رہی ہیں۔ جب جبر کی ہوائیں چل رہی تھیں‘ کوئی سوچ سکتا تھا کہ علی امین گنڈا پور کے پی کے کا چیف منسٹر ہو گا۔