جوانی کے دنوں میں چکوال سے راولپنڈی جانا اچھی بھلی مشقت والا کام تھا۔ نیو جہلم کی بسیں تو اچھی تھیں لیکن راستہ لمبا تھا۔ چکوال سے پہلے سوہاوہ‘ وہاں کچھ دیر کا قیام جس میں سواریاں بس سے اُترتیں اور جنہوں نے جلدی سے ایک کپ چائے پینا ہوتی ایسا کر لیا کرتے۔ پھر وہاں سے گجر خان اور وہاں بھی بس رکتی۔ اس کے بعد کہیں جاکر راجہ بازار کے قریب نیو جہلم کے اڈے پر پہنچتے۔ ٹیکسی لے کر صدر جاتے‘ جان پہچان تواتنی تھی نہیں‘ بس کامران ریستوران میں چائے پی یا قریب سپرریستوران سے آئس کریم کھالی۔ لندن بک کمپنی ضرور جاتے اور حسبِ استطاعت ایک آدھ کتاب خرید لیتے۔
آج کل ذرائع آمدورفت اور موٹروے کی وجہ سے چکوال اسلام آباد کے قریب تر ہو گیا ہے۔بھگوال سے سوا گھنٹہ لگتا ہے‘ چکوال سے کوئی ڈیڑھ گھنٹہ۔گزرے زمانے میں راولپنڈی کوئی اتنی جان پہچان نہ تھی۔اتوار کے روز صبح گیارہ بجے سیروزسینما میں میٹنی شو ہوا کرتا تھا۔ راولپنڈی کی لش پس فیملیوں کے لوگ شو دیکھنے آتے اور سماں یوں بندھتا کہ گماں ہوتا کہ کوئی فیشن پریڈ ہو رہی ہے ۔ پڑھتے تو لارنس کالج میں تھے لیکن ایک لحاظ سے ہم ایک چھوٹے شہر کے لوگ تھے اورلش پش لوگوں کو حسرت بھری نظروں سے دیکھتے تھے۔ زمانہ گزرچکا ہے اورکافی کچھ دیکھ چکے ہیں‘ اب بھی مسکن چھوٹے شہر میں ہے لیکن اگر یہ بات میں سمجھا سکوں تو چھوٹے شہر والی کیفیت نہیں رہی کیونکہ زندگی کی خاصی آزمائشوں سے گزرچکے ہیں۔ عمر کے اس حصے میں جوکچھ کرنا تھایا جسے کرنے کی ہمت تھی وہ کرچکے‘ وہ ارمان نہیں رہے کہ کون سی نوکری کرنی ہے یاکیا کچھ کرکے زندگی بنانی ہے۔ یہ مراحل ہم طے کرچکے ہیں اور گو حسرتیں اب بھی دل میں بہت ہیں لیکن زندگی بنانے کے حوالے سے جوانی کی بے تابیاں اب دل کو ستاتی نہیں۔ صحافت میں اب بھی ہیں‘ کچھ کچھ سیاست بھی کرلیتے ہیں لیکن ذہن ری لیکسڈ ہے۔ کہانا کہ پیشہ ورانہ بے تابیوں سے اب آزاد ہوچکے ہیں اور اس عمر میں یہ بھی نہ ہو تو سمجھئے کہ انسان اپنی زندگی میں جھک ہی مارتا رہا ہے۔
ایک فرق کم عمری اوراب میں بہت محسوس ہوتا ہے۔چھوٹی عمر میں تھے توکتابیں پڑھتے تھے۔ لارنس کالج سے سردیوں کی چھٹی آتا تو میرے لیے پاکستان ٹائمز لگ جاتی۔ گھر میں ویسے بھی اُردو کی تین چار اخباریں آتی تھیں‘ ہفت روزہ چٹان اور قندیل بھی باقاعدگی سے آتے۔کتابیں لینے کیلئے پیسے کی کوئی پابندی نہ ہوتی لیکن چونکہ والدصاحب تھوڑے سخت مزاج آدمی تھے تواور کئی چیزوں پر پابندی تھی۔مثال کے طور پر ہمارے گھر کوئی ریڈیو نہ تھا۔ کسی دکان یا چائے خانے کے سامنے سے گزرتا اوروہاں موجود ریڈیو پر کوئی لتامنگیشکر یا محمد رفیع کا گانا لگا ہوتا تو کانوں میں ایک عجیب کیفیت پیدا ہوتی۔ ایک دو دفعہ گزارش کی بھی کہ ریڈیو ہونا چاہیے لیکن میری بات ٹال دی گئی۔ یہ تو جب فوج میں گیا اورملیر پوسٹنگ ہوئی تومیں کبھی کبھار پرانے گانوں کی تلاش میں کراچی صدر کی طرف نکل جاتا۔ وہاں سے کچھ سہگل صاحب کے گانے ملے جو ایک ٹیپ ریکارڈ پر ریکارڈ کرلیے۔ یہ گرنڈگ ٹیپ ریکارڈر ہمارے بڑے بھائی تحفتاً باہر سے لائے تھے۔ مغربی کلاسیکل موسیقی سننے کو نہ ملتی۔ لیکن تب ایک چھوٹا ریڈیو ہاتھ آچکا تھا اور اُس پر جو باہر کی موسیقی سنی جاسکتی اُس کی کوشش ہوتی۔
اُن غریبانہ حالات کا آج سے مقابلہ کریں توزمین آسمان کا فرق لگتاہے۔ سچ مانیے تو یوٹیوب آسمانوں کی ایک نعمت ہے۔لچرپن کی تلاش ہو تو وہ آرزوبھی پوری ہو جاتی ہے لیکن موسیقی کا تھوڑا سا بھی کوئی شغف رکھے تو دنیا جہاں کا ذخیرہ اس میں موجود ہے۔کون سی چیز موسیقی کے حوالے سے یوٹیوب پر ڈھونڈے نہیں ملتی؟پرانے سے پرانے ہمارے فلمی گانے‘ ایسی گمشدہ چیزیں جن کا کبھی سوچ نہ سکتے تھے وہ بھی یہاں مل جاتی ہیں۔ہندوستانی کلاسیکی موسیقی میں آپ جو چاہیں سن سکتے ہیں۔ یوٹیوب کی کمپیوٹرترتیب ایسی ہے کہ آپ ایک قسم کے شوق کی تلاش میں نکلیں تواُسی شوق کے حوالے سے دریچے اور دروازے کھلتے جاتے ہیں۔یعنی آپ استاد بڑے غلام علی خان کاکوئی راگ سن رہے ہیں تو ساتھ ہی دیگر راگوں کے لنک کھلتے جائیں گے۔ اس لحاظ سے ہم جیسے اَن پڑھوں کی بھی موسیقی کی اچھی خاصی تعلیم ہو جاتی ہے۔
عین چکوال بازار کے بیچ میں اُسی پرانے گھر میں مسکن ہے جہاں جوانی میں رہتے تھے۔کمرے بھی وہی ہیں لیکن کمروں کی حالت کچھ بدل گئی ہے۔ وہی پرانا کمرہ‘ جس میں چارپائیاں بچھی ہوتی تھیں‘نے ایک لائبریری کی شکل اختیار کرلی ہے۔ تین چار کتابوں کی الماریاں ہیں‘ ساتھ ہی ایک میوزک سسٹم‘ فرش وہی پرانا لیکن اوپر کچھ قالین بچھے ہوئے ہیں۔فرش کی ایک جانب ایمروز کے اخبارات۔ شام کو جب اکیلے کی بیٹھک لگتی ہے تواور کہیں جانے کا دل نہیں کرتا۔ کتابیں ہوں‘ موسیقی ہو اورصوفے کے عین سامنے وہ الماری جس میں ہمارے لندن اورگلاسکو کے دوست (اللہ اُن کی عمریں درازکرے) کے بھیجے ہوئے تحائف‘ انسان کواور کیا چاہیے ؟الماری ہے تو ظاہر ہے کبھی کھلتی بھی ہے توپھر موسیقی کا مزہ کچھ اور ہی ہو جاتا ہے۔ پروردگار سے یہی دعا ہے کہ آئینی معاملات اورقانون کی حکمرانی والی باتیں ہماری بلا جانے‘ بس ہماری الماری آباد رہے اوراُس پر کبھی خزاں کے سائے نہ آئیں۔
رہی بات توبہ کی توعیسائی تاریخ کے بہت ہی بڑے سکالر سینٹ آگسٹِن کا معاملہ یاد آتا ہے۔عیسائیت میں اُنہی کوسینٹ کا درجہ عطا کیا جاتا ہے جن کا مذہب کے لحاظ سے مقام افضل ہو۔ ان میں سے ایک آگسٹِن تھے اور اُن سے یہ بات منصوب ہے کہ یا اللہ توبہ تو ضرور کرنی ہے لیکن ابھی نہیں‘ کچھ وقت بعد۔یہ بات انہوں نے اپنی جوانی کے ایام میں کہی۔ ظاہر ہے بڑی عمر میں ناصح اور زاہد اورسب کچھ ہو گئے اوراسی رو سے اُن کی یاد آج تک زندہ ہے۔ ہماری جوانی تو رہی نہیں لیکن پھر بھی دل میں تہیہ ہے کہ توبہ ضرور ہوگی لیکن کچھ دیر بعد۔سہگل صاحب کا کیا وہ گانا ہے 'رحمت پہ تیری میرے گناہوں کو ناز ہے‘ بندہ ہوں جانتا ہوں توبندہ نواز ہے‘۔ ہمیں تو لوہے کی مانند یقین ہے کہ جتنا بھی بھٹکیں یہی رحمت ہمارے کام آئے گی۔
یہ سب کچھ تواوپر والے کی مہربانیاں ہیں لیکن ہماری ڈھلتی عمر میں اس معاشرے کی اجتماعی دقیانوسی نے ایک پیچیدہ مسئلہ پیدا کر دیا ہے۔ یہ جو خوامخواہ کی رکاوٹیں اور پابندیاں ہیں یہ پتا نہیں کس چیز کے نام پر کھڑی کی گئی ہیں۔ہماری ڈھلتی عمر ان فضول پابندیوں کی مستحق نہ تھی۔ ایک تو جیب سے پیسے نکالنا اور پھرمال کی صحت پر یقین نہ ہونا‘ اس سے زیادہ کوئی فضول حرکت ہوسکتی ہے ؟ خدا کا خوف کرنا چاہیے‘ ضیاالحق کو گئے کتنا عرصہ بیت چکا ہے ؟ تب جو پابندیاں لگیں اُن کا ایک مخصوص تناظر تھا۔ وہ وقت گیا‘ وہ مجبوریاں گئیں۔ ایک پاکستان ضیا الحق سے پہلے کا تھا‘ وہ پاکستان واپس کیوں نہیں لایاجاسکتا؟سب کی بھلائی ہوگی‘ ہمارا معاشرہ تھوڑا صحت مند ہو جائے گا۔دنیا میں کوئی ایک جمہوریت نہیں جس میں ایسی پابندیاں ہوں۔ مانا ہم مکمل جمہوریت نہیں لیکن دعویٰ تو آئین اور قانون کی حکمرانی کا ہے۔ ہمارے ناصح اور دانشور حضرات جب پاکستانی جمہوریت کی مسلسل ناکامیوں کی بات کرتے ہیں تواس پہلو پر کچھ غور کیوں نہیں فرماتے؟
جوانی سے یاد آیا کہ چکوال کے پرانے عوامی ہوٹل کے ایک بوسیدہ کمرے میں اُبھرتی ہوئی گلوکارہ تصورخانم کا دیدارہواتھا۔ہم نے سمارٹ سا بلیزر پہنا ہوا تھا لیکن جیب خالی تھی ۔جوانی کا ایسا روپ تھا کہ آج بھی وہ دلکش نقوش دل میں محفوظ ہیں۔لیکن بے بس و لاچار تھے کیونکہ خالی جیب کی اپنی ہی منطق ہوتی ہے۔